2013ء کے عام انتخابات کے بعد میں نے مسلم
لیگ (ن) سیکرٹریٹ میں ایم این اے محترمہ عفت لیاقت اور ایم پی اے چوہدری
لیاقت علی خان کے بڑے صاحبزادے چوہدری حیدر سلطان سے تفصیلی انٹرویو کیا تو
جب میں یاد دلایا کہ آپ نے عام انتخابات میں یہ یہ وعدے کئے ہیں؟ تو اُن کا
جواب تھا کہ یہ تمام وعدے پورے ہوں گے۔ مگر اب جب 3 سال گذر جانے کے بعد
میں دیکھتا ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے شاید یہ وعدے پورے کرنا ممکن نہ ہو۔
چند وعدوں پر نظر دوڑاتے ہیں اور ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسے چکوال کو واٹر
سپلائی کا وعدہ کیا گیا تھا اس پر کچھ کام ضرور ہوا مگر کیا یہ جس انداز
میں اس منصوبے پر کام ہو رہا ہے کیا یہ مکمل ہو جائے گا؟ اور کیا یہ منصوبہ
واقعی عوام کو صاف و شفاف پانی مہیا کر سکے گا؟ اسی طرح چکوال کے طلباء و
طالبات کے لئے ایک جامعہ یعنی یونیورسٹی کا وعدہ تھا؟ اگرچہ اس کے لئے بھی
اخباری بیانات تو کافی آئے، زمین وغیرہ بھی دیکھی گئی، اخبارات میں فوٹو
بھی آئے مگر اس پر آگے کوئی کاروائی نظر نہ آئی۔ یعنی ابھی تک اس پر
باقاعدہ کوئی کام شروع نہیں ہوا۔ اسی طرح ایک معیاری ہسپتال کا وعدہ تھا
مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، وہ بھی پورا نہ ہو سکا اور تاحال اس پر
بھی کوئی کام نظر نہیں آرہا۔ اب اس کے علاوہ مندرہ سے چکوال اور سوہاوہ موڑ
سے چکوال روڈ عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں افراد کو روزانہ
کی بنیاد پر نقصان ہو رہا ہے، نجانے کتنی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی
ہے۔ حادثات روزانہ کا معمول بن چکے ہیں، قیمتی گاڑیاں تباہ و برباد ہو چکی
ہے مگر عوام کی یہ سزا ہے کہ کٹنے کا نام نہیں لیتی، آخر عوام جائیں تو
جائیں کدھر؟ اس پر بھی ایم این اے میجر طاہر اقبال نے بہت اخباری بیانات
دئیے اور شاید کچھ کوشش بھی کی ہو گی مگر ابھی تک عوام کو شاید 2018ء کے
الیکشن کا انتظار کرنا ہو گا۔ تلہ گنگ کو ضلع بنانے کا انتخابی وعدہ کیا
گیا تھا مگر وہ بھی وفا نہ ہو سکا۔ 2018ء کے الیکشن میں پھر انہی وعدوں کو
دہرایا جائے گا اور پھر کہا جائے گا کہ ہمیں پھر منتخب کریں، ہم آپ کے یہ
منصوبے پورے کر دیں گے یا پھر یہ تسلیم کرنے کی ہمت کی جائے گی کہ ہم عوام
کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکے۔ یقین کریں کہ چکوال کے 9 ارکان پارلیمنٹ
ہیں۔ اگر یہ سب عوام کے ساتھ مخلص ہوتے تو چکوال کو پیرس بنا سکتے تھے۔
چکوال ایک چھوٹا سا ضلع ہے اس پر صحیح معنوں میں کام کیا جاتا تو بہت اچھا
نتیجہ آسکتا تھا مگر سمجھ نہیں آتی کہ خامی کدھر ہے، ان منتخب میں یا پھر
ارباب اختیار میں۔ اگر منتخب نمائندے، ارباب اختیار سے اپنے اپنے منصوبوں
کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے تو یقینا نتائج مختلف ہوتے یا پھر ارباب اختیار
منتخب نمائندوں کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو دینی چاہئے یا پھر ارباب اختیار
تک کوئی منصوبہ پیش ہی نہیں کیا جاتا۔ منتخب نمائندوں کا کام تو یہی ہوتا
ہے کہ وہ عوام کی آواز بن کر اُبھریں، عوامی مسائل کو حل کرائیں مگر تاحال
اپنے ہی انتخابی وعدے پورے نہ ہو سکے، آخر عوام کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا
رہے گا؟ چکوال شہر کی تمام گلیاں کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ایک محکمہ
آتا ہے اور دُوسرا محکمہ آکر بنی بنائی سڑک کو اکھیڑ دیتا ہے اور پھر وہ
محکمہ بغیر سڑک کو درست کئے رفو چکر ہو جاتا ہے، کیا اس کو گڈ گورننس کہتے
ہیں؟ گندگی کے ڈھیر جگہ جگہ پڑے ہوئے نظر آرہے ہیں؟ کوئی نظام درست نہیں ہے،
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ عوام کے لئے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے عوامی
مسائل سے کیوں آنکھیں چرا لیتے ہیں؟ آخر اہلیان چکوال کا کیا قصور ہے؟ اور
سونے پر سہاگہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) چکوال سے ویسے ہی ناقابل تسخیر تھی اب اس
کو اور مضبوط کرنے کے لئے سردار غلام عباس بھی کاروان کا حصہ بن چکے ہیں۔
اب تو صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ مقامی نمائندوں کو نہ کسی تنقید کا ڈر ہے اور
نہ ہی کسی مشورے کی ضرورت ہے، اب تو اُن کو صاف صاف پتہ چل چکا ہے کہ ہماری
طاقت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ عوام کی طاقت کے
ذریعے عوام کے مسائل کو کوئی حل کرنے والا ہے؟ یا پھر عوام اسی طرح بس ووٹ
ڈالتے رہیں گے اور اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے منتخب نمائندوں سے پرچیاں
حاصل کرتے رہیں گے۔ عوام کو خود فیصلہ کرنا چاہئے۔ چکوال شہر کا منظر آپ کے
سامنے ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دُور دراز دیہات کا کیا
عالم ہو گا؟ چکوال شہر کو تو ماڈل شہر بنانا چاہئے تھا مگر ان تین سالوں
میں جو گلیاں اور سڑکیں بنی ہوئی تھیں اُن کو بھی اکھیڑ کر رکھ دیا گیا۔ یہ
نہیں سمجھ آرہی کہ آخر عوامی بجٹ جا کدھر رہا ہے؟ اہلیان چکوال یقینی طور
پر یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جن منتخب نمائندوں کو اُنہوں نے ووٹ دئیے
اُنہوں نے عوام کے لئے کیا کارنامے سر انجام دئیے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ
منتخب نمائندے عوام کے لئے اپنا تن من دھن لگا دیں، عوام کے لئے اپنی
نیندوں کو قربان کر دیں اور عوام کی خاطر زیادہ سے زیادہ وقت عوامی کاموں
کو نمٹانے میں لگائیں لیکن ایسا کہیں نظر نہیں آرہا؟ 2018ء انشاء اﷲ عام
انتخابات کا سال ہو گا اور یقینی طور پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو ایک
بار پھر عوام کی عدالت میں جانا ہو گا۔ جن جن اضلاع میں منتخب نمائندوں نے
عوام کے مسائل کو حل کیا ہو گا وہ یقینا سرخرو ہوں گے لیکن جس طرح چکوال کے
منتخب نمائندوں نے چکوال کے عوام کے ساتھ کیا ان کے لئے لمحہ فکریہ ہو گا؟
ہو سکتا ہے ایک بار پھر جمہوریت جیت جائے اور عوام ہار جائیں، لیکن یہ بات
ذہن نشین کر لیں کہ فتح بالآخر عوام کی ہوا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ اس وقت چکوال میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ
آخر آپ نے عوام کے لئے کیا کیا ہے؟ کیا یہ منتخب نمائندے انتخابی وعدوں کی
تکمیل کے لئے کوئی پریس بریفنگ کر سکتے ہیں؟ کیا یہ ذرائع ابلاغ کے
نمائندوں کو بتا سکتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ یہ کام کر دئیے ہیں؟ یقینا جواب
نفی میں ملے گا۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات نے آپ کو طاقت دی ہے اور یہ طاقت آپ کو
عوام کے ووٹ سے ملی ہے، آپ کو یہ طاقت عوام پر ہی لگانی چاہئے۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ جب عوام کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر پیچھے کچھ نہیں رہ جاتا۔
میں یہاں کئی نام بتا سکتا ہوں کہ جو عوام کے ووٹ کی وجہ سے بڑے نام ہوا
کرتے تھے لیکن آج ان کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کو
عوام نے مسترد کر دیا اور عوام نے مسترد کیوں کیا، چونکہ اُنہوں نے عوام کے
ووٹ کی قدر نہ کی۔ چکوال کے منتخب ارکان پارلیمنٹ کا ذاتی طور پر کوئی خاص
ووٹ بنک نہیں ہے۔ ان کو ووٹ صرف اور صرف شیر کے نشان کا ملتا ہے، چونکہ
چکوال مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ میری ارباب اختیار سے یہ گذارش ہو گی کہ
خدارا 2018ء کے لئے چکوال کی 6 سیٹوں کے لئے ایسے لوگوں کو مسلم لیگ (ن) کا
ٹکٹ ملنا چاہئے جو عوامی مینڈیٹ کا احترام کر سکیں اور عوام کے ووٹ کی قدر
کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ ڈسٹرکٹ چیئرمین کے لئے خدارا ایک بار پھر ایم این
اے، ایم پی اے، وزیروں، مشیروں کے علاوہ کسی خالصتاً عوامی اور کٹر کارکن
مسلم لیگی کو ٹکٹ جاری کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |