مودی سرکار کی دھمکیاں

بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی کشیدگی کی کہانی تو تقریبانصف صدی سے زیادہ پرانی ہے ہر سال دو سال، پانچ سال بعد دونوں ممالک کبھی درینہ دوستی کی مثالیں قائم کررہے ہوتے ہیں تو کبھی اپنی اذلی دشمنی کو نبھا رہے ہوتے ہیں ۔بات کرتے ہیں اس سال کی، کہ آخر 2016 میں ایسا کیا ہو ا کہ بھارت پر جنگی جنون پھرسے سوار ہو گیا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی چھاونی پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بنا کسی تحقیق کے بھارت نے پاکستا ن کو موردِالزام ٹھراتے ہوئے جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کیں۔ظاہر ہے مودی حکومت کو اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے کہ لیے اس سے بہتر حربہ کبھی نہیں سوجا کہ وہ پاکستان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے اور اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کرے۔آسان اور آزمودہ نسخہ پر عمل کرتے ہوئے کسی حد تک مودی حکومت اپنی سرکار کو مضبوط کرنے میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔
پسِ پردہ حقائق سے بے خبربرِصغیرپاک وہند کی عوام کو جس طرح ڈیڑہ سو سالوں سے بے وقوف بنایا جارہا ہے وہ آج بھی ،بھارت اور پاکستان بننے کے بعد یہ عوام بے وقوف ہی بن رہی ہے ۔تعلم و شعور سے دور عوام کو اپنے مفادات کی بھیٹ کل بھی چڑھایا گیا اورآج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔

درحقیقت بھارت کی ناراضگی کی وجہ وہ سی پیک منصوبہ ہے جس سے نہ صرف بھارت خوف زدہ ہے( بلکہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے والے ممالک اور وہ ممالک جن کو چین سے خطرہ ہے) بنیاد ہے۔ اب ظاہر ہے کہ دوسرے ممالک کھل کر پاکستان مخالف سرگرمیاں نہیں کر سکتے تھے لحاظابھارت اب اپنے اس ٹاسک پر عمل کررہا ہے کہ کس طرح پاکستان کو جنگی دباؤ میں رکھ کر اسے سی پیک منصوبہ سے دور رکھا جاسکے۔لحاظا جہاں جہاں اور جس حد تک بھارت اپنی کاروائیاں کر سکتا ہے کر رہا ہے اب چاہے وہ باقاعدہ سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے ہوں یا اندورنی دہشت گردی میں رُو کے ملوث ہونے شواہد ملنا۔ہر صورت میں پاکستان کو شدید نقصان پہچانے کے مذموم عزائم لیے بھارت ہر سطح پر چوکنا نظر آتا ہے۔

لیکن اتنا چوکنا رہنے والے بھارت کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج تو گزشتہ دہائی سے حا لتِ جنگ میں ہے اور مکمل طور پر دفاعی صلاحیت رکھنے والی اس فوج کے لیے بھارت کی جانب سے کی گئی کاروائی کا جواب نہ دینا فقط ملکی مفاد میں ترتیب دی گئی وسع ترحکمتِ عملی کا نتیجہ ہے ورنہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج میں شامل ہوتی ہے اور یہ بات عالمی سطح پر تسلیم کی جاچکی ہے۔ایل او سی پربھارت کی جانب سے معصوم شہریوں کو شہیدکرنا نہایت قابلِ افسوس اقدام ہے۔کتنے ہی فوجی جوان بھارت کی کاروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں ۔بھارت ہر صورت میں پاکستان کو اشتعال دلانا چاہتا ہے جبکہ جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں ہر گز نہیں۔دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں اور جنگ کی صورت میں مشرقِ وسطح میں فقط تباہ کن نتائیج ہی برآمد ہونگے۔

بھارت کی جانب سے دراندازی کا بھر پور جواب دیتے ہوئے جب پاکستان کی افواج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا تو بھارت کی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی اور مودی حکومت کے حالیا بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کی بوند بوند روک دیں گے۔مودی نے حکام کو ہدف دے دیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بہنے والے پانی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کس طرح اس پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے اور پاکستان میں جانے سے روکا جائے کیونکہ اس پانی پر بھارت کا حق ہے اور اس کو پاکستان میں نہیں جانے دے سکتے۔

مودی حکومت جتنی بھڑکیں مار لے وہ یہ جانتے ہیں کہ فوجی حملہ تو ان سے ہو نہیں سکے گا اور جو ہوا جیسے ہوا اس کے ابتدائی نتائج سے بھارت خود ہی خوف زدہ ہے۔ لحاظا اب پانی روکنے کی بات کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کومزید دباؤ کا شکار کیا جائے۔یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہنے والا پانی بھارت اور کشمیر کے ذریعہ پاکستان میں آتا ہے۔اور بھارت یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے پانی بند کردیا جاتا ہے تو پاکستان کو ذرعی طور پر اور بجلی کی پیداوار کے معاملہ میں کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے بھارت کے پاس اس بات کا منظم انتظام ہے کہ اگر وہ پاکستان کا پانی بند کر دے تو چند دن میں یہاں کے دریاء خشک ہو سکتے ہیں۔

اب سوال ان لوگوں پر اٹھتا ہے جو 69 سالوں سے پاکستان میں حکومت کرتے رہے یا کسی نا کسی طور پر اس ملک کی مشینری چلانے میں حصہ دار رہے۔بھارت کی طرف سے پانی بند کرنے کی دھمکیاں ملتی رہیں، جبکہ یکم ایپریل 1948 میں بھی بھارت پاکستان کا پانی روک چکا ہے ۔جیسے عالمی اداروں کی مداخلت کے ذریعے بحال کروایا گیا۔ــ" 1960ء کے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے۔ تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے ان دریاؤں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت ان میں سے کسی بھی منصوبے پر واضع کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاؤں تک محدود ہو گیا"۔

سند ہ طاس منصوبہ کے تحت بھارت اور پاکستان کے درمیا ن پانی کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی اختیار کی گئی لیکن ساتھ ہی معاہدے کی ایک شک کے مطابق اگر بھارت چاہے تو یہ معاہدہ ختم بھی کر سکتا ہے شامل کی گئی۔

تمام حالات کے باوجود ہمارے ملک کے رہنماوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اگر پڑوسی ملک کی طرف سے مستقبل میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے پاکستان کو پانی کے مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے تو کیا ہوگا!ہمارے حکمراں پہلے بھی سو رہے تھے اوراب بھی اس معاملے کی طرف سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔مستقبل کے ایسے منصوبے جو جو ملک کے مفاد میں ہوتے ہیں انھیں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر بیرونی طاقتیں ہمارے ملک کی کالی بھڑوں کو اس کام لگا دیتی ہیں کہ فلاں منصوبہ کامیاب ہی نہ ہونے سکے۔کتنے ہی ڈیم ایسے جن کو تعمیر کرنے پر تنازعات اتنے زیادہ ہیں کہ عام فرد اب صر ف اس کی مخالفت ہی کرنا جانتا ہے اس بات سے بے خبر کے آخر اس کی ان منصوبوں کی حقیقت کیا ہے ان میں سے ہی ایک منصوبہ کال باغ ڈیم کا بھی ہے ۔

30 اکتوبر 2013 میں مسلم لیگ ن کے سینٹر جعفر اقبال نے الزام لگایا تھا کہ بھارت کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر سالانہ 12 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے اگر ہم نے کوئی اور ڈیم تعمیر نہ کیا تو آئندہ دس برسوں میں پاکستان کو خشک سالی کا سامنا ہو سکتا ہے ۔

سال پر سال بیت رہے ہیں ۔ان سنجیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی نظر ترتیب نہیں دی جا رہی ۔بد قسمتی سے ہم اس وقت جاگتے ہیں جب معاملات کو قابوکرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ملک میں اسٹیل ملیں لگائی جاتی ہیں ٹرینوں اور بسوں کے منصوبے بنائے جاتے ہیں سڑکوں کی تعمرات کے لیے عربوں روپوں کے فنڈز مختص کئیے جاتے ہیں ۔لیکن پاکستان میں پانی کے مسائل کو نا پہلے حل کیا گیا نا اب کیا جارہے ہے۔ہماری حکومت قومی مفادکے لیے سی پیک منصوبے پر تو بناء کسی صوبے کو اعتماد میں لئے فیصلہ کر سکتی ہے لیکن جہاں ڈیم بنانے کی بات آتی ہے وہاں مصلحت کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔کالا باغ بند کا رونا روتے روتے بھی اب تو زمانہ بیت گیا ۔کیا ہمارے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں کہ ہم اپنے اوپر لٹکی ہوئی ہوئی اس تلوارکو ہٹا سکیں، جیسے ہر بار بھارت کی طرف سے شدید دھمکی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ حکومتی عوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندو کواقدامات کرنے ہوں گے منصوبے بنانے ہونگے ۔بھارت آئے دن اس حوالے سے اجلاس منقد کر رہا ہے-

کمیٹیاں بنا رہا کہ آخر پاکستان کا پانی کیسے روکا جائے لیکن پاکستان میں اب تک اعلی سطح پر اس بات کے حل کے لیے کوئی متبادل راستہ نہ تو سامنے آیا ہے اور نہ ہی اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے ۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311622 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.