فیدل کاسترو۔ایک انقلابی لیڈر
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
کیوبا میں سابق صدر فیدل کاسترو کے انتقال
کے بعد نو روزہ سوگ کا آغاز ہو گیا ہے جس کے دوران ان کی باقیات کو ان
راستوں پر لے جایا جائے گا جن پر سے گزر کر ان کے ساتھیوں نے بتیستا کی
حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں غم کا سماں ہے
جبکہ میامی میں وہ کیوبن افراد جو وہاں مقیم ہیں جشن منا رہے ہیں۔ کیوبا کے
انقلابی رہنما اور سابق صدر جمعہ کی رات 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
تھے۔عالمی سربراہان اور اہم شخصیات کی جانب سے فیدل کاسترو کے انتقال پر
تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ
کیوبا کے سابق صدر فیدل کاسترو کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے
جبکہ چین اور روس کے صدور نے کہا ہے کہ ان کے ممالک نے ایک اچھا دوست کھو
دیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ فیدل کاسترو
کو کیوبا میں تعلیم، ادب اور صحت جیسے شعبوں میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ
یاد رکھا جائے گا۔ان کے علاوہ پاپ فرانسس جنھوں نے گذشتہ سال فیدل کاسترو
سے ملاقات کی تھی نے ان کے بھائی کو بیجھے پیغام میں دکھ کا اظہار کیا
ہے۔اس سے قبل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کیوبا کے
انقلابی رہنما فیدل کاسترو ایک 'ظالم آمر' تھے جنھوں نے کئی دہایوں تک اپنے
ہی لوگوں پر ظلم کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اب
کیوبن عوام مزید آزاد مستقبل کی جانب بڑھیں گے۔فیدل کاسترو کی یک جماعتی
حکومت نے کیوبا پر تقریباً نصف صدی تک حکومت کی اور 2008 میں اقتدار اپنے
بھائی راؤل کاسترو کو منتقل کر دیا۔ان کے مداحین ان کے بارے میں کہتے ہیں
کہ انھوں نے کیوبا واپس عوام کو سونپ دیا۔ تاہم ان کے مخالفین ان پر حزب
اختلاف کو سختی سے کچلنے کا الزام لگاتے ہیں۔صدر راؤل کاسترو نے
سرکاری ٹیلی وڑن پر ایک غیر متوقع خطاب میں بتایا کہ فیدل کاسترو انتقال کر
گئے ہیں اور ان کی آخری رسومات سنیچر کو ادا کی جائیں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا
ہے۔ کہ 'کیوبا ایک مطلق العنان جزیرہ ہے، میں امید کرتا ہوں کہ آج کے دن سے
وہ اس خوف سے آگے بڑھیں گے جو انھیں نے طویل عرصے تک جھیلے ہیں، اور بہترین
کیوبن عوام بالآخر مستقبل کی جانب بڑھیں گے اور آزادی کے ساتھ رہ سکیں گے
جس کے وہ مستحق ہیں۔'خیال رہے کہ صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور کیوبا
کے درمیان سفارتی تعلقات سنہ 2015 میں کئی دہائیوں کے بعد بحال ہوئے
تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اس پر تنقید کا اظہار کیا تھا لیکن
اپنے حالیہ بیان میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ
جو کچھ کر سکے کرے گی تاکہ کیوبا کے لوگوں کا 'آزادی اور خوشحالی کی جانب
سفر کو یقینی بنایا جاسکے۔'دوسری جانب صدر اوباما کا کہنا ہے کہ تاریخ 'کاسترو
کے بے پناہ اثر کو پرکھے گی اور یاد رکھے گی۔' ان کا کہنا تھا کہ امریکہ 'کیوبا
کے عوام کی جانب دوستی کا ہاتھ' بڑھا رہا تھا۔فیدل کاسترو کا شمار بیسویں
صدر میں طویل ترین عرصہ تک برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں ہوتا
ہے۔انھوں نے 2006 میں صحت کی خرابی کے باعث عارضی طور پر اپنے بھائی کو
اقتدار سونپا تھا۔ تاہم دو سال بعد ان کے بھائی راؤل کاسترو باقاعدہ طور پر
کیوبا کے صدر بن گئے تھے۔ان کی آخری رسومات سنیچر کو ادا کی جائیں گے جبکہ
چار دسمبر تک ملک میں سرکاری سطح پر سوگ منایا جائے گا جب ان کی جسدخاکی کو
نذر آتش کرنے کے بعد اس کی راکھ کو جنوب مشرقی شہر سان تیاگو میں دفن کیا
جائے گا۔ فیدل کاسترو عہد حاضر کے ان عوامی رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے
امریکا کی دہلیز پر کیوبا کی ریاست اور حکومت کے قیام سے لے کر اپنی موت تک
ایک عظیم مزاحمتی جنگ لڑی۔ ان کی موت کی اطلاع اور تصدیق موجودہ صدر اور
اور کاسترو کے چھوٹے بھائی راول کاسٹرو نے کی۔سرد جنگ کے نقطہ عروج پر
کاسٹرو نے تیسری دنیا میں اپنی طلسماتی انقلابی شخصیت کی دھاک بٹھا دی تھی،
وہ عوام کے محبوب رہنما تھے۔ کاسترو نے 1953 نے مونکاڈا ملٹری بیرکس پر
حملے میں ساتھیوں کے ہمراہ حصہ لیا تھا مگر ناکام حملے کے باعث وہ گرفتار
ہوئے وہ کیوبا سے باہر چلے گئے اور 6 سال جلاوطن رہ کرواپس کیوبا آئے۔ وہ
کیوبن آمر بیتستا کی 80 ہزار فوج کو شکست دے کر کیوبا میں داخل ہوئے
تھے۔1959 میں وہ کیوبا میں بر سر اقتدارآئے، ایک طویل مدت تک کیوبن عوام کی
خدمت کرتے رہے، ان کے انقلابی آدرش کی تقلید کئی عالمی مارکسی انقلابی
لیڈروں نے کی، چی گویرا ان میں سے ایک تھے،کاسٹرو سیکڑوں مرتبہ ناکام
قاتلانہ حملوں سے بچتے رہے جب کہ کئی امریکی صدور کو تبدیل ہوتے دیکھتے
رہے، انکل سام سے کشمکش اور چپقلش ان کی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا ایک ان
مٹ تاریخی باب ہے، امریکی خفیہ ایجنسی اور کیوبا کے بعض جلاوطن شہری ان کی
زندگی کے درپے رہے مگر ہر بار انہیں ناکامی ہوئی۔ کاسترو نے اپنے ملک میں
سماجی و معاشی اصلاحات کا موثر نیٹ ورک قائم کیا جس میں تعلیم اور صحت کو
بنیادی ترجیح حاصل تھی۔اگرچہ امریکہ نے کیوبا پر حکمرانی کرنے والے کاسترو
سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کی لیکن اس طویل عرصے میں امریکہ
میں دس کم ازکم صدور تبدیل ہو چکے تھے۔دنیا کے طول وعرض میں کمیونزم کو
شکست دینے کے باوجود کاسترو امریکہ کے اپنے ہی دروازے پر ایک چبھتی ہوئی
زندہ یاد کی صورت میں موجود رہے۔فیدل الیہاندرو کاسترو تین اگست 1926 میں
کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے جو پیشے کے اعتبار سے جاگیردار تھا
لیکن اپنی آرام دہ طرز زندگی لیکن اردگرد پھیلی اذیت ناک مفلسی کی صورت میں
سماجی تفریق اور دیگر مصائب ان کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھے اور اسی نے
انھیں انقلابی بناڈالا۔اس وقت کیوبا پر فلجینسیو بتیستا کی حکومت تھی جن کا
اقتدار بدعنوانی، تنزلی اور عدم مساوات کی علامت تھا۔ کاسترو اس کے خاتمے
کے لیے پرعزم تھے۔اس زمانے کا کیوبا کسی کھلنڈرے شخص کے لیے جنت کی مانند
تھا لیکن درحقیقت وہ منظم مجرموں کی پناہ گاہ کی مانند تھا۔ وہاں جسم
فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی سمگلنگ عام تھی۔کاسترو اور اس کے انقلابی
گروہ نے موجودہ گوانتاناموبے کے جنوب میں واقع سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں
میں موجود اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے کی منصوبہ بندی
کی۔دو جولائی کو 1959 کو کیوبا کے صدر مقام ہوانا میں یہی باغی فوج داخل ہو
گئی۔ نتیجتاً کاسترو فتحیاب ہوئے، بتیستا کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی اور
کیوبا کو نئی حکومت مل گئی۔ یہ کامیابی ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے
انقلابی ارنسٹ چی گیوارا کو بھی ملی تھی جنھوں نے کاسترو کی انقلابی تحریک
میں حصہ لیا تھا اور بعد میں حکومت کا حصہ بھی بنے۔کیوبا کے نئے حکمرانوں
نے لوگوں کی زمینیں واپس کرنے اور غربا کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا۔ لیکن
جلد ہی منظر نامہ بدل گیا، حکومت نے ملک میں یک جماعتی نظام مسلط کر دیا جس
کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو جیل کی ہوا کھلائی گئی اور مزدوروں کے کیمپ
سیاسی قیدیوں سے بھر گئے۔ صرف یہی نہیں ہزاروں لوگوں کو جلاء وطنی اختیار
کرنی پڑی۔بے آف پگ بغاوت کے دوران فیدل کاسترو ٹینک سے چھلانگ لگاتے
ہوئیکاسترو کا دعویٰ تھا کہ ان کے نظریے میں سب سے مقدم حیثیت کیوبا کے
عوام کی ہے۔انھوں نے ایک موقعے پر کہا تھا: 'اشتراکیت اور مارکسیت سے نہیں،
مگر بہتر منصوبہ بندی سے تشکیل دی گئی معیشت میں جمہوریت اور سماجی انصاف
کی ترجمانی ہوتی ہے۔'
1960 میں فیدل کاسترو نے کیوبا میں موجود ان تمام کاروباروں کو قومی ملکیت
میں لے لیا جو دراصل امریکہ کی ملکیت تھے۔ جواباً امریکہ نے کیوبا پر
تجارتی پابندیاں عائد کر دیں جو حالیہ برسوں میں صدر
براک اوباما کے دور میں کہیں جا کر اٹھنا شروع ہوئیں۔کاسترو یہ دعویٰ کرتے
تھے کہ انھیں مجبوراً سوویت یونین کے سربراہ نیکیتا کروسچو سے رابطے استوار
کرنا پڑے، تاہم سے بہت سے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کاسترو نے اپنی خوشی اور
مرضی سے سوویت یونین کو گلے لگایا تھا۔اس سے قطع نظر کہ ان کے اس اقدام کے
کیا پیچھے کیا محرکات تھے، نتیجتاً کیوبا سرد جنگ کا میدان بن گیا۔اپریل
1961 میں امریکہ نے کیوبا سے کاسترو کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی
اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کے لیے اسیری کی زندگی گزارنے والے کیوبا
کے باشندوں کو غیر سرکاری فوج میں بھرتی کرنا شروع کر دیا۔کیوبا کے ساحل بے
آف پگز میں امریکی معاونت میں تربیت حاصل کرنے والے کیوبن باشندوں نے حملہ
کیا لیکن کیوبا کے فوجی دستوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس لڑائی میں لاتعداد
حملہ آور مارے گئے جبکہ ایک ہزار کے قریب گرفتار ہوئے۔فیدل کاسترونے اس
حملے کو ناکام بنا کے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیے، جسے امریکہ ایک عرصے
تک نہیں بھلا سکا۔اگلے برس یعنی 1962 میں امریکہ کے جاسوس طیاروں نے کیوبا
کے مختلف مقامات پر سوویت یونین کے میزائلوں کی موجودگی کا پتہ لگایا۔ اس
کے بعد اچانک دنیا بھر پر ایٹمی جنگ کے سیاہ بادل چھا گئے۔دو عالمی طاقتیں
ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہو گئیں۔ لیکن پلک جھپکنے کی پہل
روس کے صدر نیکیتا کروشیف نے کیوبا سے میزائل نکالنے کی صورت میں کی۔ اس کے
بدلے میں ترکی سے امریکی ہتھیاروں کو نکالنے کا خفیہ معاہدہ طے ہوا۔فیدل
کاسترو نے دعوی کیا تھا کے انھیں نکیتا خروشیف کے ساتھ اتحاد میں شمولیت کے
لیے مجبور کیا گیا تھاکاسترو امریکہ کے دشمنوں کی فہرست میں اول نمبر پر
تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے انھیں آپریشن مونگوس میں قتل کرنے کی کوشش
کی، لیکن وہ بچ نکلے۔دوسری جانب سوویت یونین کیوبا میں پیسہ انڈیل رہا تھا۔
اس نے جزیرے کی گنے کی کاشت کا وسیع رقبہ خرید لیا۔ بدلے میں ہوانا کی
بندرگاہ پر اس کے ساز و سامان سے لدے جہاز اترتے تھے۔ امریکہ کی جانب سے
تجارتی بندشوں کی وجہ سے کیوبا میں ان اشیائے ضرورت کی شدید قلت تھی۔سویت
یونین پر انحصار کے باوجود کاسترو نے کیوبا کو غیر وابستہ تحریک میں شامل
کیا جو اس وقت نوزائیدہ تھی۔ لیکن دوسری جانب کاسترو اتحادوں کا حصہ بھی
بنے خاص طور پر انھوں نے افریقہ کی معاونت کی۔ انھوں نے اپنے فوجی دستے
انگولا اور موزمبیق میں مارکسٹ گوریلوں کی مدد کے لیے بھیجے۔80 کی دہائی کے
نصف تک عالمی سطح پر جغرافیائی سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا۔ یہ میخیل
گورباچوف، گلاس نوسٹ اور پیرسٹروئکا کا زمانہ تھا اور یہی کاسترو کے انقلاب
کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ادھر روس نے کیوبا کی معاشی مدد سے ہاتھ
کھینچ لیا اور اس سے مزید چینی لینے سے انکار کر دیا۔ امریکی تجارت کی بندش
اور سویت یونین کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے کیوبا میں بڑے پیمانے پر ضروری
اشیا کی قلت پیدا ہو گئی۔ جب خوراک کے حصول کے لیے قطاریں طویل ہونے لگیں
تو عوامی ضبط بھی مزید کم ہوتا چلا گیا۔کاسترو کی فورسز 1959 میں ہوانا میں
داخل ہوئیں۔وہ ملک جس کے لیے کاسترو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دنیا کا سب سے
ترقی یافتہ ملک ہے، درحقیقت واپس ہل جوتنے کے زمانے میں پہنچ چکا تھا۔90 کی
دہائی کے وسط تک کیوبا کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اگر
پہلے لوگ سیاسی اور معاشی وجوہات کی وجہ سے اسیری کی زندگی کی جانب مائل
ہوئے تھے تو اب ہزاروں ایسے تھے جو ایک اچھی زندگی کا خواب آنکھوں میں
سجائے سمندری راستے سے امریکی ریاست فلوریڈا ہجرت کر گئے۔بہت سے ایسے تھے
جو دوران سفر اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ایسا کرنا ان کی جانب
سے کاسترو کے لیے عدم اعتماد کا ووٹ تھا۔بکھرنے والے خاندانوں میں سے ایک
مثال نو عمر بچے ایلین گونزالز کی ہے جس کی والدہ فلوریڈا کے سفر کے دوران
وفات پا گئی تھیں۔ کیوبا اور میامی میں اس کے خاندان کے درمیان طویل تنازعے
کے بعد وہ ہوانا واپس آ گیا تھا۔اس عرصے میں کاسترو کی حکومت نے اندرونی
سطح پر چند قابل توجہ اہداف حاصل کیے۔ ان میں تمام عوام کے لیے بہتر طبی
سہولیات کی فراہمی نمایاں تھی، اسی کی بدولت کیوبا میں بچوں کی اموات ترقی
پذیر ممالک سے کم ہو گئی۔ اپنے دور حکومت کے آخری عرصے میں کاسترو کافی حد
تک بالغ نظر ہو چکے تھے۔1998 میں پوپ جان پال دوم نے کیوبا کا غیر معمولی
دورہ کیا جس کے لیے اس سے پانچ سال قبل تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس
موقعے پر پوپ نے انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے کیوبا پر کڑی تنقید کی۔
عالمی میڈیا کے سامنے کاسترو کے لیے یہ سب باعث شرمندگی تھا۔اپنی واضح
کوتاہیوں کے دوسری طرف اقتدار کے آخری برسوں میں کاسترو نے کیریبئین
کمیونزم کی ایک انوکھی طرز کو متعارف کروایا۔اپنے انقلاب کو بچانے کے لیے
کاسترو سرمایہ کارانہ نظام 'فری مارکیٹ' کی اصلاحات کو اپنانے اور آہستہ
آہستہ متعارف کروانے کے لیے مجبو ر ہو گئے۔پوپ جان پال دوئم نے اپنے کیوبا
کے دورے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تنقید کے لیے استعمال کیا۔2004 میں
کاسترو کی گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور بازو بھی متاثر ہوا جس کے بعد سے
کاسترو کی صحت کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کرنے لگیں۔ یہ بھی کہا جانے
لگا کہ ان کا 24 سالہ بھائی راؤل ممکنہ طور پر ان کی جگہ ذمہ داریاں سنبھال
لے گا۔جولائی 2006 میں جب کاسترو کی 80 ویں سالگرہ میں چند ہی روز باقی
تھے، کاسترو نے آنتوں کے آپریشن کے بعد اپنے اختیارات عارضی طور پر اپنے
بھائی کے حوالے کر دیے۔اس دوران کیوبا کی حکومت نے مسلسل طور پر اس خبر کی
تردید کرتی رہی کہ کاسترو کو لاحق کینسر خطرناک حد کو پہنچ چکا ہے۔ بعدازاں
فروری2007 میں کاسترو کے بھائی نے اعلان کیا کہ کاسترو کی صحت بہتر ہو رہی
ہے۔ٹھیک ایک سال بعد کاسترو نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ
قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں صدر اور کمانڈرانچیف کی حیثیت سے شرکت نہیں
کریں گے۔کاسترو نے عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 'ریفلیکشنز
آف کامریڈ' کے عنوان سے ملکی میڈیا کے لیے تحریریں لکھنے لگے۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ کیوبا کے بہت سے لوگوں نے کاسترو کو آزمانا چھوڑ دیا تھا لیکن
بہت سے ایسے بھی تھے جنھیں ان سے حقیقی پیار تھا۔وہ کاسترو کو ڈیوڈ کی طرح
سمجھتے تھے جو امریکہ کے گولائتھ کے سامنے کھڑے ہونیکی ہمت رکھتا تھا اور
جس نے کامیابی حاصل کی تھی۔
ان کے لیے کاسترو کیوبا اور کیوبا کاسترو تھا۔کاسترو ایک انقلابی شخصیت کے
طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائے گے۔ |
|