پاکستانی قوم ایک عجیب وغریب مخمصے میں
گرفتارہےکہ ہر روزکوئی نہ کوئی نیاتنازعہ جنم لیتا رہتا ہے۔پچھلے سات ماہ
سے پانامالیکس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں نے قوم کوایک ہیجان میں مبتلاکر
رکھاہے اورقومی مسائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کے گریبان کوچاک
کرنے کاسلسلہ طول پکڑتاجارہاہے۔ اس کی گردابھی بیٹھی نہیں کہ سیکورٹی لیکس
کے تنازعہ نے ہلاکررکھ دیاہے۔وزیراطلاعات پرویزرشیدکی قربانی کے
باوجودمعاملہ سردنہیں ہوااور سیکورٹی لیکس کی تحقیقات کیلئے ایک ماہ
بعدبننے والی کمیٹی بنتے ہی مستردقرارپاگئی ہے ۔اس حساس ترین معاملے پر
حکمران قیادت کی طرف سے جوطویل مشوروں کے بعدقائم کردہ کمیٹی کے سربراہ
جسٹس(ریٹائرڈ)عامررضاکے بارے میں سب سے زیادہ سوالات سامنے آئے ہیں جبکہ
بعض دیگراراکین بھی اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات کے زدمیں ہیں۔اب دیکھنایہ
ہے کہ ایک انتہائی سنجیدہ وحساس قرارپانے والے اس معاملے سے قومی قیادت کس
طرح عہدہ برأ ہوتی ہے اور اداروں کے درمیان برھتی ہوئی عدم اعتمادکی فضا
کو ختم کرکے یکجہتی کے ساتھ کس طرح آگے بڑھنے کی سبیل پیداہوتی ہے۔
جہاں تک عدم اعتمادکی فضاکاتعلق ہےاس کی جڑیں اگرچہ قومی تاریخ کے صفحات
پردورتک پھیلی ہوئی ہیں لیکن عدم اعتمادکی جاری لہر کی جڑیں محض ایک سال کے
اندرتک ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ اس فضاکاایک اہم سبب بھارتی وزیر اعظم
نریندرمودی کاوزیراعظم میاں نوازشریف سے ذاتی تعلقات نبھانے کیلئے ان کی
سالگرہ اورنواسی کی شادی کے سلسلے میں اچانک لاہور آناتھا۔پاکستان کے خلاف
ہرسطح اوردنیاکے ہرگوشے میں سازشوں کاجال بنتے رہنے والے نریندرمودی کا اس
قدرذاتی قربت کااظہارایک نئی بحث کاباعث بن گیا۔ان بحثوں ،تبصروں اورتجزیوں
کے نتیجے میں یقیناً کوئی خوشگوارتاثرپیدا ہونامشکل تھا۔نریندرمودی کے اس
دورۂ جاتی امرا کے بعدماہ مارچ کے پہلے ہفتے بھارتی راکے افسرکلبھوشن
یادیو کی صوبہ بلوچستان سے عمل میں آنے والی گرفتاری نے صورتحال کومزیدشدت
اورحدت کی طرف دھکیل دیا۔ کلبھوشن یادیوکی گرفتاری اورانکشافات نہ صرف
پاکستان میں دہشتگردی کیلئے بھارتی سازشوں کی ازخود ایک تفصیلی کہانی بیان
کر رہے تھے بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھارت کی کھلی دشمنی
اوربغض دوسرے ملکوں کی جلن کا بھی مظہر تھے۔کلبھوشن یادیوبھارت کی ان
سازشوں کے تانے بانے بننے کا ایک اہم ذمہ دارتھا۔اس کی گرفتاری بلاشبہ
پاکستان کی بڑی کامیابی تھی کہ بھارت جوپاکستان کودنیاکے ہرفورم
پردہشتگردثابت کرنے کیلئے بھاگ دوڑمیں رہتاہے، کااصل چہرہ دنیاکے سامنے پیش
کرنے کاموقع پاکستان کے ہاتھ آگیالیکن بجائے اس کے کہ اس موقع سے فائدہ
اٹھایاجاتا بوجوہ کلبھوشن کی گرفتاری کی اس نعمت غیرمترقبہ کوبھی ہم نے
اپنے ہی خلاف ایک موقع میں تبدیل کرلیا۔اس میں کس کاکتناحصہ تھا،کون حق
بجانب اورکون ذمہ دار تھا،اس بحث کاشائدوقت گزر چکاہے کہ اب تواس کے نتیجے
میں پیداہونے والی عدم ِاعتمادکی فضا کے غیراعلانیہ مضمرات کوبھگتنے
کامرحلہ درپیش ہے۔ابھی ان معاملات سے حکومت کوسنبھالا ہی نہیں ملاتھاکہ
اگلے ہی مہینے پانامالیکس سامنے آگئیں ، گویایک نہ شد دو شدوالی صورتحال
پیداہوگئی۔پانامالیکس میں میاں نوازشریف کانام تو شامل نہ تھالیکن ان کے
بچوں کے نام شامل ہونے کی وجہ سے خود وزیراعظم کوصفائی پیش کرنے اوروضاحتیں
دینے کی کئی بارضرورت درپیش ہوگئی۔وزیراعظم نے اپنی صفائی اورپاک دامنی کے
حوالے سے یہ بھی کہاکہ جنہوں نے غلط طریقے سے پیسہ کمایاہویادونمبری کی
ہو،وہ اپنے نام پرکاروبارنہیں کرتے ۔وزیراعظم کواس سچ کاکریڈٹ دیناچاہئے کہ
وطن عزیز پاکستان میں یہ حقیقت ہے کہ مختلف شعبوں میں منصب قیادت پر فائز
رہنے والی اہم ترین شخصیات کے ہاں یہی رحجان غالب ہے۔ بچوں،بیویوں،بھائیوں
ودیگر رشتہ داروں کے علاوہ فرنٹ مینوں کے نام پر کاروبارکرنے اورپیسے پکڑنے
کاکلچراسی عارضے یاعادت کااظہار ہے ۔وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں تقریرکی
اورعدلیہ کوبھی خط لکھامگرپانامالیکس کامعاملہ رکا نہ آگے بڑھاتا آنکہ اب
ماہ اکتوبرمیں سپریم کورٹ میں دائرکی گئی درخواستوں کے نتیجے میں
پانامالیکس ایک باضابطہ کیس کے طورپرکیس کے طورپرزیرسماعت آنے کی راہ
ہموارہوگئی اور۲نومبر کوپہلی جبکہ ۷نومبرکودوسری سماعت ممکن ہوئی اوریوں اب
معاملہ ۱۵ نومبرسے معاملہ چل سوچل ہے جبکہ اس مقدمے کی سب سے بڑی فریق
جماعت کے انتہائی سنئیرترین وکیل حامدخان نے نہ صرف اچانک اس مقدمے
کومزیدلڑنے سے معذرت کرلی ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے مقدمات سے بھی اپنانام
واپس لے لیاہے جس کے بعدپارٹی کے سربراہ اپنے دوست کی بہن کی شادی میں شرکت
کے سلسلے میں جہاں مانچسٹرپہنچے وہاں اپنے بچوں کوملنے کیلئے لندن بھی میاں
صاحب کے مجوزہ فلیٹوں کے بارے میں مصدقہ ثبوتوں کی تلاش میں اپنی نئی
کامیابیوں کی نویدبھی قوم کوسنانے کیلئے بیتاب ہیں،اب دیکھئے فیصلے کی گھڑی
کب آتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
نوازحکومت کوایک مرتبہ پھراس طرح کی صورتحال کاسامناہے جیسی صورتحال اس سے
پہلے کے ادوارمیں نواز حکومت کودرپیش رہی ہے، گویا چیلنج کاساسماں ہے۔اگرچہ
بلاول بھٹوزرداری کے بقول میاں نواز شریف بہت تجربہ کارسیاست دان
ہیں۔نوجوان سیاستدان بلاول کے علاوہ یہ خراجِ تحسین ڈیڑھ سال قبل چینی
صدرشی جن ینگ بھی میاں نوازشریف کوپیش کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجودیہ حقیقت
بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مسائل ہیں کہ چیلنجوں کی شکل اختیارکر چکے
ہیں۔اہم فیصلوں کومؤخر اور اقدامات کوالتوا میں رکھناایک عمومی اسلوب
حکمرانی بنتاجارہا ہے۔پانامالیکس کے حوالے سے معاملات اگرپارلیمنٹ میں
یامتعلقہ اداروں کے فورم پرطے کرنے کی حوصلہ افزائی موجودہوتی توعدالت
عظمیٰ کو مداخلت کاہرگزموقع نہ ملتالیکن اب یہ نوشتۂ دیوارہے کہ معاملہ
عدلیہ کے ہاتھ میں ہے اورحکومتی دائرۂ اختیار سے نکل چکاہے اورشنیدیہ بھی
ہے کہ پانامالیکس کے مقدمے کے دوران کبھی بھی لندن ہائی کورٹ فیصلے میں
حدیبیہ پیپرملزکے خلاف التوفیق گروپ کے قرضے کی یکمشت ادائیگی کاذکربھی
چھڑسکتاہے جس میں اغلباًپاناماسے بھی زیادہ شدید خطرناک معاملات کا پنڈورہ
بکس کھل سکتاہے جویقیناً میاں نواز شریف صاحب کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ
کاموجب بن سکتا ہے۔اس لئے فیصلے سے پہلے آئے روزکی میڈیامیں سنسنی خیزگفتگو
کی اذیت ناک جگ ہنسائی کے علاوہ فیصلے تک وزیر اعظم میاں نواز شریف ،ان کے
خاندان اور ان کی وجہ سے حکومت پرلٹکتی رہنے والی تلوارکیونکر خوش کن
ہوسکتی ہے ۔ یقیناًاس سے روزمرہ کے بہت سے اموربھی متاثرہونے کا احتمال
ہے،ساکھ کوبھی خطرہ ہواورعلاوہ ازیں کچھ مزید بھی ہو سکتاہے۔باعزت بری ہونے
کی صورت میں بھی کم ازکم یہ ڈس کریڈٹ سیاستدانوں،سیاسی جماعتوں اور
پارلیمنٹ کے نام جائے گاکہ یہ اپنے معاملات کواتنے تجربہ کارہونے کے بعدبھی
خودطے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔(جاری ہے) |