بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر کی
جانیوالی بربریت دراصل حقیقت میں اس بربریت سے کہیں کم ہے جس بربریت کا
مظاہرہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے اندر کر رہا ہے مگر کنٹرول لائن پر ہونیوالی
بھارتی بربریت دراصل حقیقت میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کئے
جانیوالے ریاستی جبر کو چھپانے کیلئے انتہائی مؤثر مہم ثابت ہوئی ہے اور
بھارت ہر آنیوالے دن کے ساتھ اس بربریت میں اضافہ کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ
یہی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اگر اسے مقبوضہ کشمیر کے اندر ہونیوالی ناکامی
کی سیاہی جو اسکے چہرے پر لگ چکی ہے سے دنیاکو چھپا کر رکھنا ہے تو اسے
کنٹرول لائن پر بربریت کا مظاہرہ کر کے پاکستانی افواج،عام شہری ،سماجی
حلقوں اور سیاسی وحکومتی حلقوں کی توجہ اس جانب مبذول کرنی ہے اور اگر
دیکھا جائے تو وہ اپنی اس مہم جوئی میں کامیاب نظر آتا ہے ۔
بھارت کو معلوم ہے کہ پاکستانی عوام جذباتی ہیں اور وہ پاکستان کے معصوم
عوام کے جذبات سے انتہائی سفاکی اور مکاری کے ساتھ ایک ایسا کھیل کھیلتا جا
رہا ہے جس کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری
نوجوان بیٹوں اور نوجوان بیٹیوں کی جانب سے کی جانیوالی جدوجہد کوجابرانہ
انداز میں کچلنے اور غیر ریاستی عناصر کو مقبوضہ کشمیر میں شہریت دلوانے کے
بھارتی حربے کامیابی کو جا پہنچیں گے بھارت1948ء سے لے کر اب تک مقبوضہ
کشمیر میں جس طرح کے ظلم و ستم کا ارتکاب کر رہا ہے وہ بین الاقوامی برادری
سے ڈھکا چھپا نہیں مگر بد قسمتی سے 9/11کے بعد ایشیائی خطے کی صورتحال میں
پاکستان کی جانب سے ادا کئے جانیوالے کردار اور ماضی کے حکمرانوں کی غلط
پالیسیوں نے آج پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں کافی حد تک تنہائی کا
شکار بنادیا ہے اگر چہ ہماری حکومت بے شک یہ راگ الاپتی رہے کہ ہم سفارتی
محاذوں پر انتہائی کامیاب ہیں مگر بد قسمتی سے اب پاکستان کی جانب سے
مقبوضہ کشمیر کے ایشو پر کی جانیوالی ہر قسم کی ہر زہ سائی کو بین الاقوامی
برادری تسلیم نہیں کر رہی ہے اور بھارت سفارتی محاذ پر پاکستان کو پیچھے
چھوڑ چکا ہے ۔
قارئین……!! یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آج مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر میں
اگر کہیں نظر آتا ہے تو وہ جمہوریت حکومتوں کی کاوشوں کی بدولت نہیں ہے جو
گزشتہ سالوں سے نظر آرہی ہیں بلکہ یہ مسئلہ خود مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے
نوجوان بچوں ،بیٹیوں ،بزرگوں اور خصوصی طور پر حریت رہنماؤں کی دلیرانہ جدو
جہد کے باعث آج اجاگر نظر آتا ہے ۔حریت رہنماؤں کو جس طرح بھارت کبھی نظر
بند کر دیتا ہے تو کبھی انہیں پابند سلاسل کر دیتا ہے اور ان پر طرح طرح کے
ظلم کے پہاڑ گراتا ہے ابھی ماضی قریب میں ہی دیکھ لیں ایک جانب بزرگ حریت
رہنما سید علی گیلانی کو گھر میں نظر بند کر رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے
عوام کو ان سے ملنے نہیں دیا جا رہا تو دوسری جانب یاسین ملک پر تشدد کی بد
ترین مثال رقم کی ہے اور جس طرح سے انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ہے وہ
دنیا بھر کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے کہ کس طرح ایک نہتے پڑھے لکھے اور
بیماریوں میں گرے ہوئے حریت رہنما کو مزید بیماریوں کے حوالے کر دیا گیا ہے
اور جسمانی تشدد کے باعث انکی ٹانگ بھی فریکچر کر دی ہے تو اگر حقیقت پسندی
کا ادراک کریں تو یہ بات 100%درست ہے کہ مسئلہ کشمیرمیں آزادی کی تحریک کو
پاکستان کے گزشتہ اور موجودہ جمہوری ادوار کے حکمرانوں نے نہیں بلکہ خود
کشمیریوں نے جلابخشی ہے اور آج بھارت کیلئے یہ ایک پریشانی کا سبب بنا ہوا
ہے مگر ان حریت رہنماؤں اور بھارتی مظالم سہنے والے معصوم کشمیریوں کو یہ
اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان کے کمزور سفارتی محاذوں پر بھارت اپنی مکارانہ
چالوں کے باعث اس تحریک کے حقیقی ثمرات حاصل نہیں کرنے دے گا ۔
برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن گزشتہ ہفتے پاکستان کے دورے پر آئے ہمارے
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے جتنا ہو سکتا تھا انہیں بھارت کی جانب سے سرحدی
حدود کی خلاف ورزیوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم بارے بریف کیا
مگر نتیجہ سب نے دیکھا کہ برطانوی وزیر خارجہ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور
موصوف نے مذمت کے الفاظ زبان سے نکالنے کی بجائے اس مسئلے پر رسمی اور
روایتی الفاظ کا سہارا لے کر اپنا مؤقف پیش کیاتو یہاں سے آپ اندازہ لگا
لیں کہ مسئلہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد پر حکومت کی جانب سے سفارتی
محاذ کی پوزیشن کیا ہے یہ تو ایک مثال ہے اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود
ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ خبریں بھی موجود ہیں کہ بیرون ملک جانیوالے
وفود اور بعض سفارتی حلقے بھی ارباب اقتدار کو یہ آکر بتلاتے ہیں کہ دنیا
انکا حقیقی مؤقف سننے کو تیار نہیں ۔موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک جو
جدوجہد کی گئی اسے بھی مثبت قرار دیا جا سکتا ہے مگر ایک بہت بڑی تحریک جس
نے بھارت کی ناک میں دم کر رکھا ہے اگر اس تحریک کی اہمیت کو ہمارے حکمران
بین الاقوامی دنیا میں اجاگر نہ کر سکے تو پھر تاریخ ان کے کردار کو کس طرح
سے یاد رکھے گی کہ ایک جانب بھارتی بندوقوں اور انکے انسانیت سوز مظالم
جنکی کوئی مثال نہیں ملتی اور دوسری جانب وہ کشمیری جو پاکستان سے محبت کا
وہ حق جتا رہے ہیں جو یہاں رہنے والے پاکستانی بھی نہیں جتا سکتے کیونکہ اس
ملک میں رہنے والے عام آدمی سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائض بیشتر پاکستانی
اپنے دو وقتی مفاد کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں اپنے بچوں کے حسین
مستقبل کیلئے رشوت اور کرپشن کے عوض کئی بیچارے غریب بچوں کا مستقبل تاریک
کر دیتے ہیں خود کو امیر بنانے کیلئے کئی غریبوں کے منہ سے روٹی کا آخری
نوالہ بھی اپنے گھر لے جاتے ہیں اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنی
عزت اور اپنی غیر ت کو اپنی اس حوص کی نظر کرنے سے بھی نہیں کتراتے مگر
دوسری جانب وہ بہادر کشمیری ہیں جو وطن عزیز کا پرچم اٹھائے خون میں لت پت
’’پاکستان زندہ باد ‘‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے کیاپاکستان کے ہر طبقہ
ہائے فکر پر یہ فرض نہیں کہ اپنے ان کشمیری بھائیوں کی محبت کو دیکھ کر ہی
اپنے اندر سے حوص اور لالچ کا خاتمہ کر لیں اور اپنے ضمیر اور اپنی غیرت
اور حب الوطنی کا سودا چند مصنوعی خواہشات کیلئے نہ کریں ۔یقیناً یہ سب کا
فرض ہے مگر ہم انکی اس بے لوث محبت کا جواب نہیں دے رہے حکومتی حلقوں
کیساتھ ساتھ ہمارے اپوزیشن کے حلقے بھی عجیب و غریب حرکتیں کرتے نظر آتے
ہیں اپوزیشن میں سے بعض جماعتیں تو ایسی بھی ہیں جنہیں مقبوضہ کشمیر کے نڈر
کشمیریوں کی حمایت میں بولنے کیلئے اگر حکومتی ایوانوں سے کوئی دعوت نامہ
موصول ہو بھی جائے تو وہ اسے بھی سیاست کی نظر کر دیتے ہیں اور بقیہ
اپوزیشن کا بھی حال ایسا ہی ہے کہ وہ بھی اپنے اگلے دور اقتدار کیلئے آزادی
کی اس جدوجہد کو اپنے سیاسی عزائم کیلئے تو استعمال کرتی ہے مگر حقیقت میں
مقبوضہ کشمیر کے شہیدوں اور غازیوں کی عظمت کو سلام پیش کرتی نظر نہیں
آتی۔اگر ہر پاکستانی نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو بھارت کو موقع مل جائے
اور یوں وہ مکاری کے ساتھ دنیابھر میں پیدا ہونیوالے ہمارے غلط امیج کی
تصویر کو مزید نمایاں کر سکتا ہے اسلئے ضروری ہے کہ سبھی ملکر توجہ دیں ۔
قارئین……!! ایک اور بہت بڑا تاثر جو اس وقت دنیا بھر میں نظر آرہا ہے وہ
اقتصادی لحاظ سے دنیابھر میں بے یقینی کی کیفیت کا ہونا ہے اس بے یقینی کی
کیفیت نے دنیا کو ایک نئے محاذکی جانب دھکیل دیا ہے اوراس کی واضح تصویر
ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ،نریندر مودی،روہنیاکے حکمرانوں سمیت دیگر ممالک میں واضح
طور پر ملتی ہے ۔اب امریکہ میں ایک نئی حکومت تشکیل دی جا رہی ہے اگر
پاکستان نے سفارتی محاذ میں اسی طرح سستی کامظاہرہ کیا اور اپنی خارجہ
پالیسی کو نہ بدلا تو یقینا یہ نہ صرف بذات خود پاکستان بلکہ مقبوضہ کشمیر
کے عوام کی جدوجہد آزادی پر کوئی قدغن لگا سکتی ہے ۔
ہمیں اب یہ سوچنا ہوگا کہ افغانستان میں ہمارا دیرینہ ہمسایہ اور ہمارا
ازلی دشمن بھارت اپنا قبضہ جما چکا ہے اور اب وطن عزیز میں ہونیوالی ہر
دہشتگردانہ کارروائی کا پردہ وہیں سے فاش ہوتا نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب
طالبان کی جانب سے داعش میں جانے کی خبریں ایک نئے فتنے کی صورت میں سامنے
آرہی ہیں ۔
وطن عزیز کو مستقبل میں درپیش ہونیوالے ان تمام بحرانوں سے بچانے کیلئے
ضروری ہے کہ فی الفور پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو از سر نو تریب دے اور
داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں اور وطن عزیز میں کام کرنیوالی دیگر شدت پسند
تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے
امور خارجہ سے وابستہ سیکرٹریز ،مستقبل کے وزراء اور حقوق انسانی کی
تنظیموں ،اقوام متحدہ جیسے اداروں کو بھی پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی بارے
آگاہی فراہم کی جائے تاکہ پاکستان سے متعلق منفی رویے کا خاتمہ ہو اور
بھارتی مکاریاں انجام کو پہنچیں وگرنہ بھارت ایک جانب مقبوضہ کشمیر کے
معصوم اور نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہے گا اور دوسری جانب
کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کر کے اپنے مظالم کو دباتا رہے گا بھارت جیسے
مکار دشمن کو شکست فاش دینے کیلئے جذبات نہیں بلکہ حقیقت پسندی سے سوچنا
ہوگا یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے ۔ |