ہم عام مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن اسلامی
کتاب ہے ۔ قران میں اﷲ پاک مسلمانوں سے مخاطب ہیں ۔۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں
ہے ! یہ کتاب تو بنی نوع انسان سے مخاطب ہے ۔ ایسے ہی جیسے حضرت محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم کا کردارہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا کردار صرف مسلمانوں کے
لئے ہی مثالی کردار نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے مثالی کردار ہے۔ ہم عام
مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن مذہبی کتاب ہے۔ یہ ہماری کوتاہ فہمی ہے۔ قرآن تو
کائناتی کتاب ہے۔ اس میں کائنات کے رموز و اسرار پر اشارے ہیں۔ سائنسی
تحقیق پر اشارے ہیں جو بیک وقت ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی ہیں۔قرآن کے
اشارے کائناتی بھیدوں کا راستہ تلاش کرنے پر ہمیں اکساتے ہیں ، راستہ کھاتے
ہیں۔
قرآن ایک انقلابی کتاب ہے۔ چودہ سو سال پہلے بھی انقلابی تھی، چودہ سو سال
گزرجانے کے بعد آج بھی انقلابی ہے۔ قرآن نے انقلاب کا ایک طوفان برپا کردیا
۔۔۔۔۔ تخریبی نہیں تعمیری طوفان۔۔۔ ذہنوں میں ، سوچوں کا طوفان، دلوں میں
جذبوں کا طوفان ۔ قرآن نے کہا آنکھیں کھولو، حقائق کو دیکھو۔ ہم نے تمہارے
ارد گرد چاروں طرف حقائق کی بھیڑلگا رکھی ہے کہ تم دیکھو، سوچو، سمجھو لیکن
ایک بات کا خیال رکھنا ، بھولنا نہیں کہ ہر چیز پر ہماری مہر لگی ہوئی ہے۔
ہر سبز پتّے کے پیچھے ہم چھپے بیٹھے ہیں۔ ہر ذرّے میں ہمارا پَر تو ہے ۔ ہر
قطرے میں ہماری حکمت ہے ۔ ہمارے حوالے کے بغیر نہ دیکھنا ، ہمارے حوالے سے
دیکھو گے تو راستہ مل جائے گا ، منزل پہ پہنچو گے۔ ہمارے حوالے سے نہیں
دیکھو گے تو بھٹک جاؤ گے، راستہ نہیں ملے گا ، کبھی پہنچو گے نہیں!۔۔۔۔
قرآن نے بند آنکھیں کھولنے کے دعوت دی ۔ دیکھنے کی دعوت دی۔ سوچوں کو
آوارگی سے نکال کر ایک سمت بخشی، ایک مقصد عطا کیا ۔ جمود سے نکا لا ، حرکت
عطا کی ۔ قران ان انسانی ذہن پر ایسا اثر کیا جیسے نمک کی چٹکی سوڈے کی
بوتل پر کرتی ہے۔۔۔۔ بلبلے ہی بلبلے ۔۔۔ حرکت ہی حرکت۔۔۔۔ بامقصد حرکت۔
مسلمانوں نے یا ان کے دانشوروں نے اس کتاب کو جو تمام بنی نوع انسان کے
مفاد کے لئے اتاری گئی تھی صرف اپنی ذات کے حد تک مختص کرلیا۔ اﷲ تعالیٰ نے
سورۃ انعام میں صاف صاف کہا ہے۔ ’’ میں تم سے اس قران کا صلہ نہیں مانگتا
کیوں کہ یہ تو نصیحت ہے تمام اقوام عالم کے لئے‘‘۔ جگہ جگہ قرآن کو ذکر رب
العالمین کہا گیا یعنی تمام انسانوں کے لئے ایک نصیحت۔۔۔ اﷲ کو تمام جہانوں
کا پروردگار کہا گیا۔ قرآن کا افتتاحی جملہ ’’الحمد اﷲ رب العالمین‘‘ ہے
۔جس رسول ﷺکے ذریعے یہ کتاب نازل کی گئی اس کے بارے میں کہا گیا ’’رحمت
اللعا لمین ‘‘۔ ذکر رب العالمین کے بارے میں مسلمانوں نے کہا کہ یہ تو ہم
مسلمانوں کی کتاب ہے۔ رب العالمین کے بارے میں مسلمانوں نے کہا پر وردگار
توفقط ہم مسلمانوں کا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ تو فقط مسلمانوں کے ہیں۔
قرآن کی آیات عالمگیر معنویت و مفہوم کی حامل ہیں ان آیات کو صرف ذکر
المسلمین، رب المسلمین اور رحمت المسلمین بنالینا حد سے بڑھی ہوئی محبت کا
نتیجہ تو ہوسکتاہے۔ جس سے رقابت پیدا ہوتی ہے اور بے علمی اور غلط تعبیر و
تفسیر بھی ، جس سے تغافل، لاپرواہی اور گمراہی پیدا ہوتی ہے۔ لفظ عالمین کے
مفہوم میں ملت ابراہیمی، بھی شامل ہیں اور بنی اسرائیل بھی، مسلمانوں
کیساتھ عیسائی بھی، یہودکے ساتھ ہندو بھی، عربوں کے ساتھ عجمی بھی ، ترکوں
سے ساتھ تاجک بھی ، یورپیوں کے ساتھ ایشیائی بھی، گوروں کیساتھ کالے بھی ،
امریکہ کے ساتھ افریقہ بھی۔ قرآن، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور خدائے واحد
صرف مسلمانوں کے نہیں تمام امتوں، قوموں اور نسلوں کے لئے ہیں۔
قرآ ن صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں سب انسانوں کی کتاب ہے اس لئے اس میں کسی
جگہ یکساں طرز معاشرت پر زور نہیں دیا گیا ہے کیونکہ دنیا کے مختلف حصوں
میں معاشرتی طرزیں بدلتی رہتی ہیں۔ قرآ ن کا مقصو د صرف یہ ہے کہ معاشرت
میں خیر اور تعمیر شامل ہو اور انسانی فلاح اور اخلاقی قدروں کو نقصان نہ
پہنچے۔ جب قرآن پاک پڑھیں تو تھوڑا سا پڑھیں لیکن بہت غور و فکر کے ساتھ
زیادہ زیادہ وقت لگاکر پڑھیں۔ کبھی یہ خیا ل نہ کریں کہ جو کچھ معانی علماء
حضرات نے لکھدیئے ہیں وہ کافی اور وافر ہیں۔ وہ اکثر قیاسی ہیں‘ اگر صحیح
ہیں تو ناکافی ہیں ۔ زیادہ تر عربی کے الفاظ جو اردو سے بڑ ی حد تک مانوس
ہیں آپ انھی کی حدود میں اور انھی کی گہرائی میں غور کرنیکی عادت ڈالیں۔ تو
علماء حضرات کے کئے ہوئے معانی پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ (ماخوذ: روحانی
ڈائجسٹ، مارچ ۲۰۰۵ء)
|