بڑی جنگ کا خطرہ

 لوات کے پل پر کھڑا میں یہ درد محسوس کر رہا تھا۔کرب کی دل سے جیسے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ یہ پل لوات نالہ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے دونوں اطراف آزاد کشمیر کے علاقے ہیں۔ساتھ ہی مسجد سے ظہر کی اذان بلند ہو رہی تھی۔سامنے بھی ایک نالہ بہتا ہے مگر اس کے ایک طرف بھارتی فوجی موچہ بند ہیں۔ ان کے مورچوں پر بھارتی ترنگا لہرا رہا ہے۔ انہوں نے گاؤں کو اجاڑ کر خود اس پر قبضہ کر لیا ہے۔لوات اور بور کے درمیان دریائے نیلم بہہ رہا ہے۔ اس دریا کا بہاؤ تیز ہے۔ یہاں یہ دریا بھی جنگ بندی لکیر ہے اور ایک نالہ بھی جنگ بندی لکیر ہے۔ دریا کے اس طرف آزاد کشمیر ہے اور دوسری پار مقبوضہ کشمیر ہے۔ سامنے ایک نالہ پہاڑوں سے گرتا ہوا اس دریا میں آ ملتا ہے۔ اس نالے کی ایک جانب مقبوضہ اور دوسری جانب آزاد کشمیر ہے۔ یعنی یہاں مقبوضہ کشمیر کا علاقہ بور دو اطراف سے آزاد کشمیر سے گرا ہوا ہے۔ بور کی آبادی 1990میں بھارتی فوج کی گولہ باری اور مظالم سے تنگ آکر راتوں رات ہجرت کر کے مظفر آباد پہنچ گئی۔ یہی صورتحال بوگنہ کی ہے۔ اس گاؤں کو جنگ بندی لائن نے چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔انسانوں کی جانب سے آبادیوں کی غیر فطری تقسیم کے یہ مناظر انتہائی دلدوز ہیں۔ انسان کبھی اس پر غور کرے تو رقت طاری ہو جاتی ہے۔ بوگنہ کے سامنے اٹھمقام کا لالہ علاقہ ہے۔ بوگنہ سے بور تک بشمول کیرن دریا کے دوسری طرف کا علاقہ بھارتی فوج کے قبضے میں ہے۔ بوگنہ کی بستی پر بھی کئی انسانی آفتیں ٹوٹ پڑیں۔ 1990میں یہاں کی ساری آبادی ہجرت کر کے مظفر آباد آ گئی۔ بوگنہ ، بور سمیت بچوال کے گاؤں آج ویران ہیں۔ یہ بستیاں اجڑے 26سال ہو گئے۔ بچے جوان ہو گئے، جوان بوڑھے ہو گئے، مگر یہ بستیاں آباد نہ ہو سکیں۔

لوات کے اسی علاقہ میں ایک مسافر گاڑی شاردہ سے مظفر آباد آ رہی تھی ۔ جب بھارتی فوج نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں 9مقامی شہری شہید اور تقریباً ایک درجن زخمی ہو گئے۔ شہید ہونے والوں میں کنڈیاں لوات کا محمد یونس اور اس کا کمسن بچہ زبیر بھی شامل ہے۔ بھارت اور پاکستان کی فوج کے درمیان وادی نیلم ، تتہ پانی، منڈھول ، چکوٹھی سیکٹروں میں گولہ بار اور فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ پہلے بھارتی فو ج پاک فوج کی چوکیوں کو نشانہ بناتی تھی۔ اب وہ شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ معصوم شہری کو قتل کیا جا رہا ہے۔ وادی نیلم کے چلہانہ سے لے کر تاؤ بھٹ تک کے علاقے بھارتی فوج کے ناشنے پر ہیں۔ اٹھمقام سے لوات اور چلہانہ سے میر پورہ تک دریائے نیلم کے آر پار ہی نہیں بلکہ چار مقامات پر پاک بھارت فوجی آمنے سامنے ہیں۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔ اوڑی حملے کے بعد بھارتی کی جعلی سرجیکل سٹرائیکس کا چرچا تھا۔ بھارت اس کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا۔کیوں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ وہ اس سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے جنگ بندی لائن کے مھاز گرم کر دیئے۔ وہ آبادیوں پر گولہ باری کر رہا ہے۔ جس سے انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔ بھارتی فوج گن پاؤ ڈر کی بھی شیلنگ کر رہی ہے۔ جس سے جنگلات کو آگ لگ چکی ہے۔ ہزاروں قیمتی درخت ، پودے، جڑی بوٹیاں، کیڑے مکوڑے، جنگلی جانور آگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ فلورا اور فونا کو بہت نقصان ہو اہے۔ جنگلوں میں آگ لگانا بھارت کا قدیم حربہ ہے۔ ریاست سبز سونے سے محروم ہو رہی ہے۔

لوات میں گولہ باری کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ بھارتی فوج نے مسافر گاڑیوں پر پہلے بھی گولے برسائے۔ جنگ بندی لائن پر ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ بھارتی گولہ باری کے متاثرین کو جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔معصوم لوگوں کی ہلاکت بھارت کا مشغلہ ہے۔ کیوں کہ اسے کسی کی ڈر نہیں۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جنگ بندی لائن پر مجود ہیں۔ وہ اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ خلاف ورزیوں کی رپورٹ بھی اقوام متھدہ کے سیکریٹری جنرل کو کرتے ہیں لیکن ان رپورٹوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ۔ اس کی وجہ صاف ہے کوئی ملک بھارت کی نارضی مول لینے پر تیا ر نہں ہے۔ کیوں کہ انہیں انسانوں س زیادہ بھارت کی معیشت سے مستفید ہونے میں دلچسپی پے۔ آج انسان سے زیادہ مال کی قیمت ہے۔ مالی مفاد کے لئے بڑی سے بڑی خبر تک روک لی جا سکتی ہے۔ قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ مادیت پرست دنیا اسی میں مصروف ہے۔ انسانیت کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی اتر پدیش اور پنجاب کے الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے وہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے شہریوں کو قتل کرن میں ہی دلچسپی لیتی ہے۔ بھارتی عوام پر باور کیا جا رہا ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کے خلاف جنگ کی ہے۔ اس لئے یہ سب دہشتگرد ہیں۔ اس لئے انہیں قتل کر دیا جائے۔ جن سنگھیوں کی یہی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔ مسلمان کوئی بھی ہو ، اسے وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ بھارتی فوج نے مسافر بس اور ایمبولنس پر فائرئن اور گولے مار کر اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کا انتقام لینے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بھارت سے کوئی خیر کی توقع نہیں۔ پاکستان یہ جانتا ہے۔ پھر بھی جنگ بندی کا فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ یہ حیران کن بات ہے۔ وادی نیلم ہی نہیں بلکہ دیگر سیکٹرز پر بھی حفاظتی تدابیر بروئے کار نہ لائی گئیں۔ وجہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ بھارت اگر الیکشن جیتنے کے لئے دہشت گردی اور جارحیت کر رہا ہے تو پاکستان محتاط ہو کر اس کا جواب دے رہا ہے کہ کہیں جنگ نہ چھڑ جائے۔ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جنگ سے تباہی اور بربادی ہو گی۔ یہ ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن اگر بھارت جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے تو کیا ہو گا۔ لگتا یہی ہے کہ بھارت جارحیت کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کو بھارت کی اس خواہش سے آگاہ کرنا اچھا قدم ہے۔ جنگ تباہ کن ہے۔ مگر اس کے بغیر جغرافیہ اور ’’سٹیٹس کو‘‘ بدلا نہیں جا سکتا ۔ جنگ سے کسی کی جیت نہیں بلکہ ہار ہے۔ بھارت جنگ سے پاکستان کو یا کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ بھارتی جنگ باز حکمران اپنے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اشتعال انگیزی خطرناک ہے۔ شاید بھارت محدود جنگ چاہتا ہے مگر یہ محدود نہیں رہے گی۔ ایٹم بم دکھانے کے لئے تیار نہیں کئے گئے۔ یہ چل گئے تو سارا خطہ تباہ ہو جائے گا۔ بھارت غلط فہمی میں نہ رہے۔ پاکستانی اور کشمیری پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر بھارت کا غرور توڑنے کا حسلہ اور عزم رکھتے ہیں۔ پاکستان کو بھارتی جارحیت کے مناسب ردعمل اور جارحانہ سفارتکاری کو مزید تیز کرنا چاہیئے۔ لوات میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جارحیت تباہی لاتی ہے۔ مگر دشمن کو اس کا احساس بھی دلانا ہوتا ہے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555582 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More