پاکستان کے چاروں صوبوں میں صوبہ سندھ کو
ایک الگ ہی مقام حاصل ہے جس کی وجہ سندھ کی تاریخ ہے۔سندھ کا اطلاق قدیم
دور میں ایک عظیم مملکت پر ہوتا تھا ۔
92 ھ میں حجاج بن یوسف کے زمانے میں سندھ پر ایک ہندو راجہ کی حکومت ہوا
کرتی تھی جس کا نام راجہ داہر تھا ۔ جو ایک ظالم حکمران تھا اس کی ظلم کی
طویل داستانے موجود ہیں۔اس نے ایک دن ایک غریب مسلمان لڑکی جو ایک کسان کی
بیٹی تھی اس کو بازار میں بے عزت کیا اور سر سے دوپٹہ اتار پھینکا۔اس وا
قعہ کی کی خبر جب حجاج بن یوسف کو ہوتی ہے۔ تو حجاج بن یوسف ایک لشکر تیار
کرنے کا حکم دیتے ہے ۔جس کی قیادت اپنے بھتجے محمد بن قاسم کو سونپ دیتے
ہی۔یہ لشکر محمد بن قاسم کی قیادت میں عرب سے نکلتا ہے ۔ اور کشتیوں کے
زریع سمندری راستے سے سندھ کے ساحلی شہر دبیل( کراچی) کے ساحل پر لنگر
انداز ہوجاتا ہے۔یہ لشکر جہاں پر لنگر انداز ہوا تھا اس سمندری پٹی کو آ ج
ہم پورٹ بن قاسم کے نام سے جانتے ہے ۔ اور اس علاقے کا نام محمد بن قاسم
ٹاؤن ہے ۔ جو محمد بن قاسم کے نام سے منسوب ہے۔مکرمی لشکر لنگر انداز ہو نے
کے بعد راجہ داہر کے خلاف جنگ شروع کرتا ہے۔ جنگ میں شروع سے ہی مسلمانوں
کا پلڑا باری رہتا ہے او ر کچھ ہی دنوں میں پورے سندھ کو فتح کرلیتے
ہیں۔اور راجہ داہر کو گرفتارکر لیتے ہیں۔ اوریہاں سے شروع ہوتا ہے برصغیر
میں اسلامی سلطنت کی بنیاد ، چونکہ براصغیر میں سب سے پہلے اسلامی لشکر
سندھ میں حضرت مغیرہ بن ابی العاص ؓ کی قیادت میں آیا اورا س کے بعد حضرت
امیر معاویہ ؓ کے دور44 ھ میں حضرت مہلب بن ابی صفرہ حملہ کرنے کے عرض سے
آئے اور فاتح بن گئے۔ اسی لیئے تاریخ فرشتہ کے منصف نے اسلام پر پہلی منظم
جنگ کا شرف انہی کے سرباندھاہے۔مگر یہ سب چھو ٹے چھوٹے حملے تھے۔ سب سے بڑا
حملہ حجا ج بن یوسف کے اشارے پراس کے بھتیجے محمد بن قاسم نے92 ھ میں کیا
اور فتح حاصل کی۔ اس کی وجہ سے سندھ کو باب الاسلام کا لقب ملا ۔سندھ میں
مسلمانوں کی آمد کا آغاز عہد فاروقی رضی اﷲ عنہ کے ابتداء ہی سے ہو چکا
تھا۔ سندھ ایک تاریخی خطہ ہے اس کی تاریخ ۲ ہزار سال سے بھی پرانی ہے۔پر
افسو س جو سندھ 13 سو سال سے بھی زیادہ اسلامی تاریخ رکھتا ہے اس میں اسلام
قبول کرنے پر آ ج قدغنیں لگ رہی ہے ۔کیا اب باب الاسلام سندھ باب دہر بنے
گا؟ سندھ اسمبلی نے گزرشتہ جمعرات کو اسلام مخالف ایک متنازعہ بل منظور کیا
ہے ۔ یہ بل 17 نو مبر کو ایک اقلیتی رکن اسمبلی نے پیش کیاتھا۔ اس کالے
قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افرد اپنی مرضی سے اسلام قبول نہیں کر سکیں
گے ۔ اور بالغ افراد بھی اسلام قبول کرنے کے بعد 21 دن تک سرکاری تحو ل میں
رہینگے ۔ا و راس کے بعد ہی اعلان کر سکیں گے ۔مگر اگر کسی خاندا ن نے اسلام
قبول کیا تو ان بچوں کا کیا بنے گا جن کی عمریں 18 برس سے کم ہوں گی کیا ان
نو مسلم والدین کے بچے18 بر س تک غیر مسلم شمار ہوں گے ؟اگر اس دوران کسی
بھی بچے کا انتقال ہو جائے تو ان کی آخری رسومات کس طرح ادا کئے جائیں گے ۔
اگر کسی بچے کے والدین کا انتقال ہو جائے تو اس کے والدین کی جائیداد میں
اس کو حصہ ملے گا کہ نہیں ؟ کیوں کہ اسلام میں غیر مسلم بچوں کا والدین کی
وراثت میں کوئی حصہ نہیں ۔ ہاں کچھ بچے طبی صورت حال میں ایسے بھی ہوتے ہے
جو18 سال کے بعد میں بھی بالغ نہیں ہوتے تو کیا وہ ساری عمر بھی اسلام قبول
نہیں کرسکیں گے ۔ عجیب بات ہے سندھ کی حکمران جما عت جو خود کو سیکولر جما
عت کہتی ہے ۔اور ایک سیکولر عناصر کی تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ مذہب ہر
فرد کا نجی معاملہ ہے ۔ تو پھر ریاست کو کسی قسم کا قد غن نہیں لگانی چاہئے
۔آج سندھ کی حکمران جما عت نے اپنے بانی کی یاد تازہ کردی جس نے اپنے و
زارت اعظمیٰ کے دور میں چترال کے کیلاش مذہب کے لو گوں پر اسلام قبول کرنے
پر پابندی عائد کی تھی ۔یہ فیصلہ مغربی ممالک کی منشاء پر کیلاش کی ثقافت
کو بچانے کیلئے کیا گیا تھا ۔ آج پھر انہی کی پارٹی نے امرانہ اقدام کیا ۔
اس ملک کو سیکولر بنانے کی کوششیں بہت زور پر ہیں ۔ اس میں طاغوتی طاقتیں
زر کثیر خرچ کررہی ہیں۔ اب ہو سکتا ہے اگلے قدم پر محمد بن قاسم کے نام سے
منسوب تمام مقامات کے نام جیسے کہ پورٹ قاسم ، بن قاسم ٹاؤن ، تبدیل کرکے
پورٹ راجہ داہر ، اورداہر ٹاؤن رکھ دیا جائے ۔ یقین نہیں ہوتا تھا ہ سندھ
اسمبلی کے تمام ارکان اس کالے قانون کا بل پاس کرنے میں اقلیتی رکن کا ساتھ
د ینگے ۔ اس قانون کے بعد سندھ دنیا کا وہ واحد خطہ بن گیا جہا ں پر اسلام
قبول کرنے پر پابندی ہوگی ۔یہاں پر حضرت علیؓ کا اسلام لانے کا تزکرہ بھی
کرتا چلوں ۔ حضرت علیؓ کو جب نبی پاک ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو اس وقت حضرت
علی رضی اﷲ عنہ کی عمر گیارہ سال تھی اور نبی پاکﷺ کی دعوت پر آپؓ نے کلمہ
پڑھا اور گیارہ سال کے عمر میں اسلام قبول کیا ۔18 سال کی عمر تک نہ آپ ؓ
نے انتظار کیا اور نہ ہی نبی پاک ﷺ نے انتظار کروایا ۔اس سارے ڈرامے میں
اقلیتوں کو تحفظ دینے کابہانہ بنایاگیا ہے ۔ لیکن اسلام نے جو حقوق اقلیتوں
کو دیئے ہیں۔ دنیا میں کوئی اس کی مثال بھی پیش نہیں کرسکتا ۔ اسلام نے ان
کو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ جان و مال عزت و ابرو کے تحفظ سمیت وہ تمام
حقوق دیئے جو ایک مسلمان کو حاصل ہے ۔ قرآن کی سورۃ بقرہ میں اﷲ نے صاف
فرمایا ہے دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ،اس لئے کہ حق و باطل میں فرق واضح
ہوچکا ہے ۔یہ مسئلہ اقلیتوں کے تحفظ کا سرے سے ہے ہی نہیں مسئلہ اسلام میں
رکاوٹ کا ہے ۔ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے اسلام کی فطرت سے نا آشنا
ہیں ۔اسلام کی فطرت میں قدرت نے وہ لچک دی ہے ۔اتنا ہی ابرے گا جتنا دباؤ
گے ۔دنیا اس کا مشاہدہ کئی بار کرچکی ہے ۔ مغرب نے مسلمانوں کو دہشت گرد
کہنا شروع کیا اور اسلام کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن ہوا اس کے برعکس
مغرب میں اسلام مزید تیزی سے پھیلنے لگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک
میں سالانہ52 ہزار لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ۔ سند ھ کی حکمران جماعت کو
اپنے اس کالے قوانین پر سوچنا ہو گا ۔ کونکہ قانونی ماہرین ، علماء کرام
اور مذہبی جماعتوں نے اس بل کو یکسر مسترد کیا ہے اور اس کو آئین سے متصادم
قرار دیا ہے، اور اس کے خلاف عدالت بھی جائیں گے اور احتجاج بھی کریں گے
۔اسلام سے متاثر ہوکر اگر کوئی غیر مسلم لڑکی یا لڑکا اسلام قبول کرنا چاہے
تو سندھ اسمبلی کون ہوتی ہے اس کا راستہ روکنے والی ۔حکمران جماعت نے سندھ
اسمبلی میں اپنی اکثریت سے ناجائز فائدہ اٹھا یا ہے۔ اﷲ ان کو ہدایت نصیب
کرے اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین) |