بلاول کی انٹری

 جس کا انتظار تھا، بالآخر وہ وقت آگیا، قوم نے خبر سن لی ہے کہ بہت جلد عوام کے محبوب، مقبول اور نوجوان رہنما جناب بلاول زرداری پارلیمانی سیاست میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ ایک قومی پارٹی کے سربراہ تو وہ پہلے سے ہی ہیں، کیونکہ اپنے ملک میں وراثتی پارٹیاں اپنے ہی خاندان کے نونہالوں کی قیادت کے بغیر نہیں چلتیں،باہر سے کسی کو پارٹی سربراہ بنانے کا رواج اپنے ہاں پنپ نہیں سکا۔ اسی فارمولے کے تحت بلاول بھی پی پی کے سربراہ بنے۔ کچھ عرصہ سے بلاول قومی سیاست میں تھے، وہ تجربہ حاصل کررہے تھے ، اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کیوں نہ لیڈر کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے۔ یہ مدت بھی دراصل تجربے کے لئے ہی استعمال ہوگی، ابھی عمر ہی کیا ہے، شاید وزیر اعظم بننے کی عمر کو موصوف پہنچے نہیں، اس لئے اپوزیشن لیڈر کی اہم سیٹ پر رہ کر سیاست کے مزید نشیب وفرا زجان جائیں گے، آنے والے وقت میں حکومت کرنے کا بہتر تجربہ میسر ہوگا۔ چونکہ بلاول ابھی نوعمر ہیں، اس لئے شاید یہ ریکارڈ بھی بن جائے گا کہ وہ پاکستان میں کم عمر ترین اپوزیشن لیڈر ہیں۔ بلاول کو میدانِ سیاست کے خار زار میں قبل از وقت ہی اتار دیا گیا تھا، شاید پارٹی کی مجبوری تھی، یہ تصور بھی تھا کہ نوجوان کے آنے سے پارٹی سے باہر بھی تبدیلی کا تاثر ابھرے گا، پارٹی کے بارے میں بننے والے ذہن تبدیل ہونگے، مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ شاید یہ خیال بھی ہو کہ بلاول کے آنے سے انقلاب آجائے گا اور قوم پلٹ جائے گی۔ یہ خواب تو پورا نہ ہوا، البتہ یہ انٹری آہستہ آہستہ روبہ عمل ہوئی۔

بلاول زرداری اگرچہ ایک پارٹی کے وارثوں میں شامل ہیں، ان کے نانا اور والدہ نے پاکستان پر حکومت کی ہے، سندھ میں ایک عرصہ سے ان کی پارٹی کی حکومت ہے، اور پارٹی ان کی جیب کی گھڑی ہے۔بلاول نے چونکہ تعلیم پاکستان سے باہر رہ کر حاصل کی ہے، اس لئے وہ جدید تعلیم یافتہ ہیں، جہاندیدہ بھی کہا جاسکتا ہے، انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی سیاست کو بچشمِ سر دیکھا ہے، اس کا جائزہ لیا ہے، اس میں وقت گزارا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی وجوہات کو بھی پرکھا ہوگا، وہاں انصاف کی صورت حال کو بھی دیکھا ہوگا، پروٹوکول اور مراعات پر بھی نظر رکھی ہوگی، وہاں حکمرانوں کے طرزِ زندگی پر بھی ان کی نگاہ ہوگی۔ وہاں عوام کے بنیادی حقوق کا بھی انہیں بخوبی اندازہ ہوگا، وہاں کے سیاستدانوں کے رویوں اور قانون سازی میں کوششوں سے بھی وہ آگاہ ہونگے۔ایسی بہت سی باتوں کا تو یہاں عوام کو بھی علم ہے، مگر جو فرد وہاں نظام کے اندر رہ کر آیا ہو، اور جس نے وہاں سے اسی عنوان کے تحت تعلیم حاصل کی ہو، اس سے زیادہ باخبر اور کون ہو سکتا ہے؟ مگر یہ سن اور دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ بلاول نے پاکستان آکر پاکستانی انداز کی سیاست کو ہی ترجیح دی۔ وہی بڑھک سسٹم، وہی گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں، وہی الزامات، وہی تہمتیں، وہی الٹے نام رکھنا، وہی للکارنا، پکارنا۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی، باہر نکلے تو سندھ میں اپنی حکومت ہونے کے ناطے بے شمار گاڑیوں کے پروٹوکول میں۔ ہوتا یہ کہ وہ تعلیم، صحت، زراعت، صنعت اور دیگر معاملات میں کوئی اہم تبدیلی لاتے، کوئی مثبت پیش رفت کرتے، کوئی بہتری کا ماحول پیدا کرتے، وہ یہاں آکر نمک کی کان میں نمک ہوگئے، یہاں مولاجٹوں کے سیاسی کلچر کے رسیا ہوگئے۔ یقینا ان کے انکلوں نے بھی ان کی سیاسی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، انہیں مشورے بھی دیئے ہونگے، مگر یہ بلاول کے خود سوچنے کی بات تھی، کہ ملک کو بڑھکوں کی بجائے سنجیدگی اور سوچ سے چلانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی خوب رہی کہ بلاول کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی خبر سے کچھ ہی روز پہلے اُن کی شادی کی کہانی بھی چلی تھی، جس میں انہوں نے معاملہ اپنی بہنوں پر چھوڑ کر ایک مشرقی نوجوان ہونے کا ثبوت دیا تھا، تاہم ایک تازہ تصویر میں ایک امریکی اداکارہ کے ساتھ سیلفی سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی اخبارات کی زینت بنی ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ بلاول صاحب خود بھی سوچ سکتے ہیں، کوئی اقدام انکلوں کے بغیر بھی کرسکتے ہیں،پاکستان کی سیاست میں نئے رجحانات کی بنیاد بھی رکھ رہے ہیں، یا یوں جانئے کہ اُن سیاستدانوں میں شامل ہو رہے ہیں، جو پہلے ہی اس قسم کے اقدامات کر چکے ہیں۔ ان تمام تبدیلیوں کے ساتھ اگر وہ روایتی سیاسی ذہن کوبھی خیر باد کہہ سکیں تو یہ ملک اور اُن کی پارٹی کے لئے بھی بہتر ہوگا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.