چندماہ پہلے ملک کے مقتدر حلقوں میں یہ
رائے بھی محسوس کی جاتی رہی ہے کہ وزیراعظم کوپانامالیکس کے الزامات صاف
ہونے تک یاکسی انکوائری کے مکمل ہونے تک حکومت کے روزمرہ کے امورسے
خودکودور رکھناچاہئے تاکہ یہ تاثرنہ ابھرے کہ تحقیقات پرکوئی
اثراندازہورہاہے۔نیزاس سے اس اہم ترین منصب پرہوتے ہوئے وزیراعظم کی اخلاقی
ساکھ کاسوال بھی نہیں ابھرے گالیکن شائدیہ رائے باضابطہ تجویزتک نہ پہنچ
پائی تھی یااس تصورکوپذیرائی نہ مل سکی توبات درمیان میں رہ گئی اورپاناما
لیکس کاکیس عدالت کی دہلیزتک پہنچ گیا۔بلاشبہ پوری قوم کی نگاہیں اب سپریم
کورٹ پرلگی ہوئی ہیں۔کرپشن کی چکی میں پسنے والی قوم کوعدالت کی طرف سے کس
قسم کامژدہ ٔجانفزاسننے کوملتاہےجس سے دودھ کادودھ پانی کاپانی ہو ،اداروں
کی توقیربھی بڑھے اوران پرعوامی اعتمادبھی۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ
پانامالیکس کیس جس نے پوری حکومت اورحکومتی مشینری کوعملاًاپنے شکنجوں میں
جکڑرکھاہے۔گھروں سے دفاترتک اورسیکریٹریزسے ہیڈکوارٹرتک ہرجگہ
پاناماکاذکرہو رہاہے۔میڈیاہاؤسزاس سلسلے میں نئی پھلجڑی کیلئے کوشاں،تجزیہ
کاردورکی کوڑی لانے میں مشغول اورسیاستدان اپنے اپنے نکتہ ٔنظر سے اپنے
اپنے زاوئیوں سے پیشگوئیوں میں مصروف ہیں۔کوئی اپنی سرخروئی کومحض چندہفتوں
کے فاصلے پردیکھ رہاہے اورکسی کوبوجوہ تاخیرکاخدشہ ہے۔
لیکن ان پانامالیکس سے بڑھ کرجن ایشوزکی حساسیت ہوسکتی ہے وہ سیکورٹی لیکس
پربننے والی کمیٹی ،اس کی فائنڈنگزاورسفارشات ہوں گی جس طرح سابق
وزیراطلاعات پرویزرشیدکواستعفے کے بعداپوزیشن بنچوں سے بطورخاص سینیٹ میں
پذیرائی ملی ہے اس کے بعدیہ سوال بھی زیادہ واضح ہوکر سامنے آیاہےکہ
سیکورٹی لیکس یاایک غلط خبرفیڈکرنے کااصل ذمہ دارکون ہے یاکون کون
ہیں؟بلاشبہ جوکہانی سرل المیڈانے ایک معاصر روزنامےمیں بیان کی ہے وہ اسے
کسی نہ کسی ذریعے سے ہی ملی تھی اورشائع ہونے سے پہلے بھی ایک سے زیادہ ذمہ
داروں کے علم میں آئی تھی۔ایسے میں غریب وزیراطلاعات کی فراغت ایک غیرمتعلق
اقدام لگتاہے خصوصاًجبکہ وزیرداخلہ پوری صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ
وزیراطلاعات قصوروارنہیں محض کوتاہی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔وہ یہ بھی کہہ
چکے ہیں کہ انکوائری وزیراطلاعات کے خلاف نہیں ہوگی لیکن وزیر داخلہ نے
ابھی لب کشائی نہیں کی ہے کہ انکوائری کمیٹی کی زدمیں کون کون آسکتاہے۔
وزیرداخلہ کی پریس کانفرنسوں سے اب تک ابھرنے والاتاثریہ ہے کہ اس معاملے
میں انکوائری کی زدمیں اگرکوئی آئے گاتوسرل المیڈاہی ہوگابشرطیکہ وہ
امریکاسے واپس آکردستیاب ہوا۔خدشہ ہے کہ کورکمانڈرکے اجلاس میں انتہائی
حساس مانے جانے والے اس سیکورٹی بریچ کے بارے میں انکوائری کوئی بڑی پیش
رفت نہیں کرسکے گی لیکن اس صورتحال کے مضمرات جلدیابدیرجب بھی سامنے آئے
خوشگوارتوکیاسخت ناگوارہونے کاخدشہ ہے۔ایک تاثریہ بھی دیاجارہاہے کہ ان
تمام اہم اورتوجہ پاجانے والے معاملات اورلیکس کے ساتھ ایک خوشگوارپہلوبھی
ہے کہ ۲۷نومبرکوآرمی چیف کی مدت مکمل ہونے جارہی ہے اوراگلے ماہ کے
اواخرمیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ ہونے والی ہے،اس لئے کسی بھی
لیک کانتیجہ فوری مشکل ہوگاجوبالآخرحکومت کے فائدے کی بات ہے۔یہ تاثرجوبھی
دے رہاہے وہ حالات کوسنگین تر بنانے کی کوشش کررہاہے۔ادارتی فیصلوں
کوانفرادی پیمانوں کے ساتھ تولنادرست طرزفکرنہیں ہوسکتا۔ اس چیزکوحکومت میں
تجربہ کاری کے درجے پرفائزشخصیات کوادراک ہے لیکن بعض نوآموز اہلکارشائداس
فہم سے محروم ہیں۔اس لئے جوفیصلے جتنے تاخیرسے ہوں گے ان کے اثرات بھی اتنے
ہی غیرمتوقع نتائج اوراقدامات پورے نظام کوکمزورکرنے کاباعث ہوتے
ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ایک ماہ کی تاخیربھی کی اورجب کمیٹی
سامنے آئی توسب سے زیادہ اس کے قابل احترام سربراہ ہی تنقیدکانشانہ بننے
لگے ہیں۔ماضی میں جس طرح بعض حلقوں میں یہ شورمچ رہاتھاکہ سپریم کورٹ کے
ایک قابل احترام چیف جسٹس کی تقرری سے کئی ماہ پہلے ان کے فوج سے
ریٹائرڈبھائی کوایک نجی کنٹرول میں چلنے والے معروف ہسپتال کاسربراہ
بنادیاگیاتھا،اب اگرچہ معاملہ مختلف ہے لیکن جسٹس(ر) عامررضاہی نہیں لیکن
ان کی صاحبزادی کے شریف میڈیکل اسپتال اورمیڈیکل کالج میں اہم ذمہ داری
پرفائزہونے کی خبریں آگئی ہیں۔آخرایسی کیاوجہ ہے کہ وزیرداخلہ کی
پراعتمادپریس کانفرنسوں اورلہجے کے بعدبھی اس حساس ایشوکو روایتی اندازسے
ہی لیاجارہاہے۔تاخیروالتواکامعاملہ چونکہ اسلوب حکمرانی نہیں بننے
دیناچاہئے۔یہ اسلوب پاک فوج کے سربراہ کے حوالے سے بھی ہے۔اگلے تین سال
کیلئے پاک فوج کی سربراہی کاقرعہ کس کے نام نکالناہے حکومتی مشینری اس بارے
میں بھی بوجوہ سست روی کاشکارہے ۔یہ اس حکمت عملی کاتقاضہ بھی کہاجاسکتاہے
کہ تیل دیکھوتیل کی دھاردیکھواورنان پروایکٹواپروچ کاشاخسانہ بھی۔اس طرزِ
عمل کے ساتھ ساتھ ایک دوسری روش بھی سامنے ہے کہ گاہے گاہے آرمی چیف کی مدت
ملازمت میں توسیع کاذکرکبھی دائیں سے اورکبھی بائیں سے شروع ہوالیکن آرمی
چیف کی الوداعی پروگرامزکے بعدساری افواہوں نے دم توڑدیاہے۔یہ ایک طرح کی
محتاط پالیسی بھی کہلاسکتی ہے لیکن اس کے برعکس ایک مضحکہ خیزی کاتاثر پیدا
کرنے والاطریقہ واردات بھی ہے۔اس لئے بہترہے کہ جوبھی فیصلے کرنے ہیں انہیں
کسی مخصوص مقصد،ضرورت یامفادکے تابع نہ رکھاجائے بلکہ فیصلے کردیئے جائیں
تاکہ کنفیوژن اورالجھاوے سے سبھی نکلیں اوراس کیفیت سے دشمن بھی فائدہ
اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔حکومتی قیادت کواس شش وپنج سے نکلناہوگا۔پہلے ہی
پانامالیکس کے معاملے میں تاخیری اندازکے باعث معاملہ حکومت اورپارلیمنٹ کے
ہاتھ سے نکل کرعدالت کو منتقل ہوچکا ہے ،کم ازکم اس معاملے میں کسی نئی راہ
کودیکھنے کارسک نہیں لیاجاسکتاہے۔
اس تناظرمیں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت سرگرم ہورہی ہیں،نئی صف
بندیوں کابھی امکان ہے۔اگرچہ اگلے انتخابات حکومت ۲۰۱۸ سے پہلے کرانے کابھی
تصوربھی نہیں رکھتی ہے لیکن سیاسی جماعتیں اب بہرحال یہ امید لگارہی ہیں کہ
ملک کوجس طرح چیلنجوں کاسامناہورہاہے بہت ممکن ہے کہ قبل ازانتخابات کی
کوئی صورت نکل آئے۔اس امیدکی بنیادپرمفاہمت کے پیرہن والی پیپلزپارٹی کے
بلاول بھٹوبھی پنجاب کارخ اورحکومت کے خلاف لانگ مارچ کاعندیہ دے چکے
ہیں۔پی ٹی آئی پہلے ہی صرف ایک کام جانتی ہے،اس لئے مسلسل برسراحتجاج ہے۔ان
دونوں جماعتوں کی توجہ پنجاب پرہے جبکہ مسلم لیگ(ن) اوراس کی حلیف وہم خیال
جماعتیں صوبہ خیبر پختونخواہ پرپنجے گاڑنے کی تیاری میں ہیں۔اس لئے ضروری
ہے کہ تمام فیصلہ ساز ادارےاورشخصیات اپنی اپنی ذمہ دارکوسمجھیں،پہچانیں
اورنبھائیں۔ایک سنجیدہ اپروچ کے ساتھ مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن دوسروں
کومحض نیچادکھانے کی حکمت عملی باہمی اعتمادکی فضاکوخراب ترکرنے کاسبب بن
سکتی ہے۔یقیناً اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری حکومت پرعائدہوتی ہے۔ |