روہنگیا مسلمانوں کی نشل کشی۰۰آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کی ضرورت

روہنگیائی مسلمان دنیا کے مظلوم ترین اقلیت ہے اس سلسلہ میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں روہنگیا کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق میانمار کے ان مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں تو خود کواس ملک کا شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں۔ یہ دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں کے مسلم شہریوں کو1559ء سے مختلف طریقوں سے مجبور و لاچار کیا جارہا ہے۔یہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق 1782ء میں یہاں کا ظالم بادشاہ ’’بودھایایہ نے پورے علاقے کے مسلم علماء کرام کو سور(خنجیر)کا گوشت کھانے پر مجبور کیا تھا اور انکار پر ان سب کو قتل کروادیا تھا۔برما کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس واقعے کے بعد 7دن تک برما کی سرزمین پر سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔جس کے بعد بادشاہ نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور معافی مانگی پھر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے 1938تک جا پہنچا۔ جب برمی بدھ برطانوی فوجوں کے خلاف جنگ آزادی لڑنے میں مشغول تھے تو گولیوں سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے رہے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا1962ء میں پہلا قتلِ عام کیا گیا۔ مسلمانوں کو باغی قرار دے کر 1982ء تک وقفے وقفے سے قتل کیا جاتا رہا اور اس میں کم و بیش ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے ،کم و بیش 20لاکھ مسلمان اس دور میں بنگلہ دیش ، ہندوستان اور پاکستان کی جانب ہجرت کرگئے۔برما کی فوجی حکومت نے یہاں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کرتے ہوئے 1982ء میں سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے آٹھ لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کردیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔16؍ مارچ 1997ء میں دن دھاڑے ظالم بودھ راکہین صوبے کے شہر ’’مندالے‘‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے۔ گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ مسلمان گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں کو ہجرت کر گئے پھر اسی طرح 15؍ سے 12؍ جولائی 2001ء کے دوران ایک مرتبہ بودھوں نے مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو شہید کردیا ، اس فساد کے دوران 11مساجد شہید، 400سے زائد گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا اور کم و بیش دوسو مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق دنیا میں جب کبھی ، کہیں بھی ، کسی بھی جگہ اگر اسلام کے نام پر کوئی ظلم کیا تو اس کا شکار روہنگیا کے مسلمان ہوئے ، افغانستان میں طالبان نے بامیان کے مجسموں کو نشانہ بنایا تو اس وقت بھی روہنگیا کے مسلمانوں پر حملے کئے گئے۔ 1962سے فوجی حکومت کے زیر اثر رہنے والا میانمارجب 2010ء میں انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں طویل آمریت کا خاتمہ ہوا اور 2011ء میں ملک میں ایک جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران روہنگیا مسلمانوں نے بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ دہرایا لیکن بڑی سختی کے ساتھ ان مظلوموں کی آواز کو دبادیا گیا اور پھر مئی 2012میں مسلم کش فسادات ہوئے۔ان فسادات کے دوران تقریباً دس ہزار مکانات ملبہ میں تبدیل ہوگئے اور 80ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ پولیس اور فوج نے بھی ان مظلوم مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا ۔2012ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ایک رپورٹ شائع کیجس میں ان مسلمانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو میانمار کی فوج نے قتل کردیا۔ اکٹوبر2012میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے بار بار عالمی برادری کے سامنے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش کئے اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ساری کوششیں بے فیض رہیں۔

ان مظلوم روہنگایائی مسلمانوں پر جس طرح بدھ مت کے ماننے والوں نے ظلم و بربریت ڈھایا ہے اسے دنیا کی عالمی طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں اور خود اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں جس طرح ان روہنگائی مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت کہا ہے اس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک طرف سوپر پاور عالمی طاقتیں اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہیں تو دوسری جانب ان مظلوم ، لاچار، بے بس و بے کس مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی۔ انسانیت کی علمبردارکہلائی جانے والی یہ خود ساختہ طاقتیں اُن روہنگی خواتین کی عزت و آبرو کو لٹتے ہوئے دیکھتی ہیں ، انہیں معصوم بچوں، مرد و خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم نظر نہیں آتے یا پھر وہ نہیں چاہتے کہ ان مظلوم مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو۔ موجودہ برمی حکومت کی اصل قائد اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی جنہیں برما میں جمہوریت کی بحالی کے لئے پر امن جدوجہد کرنے پر اہم حیثیت حاصل ہے وہ بھی اپنی جماعت کی کامیابی کے بعد برمی مظلوم مسلمانوں کے لئے انکے بنیادی حقوق دلانے سے کترانے لگیں۔ آنگ سان سوچی نے روہنگیامسلمانوں کو ’’صبر‘‘ کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ’’رہنما کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے نہیں ہوجانا چاہئیے‘‘ اس پر انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے سوچی کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔روہنگیامسلمانوں پر تشدد کا سلسلہ لگاتار چلتا رہا آج روہنگیا مسلمانوں خصوصاً مظلوم خواتین کی عصمتوں کی پامالی کے بعد دنیا بھر سے آنگ سان سوچی کو نوبل انعام واپس کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ امن کا نوبل انعام پانے والی یہ قائد جس کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی برسراقتدار ہے اس کے دور میں بھی مظلوم مسلمانوں پرفسادات کا سلسلہ جاری ہے یہی نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ بدھ مت کے ماننے والے ان ظالموں کو مزید چھوٹ دی جارہی ہے ۔ عالمی سطح پر برما کے ان مظلوم مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کی ضرورت ہے اور انہیں ان کے حقوق دلانے کے لئے عالمی طاقتوں کو آگے آنا ہوگا جس طرح عالمِ اسلام میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے عالمی طاقتیں اپنا نام نہاد کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی طرح روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے آگے آنا ہوگا۔ عالمی طاقتیں ان عرب اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کروڑہا ڈالرس حاصل کرتے ہوئے اپنے ناکارہ ہونے والے فوجی سازو سامان سپلائی کررہے ہیں اور اس سے انکی معیشت مضبوط و مستحکم ہورہی ہے۔ میانمار کے ان مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے پر ان عالمی طاقتوں کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۰۰۰واقعی انسانیت کے علمبرار کہلائے جانے والے ان عالمی طاقتیں اگر بدھ مت کے ماننے والے ان برمی ظالموں کے خلاف کارروائی کرنے کا انتباہ دیتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ روہنگیا کے مظلوم مسلمان کسی حد تک چین و سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں۔

مشرقِ وسطی کے حکمرانوں کی ہندوستان آمد اور نریندر مودی کی پالیسی
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی حکمتِ عملی شاید عالمی سطح پر سراہے جانے کے قابل ہے ۔ وزیر اعظم ہند اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ بہتر سے بہتر دوستانہ تعلقات بنائے رکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب کشمیر کے مسئلہ پر ہندو پاک کے درمیان تعلقات ہر روز کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ ہندوستانی کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کا عالمی سطح پر احتجاج اور پھرہندوستان کے اڑی فوجی کیمپ پر پاکستانی حملہ آوروں کا دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستانی حکومت کا پاکستان کے خلاف سخت موقف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستقبل میں مزید بگڑسکتے ہیں۔ وزیراعظم ہندمودی کا عالمی سطح پر سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے دوسرے ممالک کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا اور ان ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا ایک عجیب منطق نظر آتی ہے۔ ہندوستان میں اسرائیلی صدر ریوون ریولن کی آمد پر انکاگرمجوشی سے استقبال کیا گیا جبکہ بعض مسلم قیادت کی جانب سے اسرائیلی صدر کی ہندوستان میں آمد پر احتجاج بھی دیکھا گیا۔ نریندر مودی نے اسرائیلی صدر کے دورے کے بعد عالم اسلام کے سربراہوں کو ہندوستان آنے کی دعوت دے کر ہندوستانی مسلمانوں کوایک طرف خوش کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب ان عرب ممالک کے سربراہوں کی آمد کے بعد عرب سرمایہ کاروں کی جانب سے ہندوستان میں لاکھوں ڈالرس کی سرمایہ کاری کیلئے دروازے کھولدیئے ہیں اس طرح ہندوستانی وزیر اعظم ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہ رہے ہیں۔مشرقِ وسطی سے مدعو کئے گئے ان چار عرب حکمرانوں میں سب سے پہلا دوسرہ قطر کے وزیر اعظم شیخ عبداﷲ بن ناصر بن خلیفہ الثانی کا 13؍ ڈسمبر کو متوقع ہے۔ ان کے دورہ کے بعد ابو ظہبی کے ولیعہد شیخ محمد بن زاہد النہیان 2017کی یوم جمہوریہ تقاریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کریں گے۔ ان کے دورے کے بعد اردن کے شاہ عبداﷲ اور پھر سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز ہندوستان کا دورہ کریں گے۔ یہ چاروں ممالک پاکستان کے راویتی حلیف ہیں اور ہندوستان کے ساتھ بھی ان ممالک کے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ ان دنوں عالمی سطح پر یہ دیکھا جارہا ہے کہ دشمن ممالک ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کررہے ہیں جس طرح ہندوستان ، چین کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی سعی کررہا ہے تو دوسری جانب امریکہ کے منتخبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، روس کے صدر ولاڈیمیر پوٹن کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور روس کی جانب سے بھی دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لئے گرین سگنل بتایا جاچکا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی مشرقِ وسطی کے حکمرانوں کی کس طرح آؤ بھگت کرتے ہیں اور ان سے پڑوسی ملک پاکستان کی پالیسی پر کس قسم کا ردّ عمل ظاہر کرتے ہیں کیونکہ عالمِ عرب کے ان ممالک کے تعلقات پاکستان کے ساتھ انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں ۔ سعودی عرب ہو یا دیگر عرب ممالک پاکستان کو اپنا قریبی دوست ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اسے محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ پاکستانی فوجی طاقت اور اس کی صلاحیتوں کے ان ممالک معترف ہیں اور پھرپاکستان ایک اسلامی جوہری طاقت کا حامل ملک ہے۔

پاکستان کے نئے فوجی سربراہ
پاکستان فوجی سربراہ کی حیثیت سے29؍ نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے رالپنڈی میں منعقدہ تقریب میں بری فوج کی کمانڈ سنبھالتے ہوئے پاکستان کے نئے فوجی سربراہ کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف سے کمانڈ اسٹک حاصل کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستانی بری فوج کے 16ویں سربراہ ہیں وہ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے چوتھے چیف ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل باجوہ فوجی کیریئر کا آغاز16ویں بلوچ ریجمنٹ میں اکٹوبر 1980ء میں کیا تھا۔ وہ کینڈا اور امریکہ کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل چکے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور انتہائی اہم سمجھی جانے والی 10ویں کور کی کمامڈ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کوئنٹہ میں انفینٹری اسکول کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔جنرل باجوہ اقوام متحدہ کی امن مشن کے تحت کانگو میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔نئے عہدہ کا جائزہ لینے سے قبل وہ جی ایچ کیو میں جنرل ٹریننگ اور ایولیوشین کے جنرل تھے۔ 26؍ نومبر 2016کو وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر پاکستان ممنون حسین نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے مشورہ پر جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی تھی۔ جنرل زبیر محمود حیات جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے نئے چیئرمین بنائے گئے ہیں ۔وہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے17ویں چیئرمین ہیں جو جنرل راشد محمود کے جانشین بنائے گئے ہیں۔جنرل راشد محمود بھی 1980میں فوج میں شمولیت اختیار کی ،جنرل محمود بھی برطانیہ اور امریکہ کے فوجی کالجوں میں پڑھ چکے ہیں، کئی اہم ترین عہدوں پر فائز رہے، آرمی چیف کے پرائیوٹ سکریٹری کے علاوہ جوہری اثاثوں کی دیکھ بحال کرنے والے اسٹریٹیجک پلان ڈویژن کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں اور ارٹلری ریجمنٹ کی کمان بھی کرچکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ حال ہی میں اُن تربیتی مشقوں کی خود نگرانی کی جو لائن آف کنٹرول کے اطراف کشیدگی کی وجہ سے کی جارہی تھیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ سیناریٹی کی لسٹ کے مطابق سب سے پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کا لیا جارہا تھا اور دوسرا نام لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد لیا جارہا تھا جبکہ تیسرے نام لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے کا تھا اور آخر میں چوتھا نام لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تھا۔ اس کے علاوہ کسی دوسری شخصیت کو بھی پاکستانی فوجی سربراہ مقرر کیا جاسکتا تھا لیکن ہندو پاک کے درمیان موجودہ حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جنرل کے عہدہ پر ترقی دے کر پاکستان فوج کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نئے فوجی سربراہ ہندو پاک کے درمیان تعلقات کو کس سمت لیجاتے ہیں جبکہ پاکستان میں جنرل راحیل شریف کے دور میں جس طرح دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے حکومت اور فوج مل کر جو بیڑہ اٹھایا تھا اسے نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی حکومت کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔؟
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.