چھڑی اور جھڑی
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
ایٹمی پاکستان کی منظم فو ج پیشہ ورانہ
مہارت ،کمٹمنٹ،دفاعی طاقت اورقابلیت کے اعتبار سے دنیا کی نمبر ون فوج
اورناقابل شکست ہے۔ پاک فوج کے ماتحت ادارے آئی ایس آئی کی کارکردگی کابھی
ایک زمانہ مداح ہے۔دشمن ملک بھارت کے دانشور بھی بڑے ملکوں کے مقابلے میں
سرگرم آئی ایس آئی کی صلاحیتوں اورکامرانیوں کوقدر کی نگا ہ سے دیکھتے
ہیں۔پاکستان کی دشمن قوتوں کیلئے آئی ایس آئی ایک شکنجے کی مانند ہے ۔ہمارے
رینجرزنے بھی ہمیشہ ایل اوسی پرہرطرح کے ڈینجرزکامردانہ وارمقابلہ کرتے
ہوئے مادر وطن کے دفاع کیلئے جہاں دشمن فوج کے اہلکاروں کوجہنم واصل کیا
وہاں ان جانبازوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ۔میدان جنگ میں کسی فوج
کابڑاحجم ہونا نہیں بلکہ اس کاپرعزم ہونازیادہ اہم ہے،ہمارے فوجی دشمن
کاصفایاکرنے کیلئے پرجوش اورپرعزم ہیں۔پاک فوج کے آفیسرزاورجوان اپنے
مادروطن کی خدمت اور حفاظت کرتے ہوئے شہادت کے متمنی ہیں جبکہ بھارتی فوج
میں سینکڑوں جوانوں نے جنگ کے ڈر سے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم
کرلی۔بھارتی فوج کے جوانوں کی رگ رگ میں مایوسی اورپاک فوج کی ہیبت سرائیت
کرگئی ہے ۔اگربھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ کاارادہ کیا تواس کی فوج میں
بغاوت ہوجائے گی اورہزاروں بھارتی فوجی فوج چھوڑدیں گے۔پاک فوج کے جوان
اورہمارے نڈررینجرز موت سے نہیں ڈرتے توبھارتی چوہوں سے کیا خاک ڈریں گے ۔پاکستان
کے لوگ اپنے فوجی جوانوں کی پشت پرکھڑے ہیں اورآج بھی پاکستانیوں میں 1965ء
کے دنوں کاجذبہ پوری طرح بیدار ہے۔جوغیورقوم اپنے جانبازوں کی پشت پرہو
اورجس فوج کے جوان شوق شہادت سے سرشارہوں اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔بھارت
ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان سے جنگ کامتحمل نہیں ہوسکتا۔بھارت نے
جارحیت کی نیت سے جبکہ پاکستان نے محض دفاعی ضرورت کے تحت ایٹمی طاقت حاصل
کی۔پاک فوج کی قیادت کرناایک بیش قیمت اعزازاوربینظیر سعادت ہے۔1965ء میں
پاک فوج کے دبنگ اور پروفیشنل آفیسرز کے ساتھ ساتھ نڈرجوانوں نے جس بہادری
سے دشمن کامقابلہ اورصفایا کیا وہ انسانی تاریخ اوردفاعی نصاب کاایک روشن
باب ہے،1965ء کی معرکہ آرائی کاتذکرہ ریڈیوپاکستان، نورجہاں،مہدی حسن
اورہمارے شعراء کے بغیرادھورا ہے ۔
پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل قمرجاویدباجوہ شاہینوں کے شہرسرگودھا میں
پیداہوئے۔انہوں نے میٹرک سے انٹرمیڈیٹ تک بنیادی تعلیم راولپنڈی کے
سرسیدکالج میں حاصل کی،جس کے بعدان کی کاکول میں میرٹ کی بنیادپر سلیکشن
ہوگئی ،انہوں نے کسی مجبوری نہیں بلکہ ایک مقدس مشن کے تحت فوج کاانتخاب
کیا تھا ۔ جنرل قمرجاویدباجوہ اپنے زمانہ طالبعلمی میں ایک اچھے کھلاڑی بھی
تھے ،انہیں اپنے عہدشباب میں کرکٹ سے بیحد لگاؤتھا اوروہ وکٹ کیپر بلے باز
کے طورپراچھاکھیلتے رہے ہیں ۔انہوں نے 62ویں پی ایم اے لانگ کورس سے کمشن
حاصل کیا ۔ان کاتعلق انفنٹری کی بلوچ رجمنٹ سے ہے ۔انہیں پاک فوج کی سب سے
بڑی ٹین کور کی کمانڈکرنے کاقابل فخراعزازحاصل ہے جوایل اوسی سے ملحقہ
علاقوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔ جنرل قمرجاویدباجوہ
آزادکشمیر کی سکیورٹی کابھی بھرپورتجربہ رکھتے ہیں ۔فورسٹارجنرل بنائے جانے
سے قبل وہ انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈایویلوایشن کے منصب پربھی فائز رہے
ہیں۔انہوں نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پرجی ایس اواوربطورمیجر جنرل فورس
کمانڈناردرن ایریا زکی سربراہی کی ،انہوں نے مجموعی طورپرتین بارٹین کور
میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں اوراپنی خدادادصلاحیتوں کالوہامنوایا،اِس
طرح جنرل قمرجاویدباجوہ کو آزادکشمیر اورشمالی علاقہ جات کے سکیورٹی
امورکابھی بھرپورتجربہ بھی حاصل ہے ۔جنرل قمرباجوہ اپنے شاندارکیرئیر کے
دوران انفنٹری سکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہے اوروہاں بھی شاندارکارکردگی
کامظاہرہ کیا اوروہاں ان کی اصلاحات کے دوررس اثرات منظرعام پرآئے ۔انہوں
نے کانگوکے اندر اقوام متحدہ کے امن مشن میں بطوربریگیڈکمانڈ بااحسن خدمات
انجام دیں ۔ یہ انتہائی دلچسپ امر ہے کہ جنرل قمرجاویدباجوہ سے قبل ان کے
پیشروآرمی سربراہان جنرل یحیٰ خان،جنرل(ر) مرزااسلم بیگ اورجنرل (ر)اشفاق
پرویزکیانی کاتعلق بھی بلوچ رجمنٹ سے تھا۔
جنرل قمرجاویدباجوہ کے والد نے بھی پاک فوج میں خدمات انجام دیں اور خوب
دادشجاعت پائی ۔ان کاخاندان چھ دہائیاں قبل سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے ایک
خوبصورت گاؤں ''اچار پہاڑنگ ''سے ہجرت کرکے سرگودھامیں آبادہوگیاتھا ۔جنرل
قمرجاویدباجوہ کے والد کرنل محمداقبال باجوہ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ
میں شریک ہوئے اورلاہور کے محاذ پردشمن کاڈٹ کامقابلہ کیا ۔کرنل محمداقبال
باجوہ جس وقت ریٹائرڈ ہوئے اس وقت ان کی پوسٹنگ کوئٹہ چھاؤنی میں تھی ، ان
کا ہارٹ اٹیک کے نتیجہ میں انتقال ہوا ۔جنرل قمر کے داداکانام عنایت اﷲ
باجوہ تھا ۔جنرل قمرجاویدباجوہ ایک سچے مسلمان اورسراپا''پاکستانیت''ہیں ۔
انہوں نے ہمیشہ قومی مفادات کے حق میں دوٹوک اورسخت موقف اپنایا،انہیں
مختلف ایشوزکی تہہ تک پہنچناخوب آتا ہے ۔ان کے ہم عصر فوجی آفیسرز
اورعزیزواقارب کاکہنا ہے کہ جنرل قمرجاویدباجوہ ایک نڈر، پروفیشنل اورزیرک
فوجی ہیں ۔پاک سرزمین کوانتہاپسندی اوردہشت گردی کی گندگی سے پاک کرنا ان
کی ترجیحات میں سرفہرست ہے ۔انہوں نے کرنل سے جنرل کے عہدے تک دہشت گردی
کیخلاف جاری جنگ سمیت مختلف محاذوں پرقیادت کرتے ہوئے کامیابی کے جھنڈے
گاڑے ۔جنرل قمرباجوہ کی شاندارخدمات کے سبب سیاچن کے ایک سیکٹرکو باجوہ
پوسٹ کانام دیا گیا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اپنے معتمدساتھیوں کے ساتھ مشاورت اوراپناآئینی
اختیارواستحقاق استعمال کرتے ہوئے جنرل قمرجاویدباجوہ کوپاک فوج کانیا
سربراہ مقررکیا۔جی ایچ کیومیں ایک پروقاراورشاندارتقریب میں پاک فوج کے
سبکدوش ہونے والے سربراہ جنرل(ر) راحیل شریف نے اپنے جانشین جنرل
قمرجاویدباجوہ کو''بیٹن''دی ،بیٹن اس چھڑی کوکہا جاتا ہے جوسبکدوش ہونے
والے آرمی چیف نامزدآرمی چیف کے سپردکرتے ہیں۔بیٹن فوج کے سربراہ کی ذمہ
داریوں کی منتقلی کی روایتی علامت ہے ۔پاک فوج میں بریگیڈئیر سے اوپرتک کے
عہدوں پرترقی پانیوالے ہرآفیسر کوایک چھڑی سونپ دی جاتی ہے ۔بیٹن نامی چھڑی
کو عہدے کی ذمہ داریوں کی منتقلی کاعلامتی نشان سمجھاجاتا ہے یعنی پاک فوج
کی قیادت کی یہ چھڑی اب جنرل قمرجاویدباجوہ کے سپردکردی گئی ہے جواپنے عہدے
کی مدت ختم ہونے کے بعداپنے جانشین کے سپردکریں گے ۔کمان کی یہ چھڑی
انگریزوں کے ساتھ آئی تھی اوراس وقت سے یہ پاک فوج کی روایات کاایک اہم حصہ
بن گئی ہے ۔بیٹن چھڑی سنگاپور سے منگوائے جانیوالے ''ملاکاکین ''سے تیار کی
جاتی ہے ۔
ایک چھڑی،چارطاقتورہاتھ ،تیزی سے دھڑکتے دوقلب جبکہ ہزاروں کروڑوں آنکھیں
یہ تاریخی منظردیکھتی ہیں جس وقت سبکدوش ہونیوالے آرمی چیف اپنی چھڑی اپنے
جانشین کے سپردکرتے ہیں تواُس وقت ان دونوں کے قلوب میں کیا جذبات واحساسات
سراٹھاتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ اوران دنوں کے سواکوئی نہیں جان اورسمجھ
سکتا۔ایک چھڑی کی سپردگی کے ساتھ ایک آرمی چیف کے شاندار کیرئیر کاانجام
تودوسرے کاآغاز ہورہا ہوتا ہے ۔ یہ چھڑی کوئی معمولی چھڑی نہیں ہوتی ،اس سے
دشمن پرہیبت طاری ہوجاتی ہے ،اس چھڑی کودیکھ کر بڑے بڑے چوروں کی چمڑی
اترجاتی ہے۔جنرل (ر) راحیل شریف کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو عزت ،مثبت
شہرت اور پذیرائی ملی وہ بجاطورپراس کے مستحق تھے ۔ان کے بعد آنیوالے
ہرآرمی چیف کو ملک دشمن قوتوں کو اسی انداز میں للکارنااورپچھاڑناہوگاجس
اندازسے دبنگ جنرل (ر)راحیل شریف للکارتے اورپچھاڑتے تھے ۔اﷲ تعالیٰ نے
جنرل (ر)راحیل شریف کومردانہ وجا ہت اورقدوقامت بھی خوب دی ہے اورجنرل
قمرجاویدباجوہ کی شخصیت بھی دشمنوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ جنرل
(ر)راحیل شریف کی آبرومندانہ رخصتی پرجہاں کروڑوں پاکستانیوں کی آنکھوں میں
جھڑی کامنظرتھاوہاں جنرل قمرجاویدباجوہ کیلئے چمک اورامید بھی ہے۔ جنرل
(ر)راحیل شریف نے جوراستہ منتخب کیا تھا اب سے چھوڑنا پاک فوج کی قیادت
کیلئے آسان نہیں ہوگا۔جولوگ ملک وقوم کیلئے سردھڑکی بازی لگاتے ہیں ،قوم
بھی ان پراپناسب کچھ نچھاورکرتی ہے۔ برادرم مظہربرلاس بھی اس پروقار تقریب
میں قلم قبیلے کی نمائندگی کررہے تھے۔
جنرل (ر)راحیل شریف نے اپنے منصب سے بھرپورانصاف کیا اورتاریخ کے اوراق
پران کانام ،کرداراورمقام دھڑکتا و چمکتارہے گا۔جنرل (ر)راحیل شریف کی
رخصتی پرقوم اداس ضرور ہے مگرمایوس ہرگز نہیں کیونکہ جنرل قمرجاویدباجوہ کی
صورت میں پاک فوج کی قیادت انشاء اﷲ انتہائی مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہے
۔جس طرح جنرل (ر)راحیل شریف پاکستانیوں کی دعاؤں اوروفاؤں کامحورتھے اب
جنرل قمرجاویدباجوہ ان کی دعاؤں اوروفاؤں کامرکز ہوں گے۔پاکستانیوں کی پاک
فوج سے والہانہ محبت دن بدن بڑھتی جائے گی ۔جنرل قمرجاویدباجوہ کی قیادت
میں پاک فوج مادر وطن کی حفاظت کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی اور انتہائی
پیشہ ورانہ انداز سے مختلف چیلنجز کامقابلہ کرے گی ۔قیادت کی تبدیلی سے
یقینا فوج کی سمت تبدیل اورہمت پست نہیں ہوگی۔ جنرل (ر)راحیل شریف کی
آبرومندانہ سبکدوشی پربھارت میں جشن کاسماں تھا مگرجنرل قمرجاویدباجوہ کی
تقرری سے نیودہلی سمیت بھارت کے طول وارض میں صف ماتم بچھ گئی ہے ۔جنرل قمر
باجو ہ دشمن کوکاری ضرب لگاتے ہیں۔
پاک فوج میں حالیہ تبدیلی سے قومی سیاست میں بھی تبدیلی کاراستہ ہموارہونے
کی قوی امید ہے۔میدانوں میں احتساب تحریک اورتبدیلی کیلئے متحرک لوگ بھی
منتخب ایوانوں کارخ کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے ایوانوں میں بیٹھی
فرینڈلی اپوزیشن بھی میدانوں میں آجائے اورملک میں نوے کی دہائی کی طرح
کاماحول بن جائے،اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کے تازہ بیانات اس بات کی شہادت دے
رہے ہیں ،تاہم اس کازیادہ ترانحصارارباب اقتدار کے رویوں پر ہے۔ہمارے لوگ
حکمرانوں اورسیاستدانوں کو دُہائی دے رہے ہیں ،ان کاکہنا ہے کہ ہمارا وطن
نوے کی دَہائی والی سیاست کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ میاں نوازشریف
طاقتوروزیراعظم بن کرابھرے ہیں،بسااوقات ضرورت سے زیادہ طاقت فرعونیت میں
بدل جاتی ہے اورطاقتورحکمران زیادہ غلطیاں کرنے لگتے ہیں۔جہاں اپوزیشن اپنا
منظم ،موثراورمتحرک کرداراداکرے وہاں حکمران بے قابواورادارے بے لگام نہیں
ہوتے ۔وزیراعظم میاں نوازشریف کے چہرے پرخوشی صاف دیکھی جاسکتی ہے ،ان کی
آنکھوں اوران کے انداز سے ان کااعتماد صاف جھلکتا ہے ۔پنجاب میں وزراتوں
کاحالیہ سیلاب بھی یقینا اس تبدیلی اورخوداعتمادی کانتیجہ ہے ۔ پیپلزپارٹی
کے سربراہ اورسابق صدرمملکت آصف علی زرداری بھی خودساختہ جلاوطنی ختم کرنے
اوروطن واپس آنے کاعندیہ دے چکے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری بھی پارلیمنٹ میں
جانے کیلئے پرتول رہا ہے ،خورشید شاہ کوہٹاکر بلاول بھٹو زرداری کواپوزیشن
لیڈر بنایاگیا تواس اقدام سے موروثی سیاست کوتقویت ملے گی اورجمہوریت
کامذاق بنے گا۔آصف زرداری پانچ برس تک بادشاہ رہے اورظاہرہے پاکستان میں
صدرمملکت سے بڑاکوئی منصب نہیں،اب وہ بادشاہ گر بن سکتے ہیں جس طرح سلطان
صلاح الدین ایوبی کی بادشاہت کافیصلہ ہوا توا نہوں نے اپنے والد نجم الدین
ایوب کوتخت پربیٹھنے کی پیشکش کی جس پران کے والد نے کہا میں خودبادشاہ
بننے کی بجائے بادشاہ کاباپ کہلوانا پسندکروں گا۔ |
|