اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ
گلگت بلتستان ترقی کے منازل طے کررہا ہے ۔گلگت بلتستان آج پاکستان کے کئی
پالیسیوں خصوصی طور پر اقتصادی پالیسیوں کا محور بنا ہوا ہے جس کی سب سے
بڑی مثال پاکستان چائینہ اقتصادی راہداری منصوبہ ہے اسی منصوبہ کی وجہ سے
آج گلگت بلتستان میں پاکستان کے منتخب و غیر منتخب نمائندگان سمیت چینی
حکام کی آمد و رفت تیز ہے۔چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ گلگت
بلتستان کے ضلع ہنزہ سے شروع ہوتا ہے اور ضلع نگر ،ضلع گلگت اور ضلع دیامر
سے گزر کر پاکستان تک پہنچ پاتا ہے ۔اگر اقتصادی پالیسیوں سے زرا سی نظر
ہٹاکر خارجہ پالیسی کی طرف دیکھیں تو بھی معلو م ہوتا ہے کہ گرم پانی تک
رسائی کا سفر ہو یا اقتصادی مفادات ہوں انڈیا سمیت کئی ممالک نے پاکستان کی
طرف اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ۔ روس جیسا ملک جس کے خلاف افغانستان میں
پاکستان پیش پیش تھا اور امریکی بلاگ کی مجبوریوں کی وجہ سے روس کی پہل
قدمی کو روکنے پر تل گیا تھا آج روس بھی پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ
بڑھانے کی ’درخواست ‘کرررہا ہے ۔ جس کے لئے باقاعدہ طور پر پاکستان اور چین
کے اعلیٰ سفارتی اہلکاران سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں ۔جبکہ انڈیا نے بھی
چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ میں بذریعہ افغانستان اپنا حصہ مانگ
لیا ( جو کہ ناقابل قبول ہے )۔۔۔۔ حال ہی میں ایسی ہی خیالات کااظہار دفاعی
تجزیہ کار برگیڈیر حارث نواز نے ایک نجی ٹیلی ویژن میں گفتگو کرتے ہوئے کیا
جس سے گلگت بلتستان کی ابھرتی ہوئی حیثیت معلوم ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔
کتنی اتفاق کی بات ہے کہ عوام گلگت بلتستان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے ۔یہاں
کے ’باسیوں‘ کو یہاں کے پہاڑ سہارا دے رہے ہیں یہاں کا دریا پانی اور یہاں
کا ماحول ’باسیوں ‘کو آکسیجن فراہم کررہا ہے ۔میں اس سرزمین کے حوالے سے اس
بات کا قائل ہوں کہ شخصی اور انفرادی کردار آج تک کسی نے ادا نہیں کیا ہے
اگر کسی کا کردار ہے تو بھی ’کماحقہ‘نہیں۔آپ ہونگے سیاسی قائد آپ کو اپنے
سیاست اور اپنے سیاسی پارٹی کی فکر ہے ۔ آپ ہونگے تاجر آپ تجارت کی فکر میں
رہیں گے آ پ طالبعلم ہیں تو ڈگری دیکر ’نوکری ‘کی فکر کریں گے ۔۔ آ پ پہلے
7کے یا اب کے 10اضلاع میں سے کسی ایک کے ہیں تو آپ کو اپنے حصار کے مطابق
اپنے ضلع کی فکر ہوگی ۔۔ آپ اگر مدرسے کی ڈگری لیکر آئے ہیں تو ۔۔۔۔۔۔آپ کا
تو بڑا کردار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے اپنی پہچان بنانی ہے اپنی لسانیت ، خطابت
اورعربی وفارسی امثال کے زریعے اپنی ’علم ‘کے ’دریا‘ کو دکھانا ہے۔ دال
گلناہو یا اگلنا ہو ، نماز میں ہاتھ کہاں باندھنا ہے آپ لوگوں کو بتائیں گے
، بنک میں پیسے کس قسم کے اکاؤنٹ میں رکھنا ہے آپ بتائیں گے ، سڑک کے کس
راستے جانا ہے آپ بتائیں گے ، کھانا کس ہاتھ سے کھانا ہے آپ بتائیں گے ،اور
آ پ کیا بتائیں گے ؟شلوار میں جیب ڈالنا کیسا ہے ؟دفتر میں خواتین کے ساتھ
کام کرنا کیسا ہے ؟ موبائل کو استعمال کرنے کا اسلامی طریقہ وغیرہ وغیرہ
۔۔۔آپ جتنا ہی عہدے اور منسب کے لحاظ سے اعلیٰ اور نمایاں ہیں اتنے ہی اس
علاقے کے مقروض ہیں ۔۔ یہاں کے آمدن کے سب سے بڑازریعہ ’ثقافت‘ہے جو کہ اب
میری وجہ سے دیگر اسلامی ممالک کی طرف رجوع کررہا ہے نہیں خبر کہ وہاں کا
عام آدمی کیا کرتا ہے ۔ وہاں کا سماج کتنا مہذب ہے، عوام کو اپنے سماجی و
بنیادی حقوق تک رسائی کتنی آسان ہے ۔زنجیر کے کڑے ہاتھ میں ہیں یا پاؤں میں
۔۔پالیسیاں کس قسم کی ہیں ،سرمایہ داری کا انتظام کیسا ہے ، صحت اور تعلیم
جیسی سہولیات کیسی ہیں؟وغیرہ وغیرہ لیکن ہم صرف د رج بالا ’مذہبی ‘سوالا ت
کی بنیاد پر وہی پر گھوم رہے ہیں۔
چائینہ پاکستان اقتصادی راہدار ی منصوبہ میں گلگت بلتستان کو کیا مل رہا ہے
؟ یہ عام عوام کے زہنوں میں گھومنے والا سب سے اہم سوال ہے ؟ ’آپ ‘تو کہتے
ہیں کہ گلگت بلتستان اس منصوبے کا گیٹ وے ہے اور یہاں کے عوام کو اس منصوبے
میں نظر انداز کردیا گیا تو ۔۔۔۔۔ہم گزرنے بھی نہیں دینگے ۔ہم احتجاج
کرینگے ، ہم دھول کھانے اور گاڑیوں کو حساب کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔اور
’آپ‘ ہی بحیثیت زمہ دار اور سماج کے ایک اہم شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود
عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ گلگت بلتستان کو اس منصوبے سے کیا مل رہا
ہے ؟؟؟آ پ کو لازمی بات ہے کہ 2019کے انتخابات کی ہی فکر ہے اور اتفاق سے
یہی ایک وہ شعبہ ہے جو ہر وقت اپنے کام سے کام رکھتا ہے چاہے جہاں بھی جائے
۔کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہوگا جہاں پر سیاستدانوں کا ضروری و غیر ضروری
اثر رسوخ نہیں چلتا حتیٰ کہ مذہبی معاملات تک (آپ کو یاد ہوگا کہ ایک خالص
مذہبی تنظیم کے سربراہی کے بعد دو نامور سیاستدانوں کے اس پر زبردست تبصرے
کئے تھے )۔
اگر آپ سیاسی پارٹی سے ہیں جو کہ وفاق میں اچھی پوزیشن کے ساتھ موجود ہے
اور لڑتی ہے تو میں نے تو آپ کو گلگت میں صرف بنے بنائے ہوئے سٹیج پر دیکھا
ہے ؟ ایسا عظیم منصوبہ جس میں اپنا حصہ مانگنے کے لئے تمام سیاسی و مذہبی
پارٹیاں اپنے اپنے ہمت کے مطابق لڑرہے ہیں مگر پاکستان میں ۔ ان پارٹیوں کے
یہاں کے قائدین ان کو یہ بتلانے سے قاصر ہیں کہ گوادر اور گلگت بلتستان اس
منصوبے میں برابر کے حصہ دار ہیں کہیں زرہ برابر کا فرق ہوسکتا ہے لیکن
دونوں علاقوں کی جغرافیائی اہمیت ہے ۔ٹھیک ہے کہ گوادر اس منصوبے کا آخری
پوائنٹ ہے چلے منزل ہی سمجھ لیں لیکن اس کا داخلی دروازہ اور سیڑھی تو گلگت
بلتستان ہی ہے ۔ اگر نتائج گوادر سے نظر آرہے ہیں تو INPUTتو گلگت بلتستان
میں ہے ۔روس ، افغانستان ، وسطی ایشیاء کے ممالک سمیت چائینہ کی زیادہ نظر
تو گلگت بلتستان پر ہے (جس پر مختلف حلقوں سے خدشات کااظہار بھی کیا جارہا
ہے )
زہن میں ابھرنے والا سوال یہ نہیں کہ اس منصوبے میں گلگت بلتستان کا کتنا
حصہ ہے ؟یہ ایک مکمل طور پر سیاسی بحث اور مسئلہ ہے جس میں اگر آپ کا حلقہ
کہیں سیاست سے مل جائے تو آپ بھی بولیں گے کبھی حکومت کے حق میں کبھی اس کے
خلاف ، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس منصوبے کے بعد بھی گلگت بلتستان میں
یہی غربت رہے گی ؟ زہنوں میں چھائے ہوئے گرد و غبار ختم ہونگے جسے
INTELLECTUAL PROPERTYکہا جاتا ہے ،کیا ثقافتی طور پر بیگانگی پائی جاتی ہے
یہ ختم ہوجائے گی (جسے حقیقی معنوں میں استعمال میں لایا جائے تو ایک قوت
ہے )؟کیا ریاستی امور میں ’مذہبی ‘عمل دخل رہے گا ۔غریب کے غریب تر اور
امیر کے امیر تر ہونے کی صورتحال ختم ہوجائے گی ۔
شاعر نے اس المیہ کو یوں بیان کیا ہے کہ
جسکا ایک ہی بیٹا ہو ،بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ تم اہل دانش ،وہ روٹی لے یا تختی
ممکنہ طور پر اگر صنعتیں لگ بھی گئی تو کیا غریب آدمی کے لئے عزت کی زندگی
کے مواقع ملیں گے یا پھر بڑے بڑے مگرمچھ اپنے سرمایہ کو محفوظ کرینگے؟
۔مجھے ان سوالات سے اس لئے بھی توجہ زیادہ ہے کیونکہ ہمسایہ ملک چائینہ
ماضی قریب تک دنیا کے پسماندہ ممالک میں شامل ہوا کرتا تھا 1962-63میں
چائینہ اور انڈیا کے درمیان جاری جنگ میں پاکستان نے صرف اس وجہ سے چائینہ
کی حمایت کرتے ہوئے انڈیا کے خلاف قدم نہیں اٹھایا کیونکہ چائینہ ناقابل
اعتبار ممالک میں شامل تھا ان کی اپنی معیشت کمزور ترین تھی اور دنیا کی
سیاست میں اس کا بہت کم تھا ۔۔۔۔۔۔
اگر اس ساری صورتحال میں آپ کا جواب بھی نفی ہے تو میرے خیال میں یہ علاقہ
اپنے ساتھ ’باسیوں ‘ کی طرف سے ہونے والے صورتحال کے خلاف سخت بدلہ لے
گا۔۔۔۔
اگر دولت اور قدرت سے مالامال اس خطے کا مستقبل سنوارنا ہے جس سے انفرادی
زندگی ہی نہیں مستقبل کی نسلیں بھی وابستہ ہیں تو ہمیں آئینہ صاف کرنے کی
بجائے چہرہ اور دل صاف کرنے کی ضرورت ہے ۔ |