دامان کی دھرتی شعر گوئی کے حوالے سے ہمیشہ
بہت زرخیز رہی ہے لیکن اس علاقے کے مخصوص رسم ورواج کے سبب تمام شعبہ ہائے
زندگی کی طرح شعر گوئی میں بھی مرد ہی حاوی رہے۔سماجی اورمعاشرتی پابندیوں
کی وجہ سے کچھ تو مردوں نے خواتین کی تخلیقات کو منظرِ عام پر لانے میں بے
اعتنائی برتی اور مشقِ سخن کرنے والی خواتین نے خود بھی اپنے کلام کو لوگوں
تک پہنچانے کی سعی نہیں کی۔تاہم پچھلی دہائی میں ان سماجی ومعاشرتی
پابندیوں کے باوجود ڈیرہ اسمٰعیل خان کے مضافاتی علاقے پروہہ سے تعلق رکھنے
والی شاعرہ نسیم سحر بلوچ کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے اور اسے ڈیرہ
اسمٰعیل خان کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ڈیرہ
اسمٰعیل خان سے تعلق رکھنے والی ایک اور شاعرہ ناہید غزل کے شعری مجموعے کا
مسودہ بھی ترتیب پا چکا ہے مگر اس کی اشاعت ابھی تک ممکن نہ ہو سکی۔ اب اسی
شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان سے عذرا بخاری جیسی کہنہ مشق شاعرہ نے میدانِ سخن میں
وارد ہوکراس سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ نہایت خوش آئندبات
ہے۔عذرا بخاری پچھلی تین دہائیوں سے شعر کہہ رہی ہے۔میں نے ۲۰۰۱ء میں ڈیرہ
اسمٰعیل خان میں اپنی تعیناتی کے دوران پہلی دفعہ اس کے کچھ اشعار سنے
توبہت متاثر ہوا۔عذرا بخاری نے سماجی اور معاشرتی قدغنوں کے باوجود اپنے
جذبات و احساسات کا تخلیقی اظہار کیاجو قابلِ تحسین ہے۔اگرچہ اس کے ہاں
دیگر پاکستانی شاعرات کی طرح نسائی لہجہ نمایاں ہے مگر اس کی غزل میں
رومانویت کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل کا بیان بھی خاصا فکر انگیز ہے۔خود
بینی کے علاوہ جہاں بینی کو بھی اس نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔عذرا بخاری
کی غزل کا خمیر روایت سے اٹھا ہے تاہم اس کی غزل عصر حاضر کے سلگتے ہوئے
ماحول کا منظر نامہ بھی ہے۔ اس نے صرف ہجروصال کی کیفیات کو بیان کرنے پر
اکتفا نہیں کیا بلکہ عہدِ موجود کی مایوسیاں ، رنج و محن ، وسائل کی غیر
منصفانہ تقسیم اور اخلاقی گراوٹ جیسے موضوعات کو
بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔
اے دُوریوں کے چاند اگر وقت اِذن دے
دوچار روز قُرب میں تیرے بسر کریں
دریدہ دل ہیں مگر حوصلوں سے لگتا ہے
فصیلِ درد میں خوشبو کا راستہ بھی ہے
جابر کو بھی جھکنا پڑتا ہے اک دن
سچّائی میں اتنی طاقت ہوتی ہے
ہم اپنے درد کی جاگیر پر بھی نازاں ہیں
سیاہ بخت ہیں جن کو یہ آسرا بھی نہیں
عذرا بخاری کے شعری مجموعے میں بہت ساری نظمیں بھی موجود ہیں۔اداسی ساتھ
رہتی ہے،ماحول کے دکھ ،قرض اورفراخ دلی جیسی نظمیں قاری کو ضرور متوجہ کرتی
ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر ان کی غزلوں میں زیادہ توانائی اور تازگی دکھائی
دی ۔تکنیکی اعتبار سے عذراکی شاعری سہل ممتنع کی ایک خوبصورت مثال ہے
کیونکہ اس نے اشعار کو اپنے نظریات کے پرچار کے لئے نعرہ نہیں بنایا اور نہ
ہی ان پر بھاری بھرکم تشبیہوں اور استعارات کا بوجھ ڈال کر انہیں ابہام زدہ
کیا ہے۔عذرا بخاری نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے نہایت گداز لہجے کا
استعمال کیاہے۔اس کے اسلوب کے دھیمے پن اور شائستگی نے اس کی شاعری کی
تاثیر میں مزیداضافہ کر دیا ہے۔عذرا بخاری نے اپنی شاعری میں عورت کی فطری
بنت اور سپردگی کی خواہش کا برملا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا
شعری مستقبل بہت درخشاں اور روشن ہے۔ اگرعذرا بخاری نے ریاضت اور مطالعے کو
اپنا شعار بنائے رکھا تو وہ اپنی انفرادیت قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہو
جائے گی- |