دسمبر آ گیا

دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے ، اپنے ساتھ چند ایسی یادیں بھی لاتا ہے جن سے درد و الم کا ایک گہرا احساس تڑپا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ پت جھڑ کا موسم ہے۔ ہریالی کی جگہ زردی نے لے لی ہے۔ پتوں میں جیسے آگ لگی ہے۔ کشمیر میں چنار جیسے جل رہے ہیں۔ دسمبر میں کئی بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں سے سقوط ڈھاکہ اور بابری مسجد کی شہادت ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لئے بھی انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوئے۔ بھارت نے ان دونوں سے سیاست چمکانے اور پاکستان و مسلمانوں ہرزہ سرائی کے لئے استعمال کیا۔ آج بھی بھارت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے نام پر سیاست جاری ہے۔
اترپردیش یا یو پی اور پنجاب میں اسمبلی انتخابات کے موقع پر ایک بار پھر بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا انتخابی فریب دیا جا رہا ہے۔ہندو عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ عمل برسوں سے جاری ہے۔ بی جے پی اور ہندو شدت پسند نریندر مودی کی ہدایت پر نام نہاد سیکولر انڈیا کا جنازہ نکال رہے ہیں۔سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے کے باوجودمسلم دور کے مغل بادشاہ بابر کی تعمیر کردہ یہ مسجد 6دسمبر 1992 کو شہید کر دی گئی۔مگر توہین عدالت کا کوئی کیس نہ چلا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ’’ سٹیٹس کو‘‘قائم رکھا جائے۔ مگر مسجد شہید کر کے اس کی جگہ مندر تعمیر ہونے لگا۔ ننگی مورتیاں رکھ کر ان کی پوجا ہونے لگی۔کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اعلان کیا کہ وہ مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والے مندر کو گرادیں گے۔ لیکن یہ وعدا پورا نہ کیا گیا۔مسجد کی شہادت کو 24 سال ہو گئے۔آزاد ہندوستان کا ایک بڑا سانحہ، مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش،جس کا ایک مقصد مسلمانوں کو جبری طور پر وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ 21سال بعد بھی تاریخی مسجد کو شہید کرنے والوں کو سزا نہیں ملی۔ایل کے ایڈوانی جیل جانے کے بجائے بھارت کے نائب وزیر اعظم بن گئے۔ مرلی منوہر جوشی کو مرکزی وزیر بنایا گیا۔کلیان سنگھ کی وزارت اعلیٰ قائم رہی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں عدالتوں اور کمیشنوں کی کیا اہمیت ہے۔ انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوتے ہیں۔ دنیا نے دیکھاکہ کس طرح مسجد کے تین گنبد زمین بوس کر دیئے گئے۔

بھارتی حکومت نے خفت مٹانے کے لئے لبراہن کمیشن بنایا۔یہ دعویٰ کیا گیا کہ کمیشن تحقیقا ت کر ے گا۔قصور واروں کوانصاف کے کٹہرے میں لائے گا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سابق وزیر اعظم اے بی واجپائی، ایل کے ایڈوانی ، کلیان سنگھ، مرلی منوہر جوشی سمیت 68افراد کو ملزم نامزد کیا ۔ابھی تک معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ کمیشن مسجد کی شہادت کے دس دن بعد تشکیل دیا گیا۔ جس کی مدت تین ماہ تھی۔ لیکن یک نفری کمیشن کو 50بار توسیع دی گئی۔ 17سال بعد2009کو اس نے رپورٹ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو دے دی۔ خفیہ ایجنسی آئی بی کے اس وقت کے جوائنٹ ڈائریکٹر ملوئے کرشنا دھر نے اپنی کتاب Open Secretsیا ’’کھلے راز‘‘ میں لکھا ہے کہ انہیں ہدایت ملی تھی کہ آر ایس ایس ، بی جے پی اور وی ایچ پی کے ایک اجلاس کی کوریج کا بندوبست کیا جائے۔اس اجلاس کے ٹیپ اس نے خود تیار کئے۔ اجلاس میں بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بنایا گیا۔ جن سنگھیوں کی یہ میٹنگ مسجد کی شہادت سے دس ماہ پہلے ہوئی تھی۔یہ کانگریس اور ہندو انتہا پسندوں کا ایک مشترکہ منصوبہ تھا۔ گزشتہ69سال میں پہلی بار بھارت میں ایک مسلمان آصف ابراہیم کو125سال سے قائم اہم خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو یا آئی بی کا چیف مقرر کیا ہے، جو ریاست مدھیہ پردیش کے انڈین پولیس سروس( آئی پی ایس) کیڈر سے تعلق رکھتے ہیں۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور بابری مسجد مومنٹ رابطہ کمیٹی کے اپیل پر ہندوستان میں مسلمان آج ایک بار پھر سرا پا احتجاج ہیں۔ اور بھارتی پارلیمنٹ کی توجہ اس جانب مبذول کر رہے ہیں جس نے ابھی تک جسٹس لبراہن رپورٹ پر بحث مناسب نہیں سمجھی۔ سپریم کورٹ نے ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں دیا۔ بھارتی حکومت نے ابھی تک شہادت کی ذمہ داری قبول کرنے، جشن منانے اور اس کا فخر سے کریڈٹ لینے والوں کیخلاف کارروائی نہیں کی۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں انصاف کے پہیے یا تو خراماں خراماں چل رہے ہیں یا بالکل منجمد ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں کو خاص طور پر بھارت کے سیکولر ازم، جمہوریت اور جوڈیشل سسٹم پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کشمیری نوجوان افضل گورو کو بھارتی عدلیہ نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے قتل کرا دیا۔یہ عدالتی قتل بھارت میں انصاف کا قتل تھا۔افضل گورو کا تختہ دار پر لٹکایا جانابھارتی انصاف کی جانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کے اس حوالے سے بعض مطالبات انتہائی توجہ طلب ہیں۔1۔ لبراہن کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس پر بحث کی جائے۔اس رپورٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عمل کرنا تو دور کی بات ہو گی۔2۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو نمٹایا جائے۔لیکن مقدمات سالہا سال تک زیر التوا رکھے جاتے ہیں۔جوڈیشری میں مسلمانوں کو جج کے طور پر شال کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
 
3۔ سپریم کورٹ، آلہ آباد ہائی کورٹ کے سپیشل بنچ کے احکام کو زیر غور لایا جائے۔ 4۔حکومت بابری مسجد کی شہادت کے بعد شہید کئے گئے مسلمانوں کے لواحقین، معذوروں کو معاوضے دے ۔ نذر آتش کی گئی سیکڑوں تعمیرات کے بھی معاوضے دیئے جائیں۔ 5۔ ایودھیا میں شہید مساجد اور قبرستانوں کی باؤنڈری دیوار یں تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ 6۔ مساجد کے تحفظ کے لئے حکومت مذہبی مقامات کی سکیورٹی سے متعلق1991کے قانون کو نافذکرے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں درجنوں مسجدوں کو شہید کیا گیا۔ جبکہ لا تعداد مدارس بند کر دیئے گئے۔ یہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کا تعصب ہے جس کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مزاکرات میں یہ باتیں شاید ہی کبھی زیر بحث لائی گئی ہوں۔ بھارت میں اسلامی ثقافتی ورثہ کو لا حق خطرات کبھی کم نہیں ہوئے ہیں ۔ کیوں کہ بھارتی سیاست اب مسلم اور پاکستان دشمنی سے بھری پڑی ہے۔ بی جے پی اور جن سنگھیوں کے عروج سے کانگریس اور نام نہاد سکیولر ازم کی دعویدار پارٹیاں اپنے نئے اہداف مقررکر چکی ہیں۔ اس وجہ سے بھارتی کانگریس پارٹی کے نئے ولی عہد راہول گاندھی بھارت میں مسلمانوں کے کردار کو مشکوک قرار دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو منظم ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ ان کی تنظیم سازی اور اتحاد کی کوششوں کو بھارتی ادارے سبوتاژ کرتے ہیں۔ بھارتی مسلمان ہر لحاظ سے امتیاز کا نشانہ بن رہے ہیں۔ آرمڈ فورسز میں ان کی شمولیت مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ بھارتی ٹی وی چینل سی این این، آئی بی این کے مطابق اس وقت سوا ارب سے زیادہ آبادی والے ملک کی فوج میں صورف تین فی صد مسلمان شامل ہیں۔ 19کروڑ مسلمان آبادی میں سے صرف 25ہزار مسلمانوں کو فوج میں بھرتی کیا گیا۔ اگر مقبوضہ جموں و کشمیر کے فوجی فورس جسے جیکلائی (JKLI)میں 50فی صد مسلم فوج کو شامل نہ کیا جائے تو یہ اعداد و شمار اور بھی کم ہیں۔ یہی حال بیورو کریسی کا بھی ہے۔ جس میں مسلمان برائے نام ہی شامل ہیں۔ یہ غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے۔ جو مسلمانوں کے خلاف نافذ العمل ہے۔ا متیاز کا یہ عالم بھی ہے پارٹیوں اور محفلوں کے بورڈ آویزان کر دیئے جاتے ہیں،’’ یہاں کتوں اور مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ بھارت میں جو لوگ غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہیں وہ یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بھارتی مسلمان ہندو جنونیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔پاکستان کراچی ایگریمنٹ کے تحت بھارتی مسلمانوں پر ریاستی جبر کے خلاف آواز بلندکرنے کا پابند ہے۔ یہ دفاع اور استحکام پاکستان کی نفی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو ہندو دہشت گردوں اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔اب جب کہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی عروج پر ہے اور پانچ ماہ مسلسل ہڑتالیں اور بھارت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ عوام آزادی پسندوں کے شیڈول پر عمل کرتے ہیں۔ بھارت جنگ بندی لائن پر گولہ باری کر رہا ہے۔ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور جنگ بندی لائن پر آزاد کشمیر کے عوام کو صرف مسلمان اور کشمیری ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ مسلمان بھارت کا ہو یا کہیں کا، بھارت کے سامنے وہ دہشت گرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے قتل کیا جا رہا ہے۔ بابری مسجد کے بعد یہ تمام مساجد کو شہید کر دینا چاہتے ہیں۔ بھارت کے مسلمان متحد نہ ہوئے تو وہ طوفان کی لپیٹ سے بچ نہ سکیں گے۔ مسلم دنیا اپنے مفادات سے دلچسپی رکھتی ہے۔ اسے مسلم کے قتل عام اور مظالم کی کوئی پروا نہیں۔ مظلوم اور محکوم مسلمان خود اپنے زور بازو سے ہی نا مساعد حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہوں تو زیادہ مناسب ہو گا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485431 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More