اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن،
وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ
وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
۷ آیات پر مشتمل چھوٹی سی سورۃ ’’الماعون‘‘ میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی
ادائیگی کی خاص تلقین
یتیم کے ساتھ بدسلوکی، محتاج کی مدد نہ کرنا، ریاکاری اور نماز و زکوٰۃ کی
ادائیگی میں کوتاہی مؤمن کی شان نہیں
سورۃ الماعون کا آسان ترجمہ: کیاتم نے اسے دیکھا جو دین اسلام یا قیامت کے
دن کی جزا وسزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور
مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پھر بڑی خرابی (اور ویل نامی حہنم
کی جگہ) ہے اُن حضرات کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، یعنی نماز کی
پابندی نہیں کرتے۔ جو دکھاوا کرتے ہیں۔ اور دوسروں کو زکوٰۃ یا معمولی چیز
دینے سے بھی انکار کرتے ہیں۔
اس سورۃ میں کفار ومنافقین کے بعض برے افعال اور اُن پر جہنم کی وعید مذکور
ہے۔ اگر یہ افعال قیامت کے دن جزا وسزا پر ایمان لانے والے مؤمن سے سرزد
ہوں تو وہ اگرچہ بڑے گناہ ہیں، لیکن اس سورۃ میں مذکور وعید اُس پر نہیں ہے
کیونکہ وہ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ قیامت کے دن اور اس کی
جزا وسزا پر ایمان لایا ہوا ہے۔ مگر اس میں اشارہ اس طرف ضرور ہے کہ یہ برے
افعال مؤمن کی شان سے بعید ہیں، یعنی ایک مؤمن کو یہ افعال کبھی نہیں کرنے
چاہئیں۔
جن برے افعال کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے، وہ حسب ذیل ہیں: یتیم کے ساتھ
بدسلوکی کرنا۔ قدرت کے باجود محتاج کی مدد نہ کرنا اور دوسروں کو اس کی
ترغیب نہ دینا۔ نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا۔ ریاکاری کرنا، اور
زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنا۔یہ سارے افعال بڑے گناہ ہونے کے ساتھ اپنی ذات
میں بھی مذموم ہیں۔ قیامت کے دن اور اس کی جزا وسزا کے انکار (یعنی کفر) کے
ساتھ یہ افعال سرزد ہوں تو ان کی سزا دائمی جہنم ہے۔ البتہ اﷲ اور اس کے
رسول پر ایمان لانے والا ان اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد ایک نہ ایک دن جہنم
سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی مؤمن نے موت سے قبل ان
افعال سے سچی توبہ کرلی تو پھر ان شاء اﷲ ان افعال کی وجہ سے جہنم میں نہیں
جائے گا۔ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانا یا اﷲ کی ذات اور صفات میں
کسی کو شریک ٹھہرانا ایسا جرم عظیم ہے کہ خالق کائنات کے فیصلہ کے مطابق
مرنے کے بعد ان گناہوں کی بخشش نہیں ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کفر یا شرک یا نفاق
جیسے بڑے بڑے گناہ بھی موت سے قبل ایمان لانے اور سچی توبہ کرنے سے معاف
ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص کفر یا شرک یا نفاق کی حالت میں مرجائے تو
اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ اپنی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ میں
ذکر کردیا کہ پھر اس کی معافی نہیں ہے، اسے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا۔
بعض ملحدین (جن کا کوئی مذہب نہ ہو) اس موضوع کے متعلق اسلام پر اعتراض
کرتے ہیں، حالانکہ اس دنیاوی زندگی کے بے شمار امور میں سمجھ میں نہ آنے کے
باوجود ہم سر تسلیم خم کردیتے ہیں، مثلاً غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا
شخص عموماً غربت میں ہی زندگی گزار کر دنیا سے چلا جاتاہے، تو پھر یہاں
اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا کہ غریب گھر میں پیدا ہونے والے معصوم بچے نے
کیا ظلم کیا کہ وہ پوری زندگی تکلیفوں میں گزارتا ہے، جبکہ مالدار گھرانے
میں پیدا ہونے والا بچہ عموماً عیش وآرام میں زندگی گزارتا ہے۔ اسی طرح
انسان دنیا میں کیوں آتا ہے اور دنیا سے نہ جانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود
ہر بشر کیوں موت کا مزہ چکھتا ہے؟بعض اوقات ایک صحت مند نوجوان جس کی خدمات
پوری قوم کو درکار ہیں، صرف ٹھوکر کھاکر ہی مر جاتا ہے، جبکہ بعض بیمار
بوڑھے لوگ دوسروں کے سہارے پر سالوں سال زندہ رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کے
ہزاروں سوال کا جواب ہماری عقلیں دینے سے قاصر ہیں۔ جب ہزاروں دنیاوی امور
میں سمجھ میں نہ آنے کے باوجود سارے انسان اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو پھر
ہم اﷲ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیوں نہ کریں؟
آخرت میں جزا وسزا: قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ
ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دنیا کے وجود سے لے کر کل قیامت تک آنے
والے تمام انس وجن کو قیامت کے میدان میں جمع کیا جائے گا، اور دنیاوی
زندگی میں اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے اﷲ تعالیٰ جنت یا جہنم کا فیصلہ
فرمائے گا۔ جنت میں اﷲ تعالیٰ نے ایسی ایسی آرائش وآرام کی چیزیں مہیا
کررکھی ہیں کہ ہماری عقل ان کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ جہنم کی بھڑکتی ہوئی
آگ دنیاوی آگ کی تپش سے ۷۰ گنا زیادہ ہے، جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ اﷲ
تعالیٰ جہنم سے ہماری حفاظت فرماکر ہمارے لئے جنت الفردوس کا فیصلہ فرمائے۔
دنیا میں اس وقت ۷ کروڑ انسان بستے ہیں جن کی اکثریت اس بات کا یقین ضرور
رکھتی ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے جس میں اس
دنیاوی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی، جو اخروی زندگی کے برحق ہونے
کی خود ایک دلیل ہے۔
یتیموں کا خیال سب سے زیادہ اسلام میں رکھا گیا ہے: یتیم وہ ہے جس کے بالغ
ہونے سے قبل اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو۔ نبی اکرم ﷺ بھی یتیم تھے، آپ
کے والد ماجد (عبداﷲ) اس وقت انتقال فرماگئے جب آپ ﷺ اپنی ماں (آمنہ) کے
پیٹ میں تھے، اور والدہ ماجدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب آپﷺ ۶ سال کے تھے۔
یتیموں کے لئے آپ ﷺکے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اس لئے آپ صحابۂ کرام کو
یتیموں کی کفالت کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ، آپ
نے قربت بیان کرنے کے لئے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ یعنی
یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرمﷺ کے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (بخاری)
حاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب وتعلیم میں مذہب اسلام کا کوئی ثانی
نہیں: شریعت اسلامیہ میں مساکین وغریبوں کو کھانا کھلانے اور ان کی دنیاوی
ضرورتوں کو پورا کرنے کی بار بار ترغیب وتعلیم دی گئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے
سوال کیاگیا کہ اسلام میں کون سا عمل زیادہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایالوگوں
کو کھانا کھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا خواہ اس کو پہچانو یا نہ پہچانو۔
(بخاری ومسلم) ا سی طرح فرمان رسول ﷺہے: جو شخص مؤمن کی کوئی دنیاوی مشکل
دور کرے گا، اﷲ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس پر سے ایک سختی دور کرے
گا۔ اور جو شخص کسی تنگ دست پر سہولت کرے گا، اﷲ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس
پر سہولت کرے گا۔۔۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، اﷲ
تعالیٰ بھی اس کی مدد میں رہتا ہے۔ (صحیح مسلم)
نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا: قرآن
وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر
چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب
پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ نماز میں کوتاہی کرنے والوں کی
سزا کے متعلق صرف تین آیات پیش ہیں: (۱) ان نمازیوں کے لئے خرابی (اور ویل
نامی حہنم کی جگہ) ہے جو نماز سے غافل ہیں۔(سورۃ الماعون۴ ، ۵) اس سے وہ
لوگ مراد ہیں جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں، یا پہلے پڑھتے رہے ہیں پھر سست
ہوگئے یا جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنالیتے
ہیں یہ سارے مفہوم اس میں آجاتے ہیں، اس لئے نماز کی مذکورہ ساری کوتاہیوں
سے بچنا چاہئے۔ (۲) پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انھوں نے نماز
ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، وہ غی میں ڈالے جائیں گے۔ (سورۃ
مریم آیت ۵۹) نمازنہ پڑھنے والوں کو جہنم کی انتہائی گہری اور شدید گرم
وادی غی میں ڈالا جائے گا، جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ (۳) تمہیں دوزخ میں
کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نہ نمازی تھے، نہ مسکینوں کو کھانا
کھلاتے تھے۔ (سورۃ المدثر ۴۲ و۴۴) اہل جنت، جنت کے بالاخانوں میں بیٹھے
جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کس وجـہ سے تمہیں جہنم میں ڈالا گیا؟ تو وہ
جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا
کھلاتے تھے۔ غور فرمائیں کہ جہنمی لوگوں نے جہنم میں ڈالے جانے کی سب سے
پہلی وجـہ نماز نہ پڑھنا بتایا کیونکہ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم اور
بنیادی رکن ہے جوہر مسلمان کے ذمہ ہے۔ ان تینوں آیات کی شرح کے حوالوں کے
لئے مشہور ومعروف تفاسیر کا مطالعہ کریں۔
ریاکاری اعمال کی بربادی کا سبب ہے:اعمال کی قبولیت کے لئے اہم اور بنیادی
شرط اخلاص ہے۔ بخاری کی پہلی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔۔۔۔
لہذا نماز کی ادائیگی سے خواہ فرض ہو یا نفل صرف اﷲ تعالیٰ کی رضامندی ہی
مطلوب ہونی چاہئے۔ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز نہ پڑھیں کیونکہ دوسروں کو
دکھانے کے لئے نماز پڑھنے کو ہمارے نبی نے فتنۂ دجال سے بھی بڑا فتنہ اور
شرک قرار دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح
دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اﷲﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں
تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا:
ضرور۔ یا رسول اﷲ! آپ ﷺ نے فرمایا: شرک خفی دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے
اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو اور نماز کو اس لئے لمبا کرے
کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ ۔ باب الریاء والسمعہ) اسی طرح
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ (مسند
احمد )
زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا: قرآن وسنت کی
روشنی میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جوشخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے
وہ کافر ہے، اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، جس
پر آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی اگر مرنے سے قبل اس نے سچی توبہ نہیں
کی۔ سورۂ التوبہ آیت نمبر ۳۴ ۔ ۳۵ میں اﷲ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے بڑی
سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے۔
اس سورت کے آخری لفظ ’’ماعون ‘‘ کے معنی معمولی چیز سے کیا گیا ہے۔ اسی لفظ
کے نام پر سورت کا نام ’’ماعون ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اصل میں ’’ماعون ‘‘ اُن
برتنے کی معمولی چیزوں کو کہتے ہیں جو عام طور سے ایک دوسرے سے مانگ
لیاکرتے ہیں، جیسے برتن وغیرہ۔ پھر ہر قسم کی معمولی چیز کو بھی ’’ماعون ‘‘
کہہ دیتے ہیں۔ بعض صحابۂ کرام نے اس کی تفسیر زکوٰۃ سے کی ہے، کیونکہ وہ
بھی انسان کی دولت کا معمولی (چالیسواں) حصہ ہوتا ہے۔
اس سورت میں ہمارے لئے سبق: اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ آخرت کی
جزا وسزا پر ایمان لانا۔ یتیموں کی کفالت کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔
مسکین اور محتاج لوگوں کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے میں سبقت کرنا۔ اگر
خود غریب لوگوں کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم ایسے کاموں میں شریک ہونا
جن کے ذریعہ غریب لوگوں کی مدد کی جارہی ہو۔ خشوع وخضوع کے ساتھ فرض نمازوں
کا اہتمام کرنا۔ فرض نماز کے ساتھ سنن ونوافل کی بھی پابندی کرنا۔ ہر نیک
عمل صرف اور صرف اﷲ کی رضاجوئی کے لئے کرنا۔ ریا اور شہرت اعمال کی بربادی
کا سبب ہیں۔ مال پر زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کا حساب لگاکر ہر سال زکوٰۃ کی
ادائیگی کرنا۔ اگر کوئی پڑوسی یا رشتہ دار روز مرہ استعمال میں آنے والی
چیزیں مانگے تو حتی الامکان اسے منع نہ کرنا۔ حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد
کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرنا۔ حقوق اﷲ میں ایمان کے بعد سب سے اہم
عبادت نماز اور زکوٰۃ ہے۔ |