آج برما مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے!

برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر 57 بے بس اور لاچار مسلم ممالک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے ان کے لئے زبان سے کوئی ہمدردی کا لفظ تک نکالا ہو، اور نہ ہی کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے ان کی کوئی بات نہیں کی۔ بکھری ہوئی امت کے حکمران، میڈیا کفر کے ہاتھوں اس قدر بے بس اور مجبور ہوچکے ہیں کہ ہرطرف خاموشی اور بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کا ایک حصہ ہیں، اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹو کی افواج امن عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پہنچ جاتیں، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، یورپی یونین فورا سے بیشتر پابندیاں عائد کر دیتی، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ وہ بے چارے مسلمان تھے۔ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان حکمران کلمہ طیبہ کی بنیاد پرکرہ ارض کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پرہورہے ظلم وستم اوربربریت کے خلاف نہ صرف آواز اٹھاتے تھے بلکہ عملی اقدام کرتے تھے اور دو ٹوک موقف یہ رکھتے تھے کہ گردن کٹے کسی کی تڑپتے ہیں ہم امیر۔سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے برما میں مظلوم اور نہتے مسلمانوں کا بدترین قتل عام جاری ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ برمامیں جوکچھ ہورہاہے ان دل دہلانے والے مناظرکودیکھانہیں جاتا۔سوشل میڈیا پر جو تصاویر وائرل ہو ئی ہے۔ان تصاویر کوبڑے سے بڑے دل والا بھی نہیں دیکھ سکتا-

وہ جانوروں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر طرف موت کے سائے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ برما کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اس دکھ، مصیبت کی گھڑی میں ترقی پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے لیکر مذہبی اور سیاسی رہنما تک اس انسانیت سوز واقع پر خاموش اور شرم ناک رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ برما میں ہزاروں عورتوں، بوڑھوں، بچوں کے قتل ِ عام سے گاؤں کے گاؤں لاشوں اور خون سے بھرے ہیں، ندی نالوں، سڑکوں، جنگلوں میں برما کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ اس درندگی میں مسلمانوں کے شہر، بستیاں اور گاؤں جلا کر خاکستر اور صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں۔ اس ظلم اور بربریت کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج تو دور کی بات ہے، مناسب الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی جا رہی۔ بریکنگ نیوز کے لئے ہر وقت بے چین آزاد میڈیا نے برما کے مسلمانوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظام پر دانستہ، مصلحتا خاموشی اور بے حسی کی انتہا کر دی ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے حکم سے ہمیں روشناس کرایا تھا۔امہ ایک انسانی جسد کی طرح ہے،کسی بھی حصے میں تکلیف ہو،سارے جسم کو اسکا احساس ہوتا ہے۔ یہی جذبہ تھا کہ جب راجہ داہر کے زمانے میں ایک مسلم خاتون نے وقت کے مسلمان حکمران کو مدد کے لئے پکارا تو اس وقت کے مسلمان حکمران حجاج بن یوسف نے باوجود متنازعہ فیہ امور میں ملوث ہونے کے اس خاتون کی آواز پر صاد کیا اور محمد بن قاسم شہید کو دیبل سے ٹکرانے کو بھیج دیا۔مگر صد حیف کہ اب مسلمانانِ عالم اگر ایک جانب مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہو رہا ہو۔ تو محض یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے سیاسی طور پر انکے اپنے ملک کا مفاد وابستہ ہے یا نہیں۔ میانمار میں مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ جس بے دردی سے انکی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ جس بے دردی اور سفاکی سے ایک ایسے مذہب کے ماننے والے لوگ بچوں کو زندہ جلا رہے ہیں۔ اس ظلم وستم پر نظر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی طرف اٹھائی جائے۔ تو وہ صم بکم عمی کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں۔لیکن ہمیں ان سے کیا گلہ وہ ہمیں اپنی مخصوص عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ لیکن ہمیں گلہ اپنوں سے ہے۔ کہ نیل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر کسی مسلمان حکمران کے منہ میں زبان نہیں اور انکے لبوں کو اظہارِ جرات نہیں یہ بہت بڑاالمیہ ہے کہ وہ اس بدترین نسل کشی کو رکوانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ برماکی عالمی شہرت یافتہ لیڈر مادام آنگ سان سونچی بھی شرمناک حد تک روہھنگا مسلمانوں کے بدھ مت کے تشدد پسند فرقے آکین کے ہاتھوں قتلِ عام پرعملی طورہلہ شیری دے رہے ہیں۔جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت جہاں بمشکل جان بچا کر آنے والے ان مہاجرین پر فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیتی ہے۔ گویا روھہنگا مسلمانوں کے یہ زمین تنگ کرنے میں اپنے پرائے سب شامل ہوئے ہیں۔میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں۔تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔سوال یہ ہے کہ کیا میانمار میں بسنے والوں کو ہم مسلمان نہیں سمجھتے اور کیا ہم نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے۔ یا دیوثیت میں ہم سب سے آگے ہو گئے ہیں۔ ہمارا وہ میڈیا جسے آزادمیڈیاکے نام دیاجاتاہے اور جو منہ زور گھوڑے کی طرح اب تو بے لگام بھی ہو چکا ہے۔اس منہ زور میڈیا نے بھی اس پر مجرمانہ چپ سادھ رکھی ہے۔ کون مسلمان ممالک کے حکمرانوں کویہ باورکرائے کہ میانمار کی حکومت پر دبا ڈالا جائے کہ وہ روہنگا مسلمانوں کی اس بدترین نسل کشی کو روکیں اور اقوام متحدہ کے ضمیر کی بند آنکھیں کھولی جائیں، جسے مسلمانوں کو اگر زندہ درگور بھی کر دیا جائے، تو بھی انہیں وہاں چین و سکون ہی نظر آتا ہے۔ مسلم ممالک میں قائم لبرل این جی اوز جو کہ مسلمانوں کے بغیرکے کسی بھی جھتے کے خلاف ہونے والی معمولی معمولی نا انصافیوں پر مظاہرے اور مذمتیں کرنے میں یدِ طولی رکھتی ہیں۔لیکن میانمارکی نسل کشی پر وہ چپ سادھ لئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانانِ عالم میں وہی جذبہ پھر عود کر آئے۔ کہ بقولِ شاعراخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں آج تمام اقوام غیر آپس کے اختلافات بھلا کر اسلام کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔ یہود ونصاری اور تمام غیر مسلم بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر جھپٹ رہے ہیں۔ غیر مسلم طاقتیں ایک طرف تمام مسلم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہی ہیں تو دوسری جانب انہیں وسائل کو امت مسلمہ کے چھوٹے اور معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل ِ عام کرنے سمیت امت مسلمہ کے درمیان مزید اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔ ہم ہیں کہ خود فریبی میں مبتلا ہوکر دنیا وآخرت سے بے فکر، جھوٹ، مکر و فریب اور دھوکہ دہی میں لگے ہیں۔ آج دنیا کی محبت اور چاہ نے ہمیں ایسے مواقع پر اپنے اسلاف کا کردار، شاندار ماضی اور آخرت سب کچھ بھلا دیا۔آج پوری امت مسلمہ میں کوئی ایک بھی صلاح الدین ایوبی جیسا نہیں، جو اﷲ سے ڈرنے والا، قانون، انصاف کا پابند اور صاحب کردار ہو جو مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار دوبارہ واپس دلا سکے اور جو پوری دنیا میں پھیلے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے، برما سمیت دنیا بھر میں ہزاروں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے قتل ِ عام کے خلاف آواز اٹھا سکے۔امت رو برما یہ عالمی غفلت نیا انسانی وطیرہ نہیں۔ انسانی خون کی ارزانی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کئے جاتے ہیں۔ کرہ ارض کے محافظ اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک خون کا دریا اپنی سرحدیں توڑ کر نہ بہہ نکلے، خون کی اس ہولی پر وہ سوچتے ہیں کہ انسانی خون خدا کی زمین کو لالہ زار کرتا ہے۔ہمارے مذہب کے محافظ طاقتور مسلمان ممالک جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ،،،،دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے۔

آج برما مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے۔برما لہو لہو ہے اور دنیا خاموش ہے، تشدد سے مخلوق اپاہج ہو رہے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.