یہ وقت کی صدا ہے۔۔خدارا سوچئے۔۔۔

تاریخ انسانی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی معاشروں میں عروج و خوشحالی اور تباہی وبربادی کا عمل ہمیشہ جاری و ساری رہا۔تاریخ بتاتی ہے کہ ان سیاسی و معاشرتی تبدیلیوں کی اصل وجوہات ریاستی قیادت کے کردار سے جڑی ہوتی ہیں، جب بھی کسی قوم نے عروج و خوشحالی پائی تو اس کے پیچھے ایک بہترین قیادت کا کردار رہا، اور جب اس قوم کے مٹنے اور برباد ہونے کے دن آتے ہیں تو وقت بھی قیادت ہی اس کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ دنیائے انقلابات کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ قوموں نے ایماندار قیادتوں کو مضبوط کیا اور انہیں اپنے نظاموں کا کرتا دھرتا بنایا، لیکن انقلابات کی تاریخ نے وہ مناظر بھی قلم بند کئے ہیں جب مظلوم اور استحصال کا شکار اقوام نے اپنی کرپٹ اور ناہل قیادت کو نیست ونابود کیا اور زمام کار ایماندار اور اہل لوگوں کے سپرد کی۔تاریخ میں یہ عمل بار بار دھرایا گیا، اور تاقیامت یہ اسی طرح دھرایا جائے گا۔آج ہم بھی تاریخ کے ایک ایسے ہی موڑ پہ کھڑے ہیں، نصف صدی سے ہم بحیثیت قوم ایک ایسے بحران سے دوچار ہیں، جو ہر آنے والے دن کے ساتھ ہمیں سیاسی، معاشی، تہذیبی، اخلاقی زوال اور تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔۔۔۔معاشرتی نتائج و حالات یہ بتاتے ہیں کہ ۔۔۔بیس کروڑ سے زیادہ انسانوں کے ملک پہ کنٹرول کرنے والا ایک فیصد طبقہ جس کے ہاتھ میں اس ملک کی قیادت ہے جو گذشتہ نصف صدی سے باری باری اپنے خاندانوں کے ذریعے اس ملک کے تمام اداروں کو کرپشن، اقرباء پروری، ٹیکس چوری، بے انصافی، لوٹ کھسوٹ، رشوت خوری کے ذریعے تباہ و برباد کر رہے ہیں۔قیادت کے نام پہ لٹیروں نے اس ملک کو گھیر رکھا ہے۔سیاست اور جمہوریت کے نام پہ ایک ایسا کھیل جاری ہے جس کے ذریعے سے بیس کروڑ انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔

تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جھوٹی اور بد دیانت قیادت کبھی بھی کسی ریاست کو قائم نہیں رکھ سکتی۔اس کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔۔۔لیکن یہ تباہی اسی صورت میں واقع ہوتی ہے جب قوم بھیڑ بکریوں کی طرح اس کرپٹ قیادت کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتی، جب لوگ اپنے ملک کو لٹتے ہوئے ، تباہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اس سے غفلت برتتے ہیں۔۔۔۔۔۔ایسی صورتحال میں کوئی بھی مثبت تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔۔۔ مثبت اجتماعی تبدیلی کا عمل کبھی بھی بے حس اور بے شعور قوم کے اندر رونما نہیں ہوتا۔اس کے لئے قومی غیرت، اور اپنے وطن اور قوم سے محبت کا جذبہ در کار ہوتا ہے، اس کے لئے اپنی ذاتی مفاد کی بجائے اجتماعی مفادات سے محبت درکار ہوتی ہے، اس کے لئے ایک جانور کی زندگی سے اوپر اٹھ کر ایک انسانی زندگی کی طرف آنے کی جدو جہد درکار ہوتی ہے۔۔۔۔

ہم اپنے ملک کے نظام سیاست، معیشت اور اداروں کی کار کردگی پہ ماتم ہی کر سکتے ہیں، بیرون ملک کاروبار اور رہائش رکھنے والی ہماری قیادت جن کی ذاتی اور خاندانی معیشت نہ تو قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی اور نہ ہی انہیں دیوالیہ ہونے کی فکر ہے اور نہ ہی ان کو تعلیم، صحت، رہائش، انصاف اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔لیکن انہوں نے اس بدقسمت قوم کا نصف صدی میں وہ حال کر دیا ہے اور ان کی آنے والی نسلوں کا جو حشر کر دیا ہے اس سے نکلنے کے لئے کئی صدیاں درکار ہیں۔ مثلاًتازہ ترین صورتحال کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچ گئے سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی میں پاکستان پہ بین الاقوامی قرضوں کا حجم بڑھ کر72 ارب 98کروڑ(74 کھرب روپے سے زائد ہو چکا ہے) سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی 2013میں یہ قرضے 61ارب 40کروڑ ڈالرز(64کھرب47ارب روپے) تھے جو جولائی 2014میں بڑھ کر65ارب40کروڑ ڈالر(68کھرب67ارب روپے)پہ پہنچ گئے۔مزید یہ کہ یہ قرضہ جولائی2015 میں بڑھ کر66ارب40کروڑ ڈالر ہو گیا۔ اس قرضے میں جولائی 2013سے جولائی2016تک 11ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا۔اب سوائے حکمران طبقات کے اس وقت اگر کوئی مشکل میں ہے تو اس ملک کے کروڑوں باشندے ہیں۔۔۔2008کے اوائل میں پاکستان کا ہر شہری37ہزار 172روپے کا مقروض تھا،ستمبر 2013تک ہر پاکستانی شہری قرضہ جات اور واجب الادا رقوم کی مد میں96ہزار422روپے کا مقروض تھا۔لیکن اب ہر پاکستانی تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔یہ اعداو شمار اور خبریں میڈیا میں گردش کرتی رہتی ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی کے کانوں پہ جوں نہیں رینگتی، کسی کو یہ احساس نہیں کہ کرپٹ حکمرانوں کے نرغے میں پھنسے ہوئے نصف صدی میں ہر آنے والا دن تباہی سے ہمکنار کر رہاہے۔۔۔۔ اس وقت پانچ کروڑ سے زیادہ افراد غربت سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں۔ نصف آبادی خوراک کے لئے عدم تحفظ کا شکار ہے۔۔۔۔۔ناکافی صحت اور سینی ٹیشن کی سہولیات کی بدولت لاکھوں انسان بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔۔۔۔تعلیمی صورتحال کے حوالے سے یونیسکو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں، دنیا بھر میں 120ممالک میں پاکستان کا نمبر113واں ہے۔دنیا بھر میں پاکستان ان ممالک میں دوسرے نمبر پہ ہے جہاں بچے سکول نہیں جا سکتے۔ مزید یہ کہ دو تہائی بچیاں سکول نہیں جا سکتیں۔49.5ملین بالغ افراد بالکل ان پڑھ ہیں اور ان میں دو تہائی خواتین ہیں۔ان پڑھ بالغان کی یہ تعداد 2015میں51 ملین تک پہنچ گئی۔۔۔۔ صحت کی سہولت کے حوالے سے ایک سروے کے مطابق پاکستان کا سب سے بہترین ہسپتال دنیا میں پانچ ہزار نو سو گیارویں نمبر پہ ہے۔۔۔۔۔۔

اس ملک کے عوام کے ساتھ ہونے والا یہ سلوک وہ طبقہ کر رہا ہے جو خود شاہانہ زندگی گذارتا ہے، ان کے برتعیش بنگلے، لگژری کاریں،ان کے پر تعیش اجتماعات، ان کے غیر ملکی دورے اور عیاشیاں، ان کے دفاتر اور سرکاری رہائشوں کے لاکھوں کے ماہانہ اخراجات، سب کچھ اس غریب اور مقروض قوم کی خون پسینے کی کمائی سے پورا ہوتا ہے۔

شاہی خاندانوں کی طرح کی زندگی گزارنے والے یہ حکمران طبقے چاہے ان کا تعلق ریاست کے کسی بھی ادارے سے ہو،ان کی شاہانہ مراعات، ان کے پروٹوکول پہ اٹھنے والے کروڑوں کے اخراجات سب اس محروم قوم کے خزانے سے پو رے ہوتے ہیں۔۔۔۔ان حکمرانوں کے نزدیک تعلیم سے زیادہ اسلحہ گولہ بارود کی اہمیت ہے۔۔۔۔تعلیم پہ مختص کیا گیا بجٹ سات گنا فوجی بجٹ سے کم ہوتا ہے۔۔۔۔اور جو بجٹ تعلیم، و صحت کے لئے مختص کیا جاتا ہے وہ بھی یہ سب وزیر، مشیر، بیورو کریٹ آپس میں بندر بانٹ کر کے اڑا دیتے ہیں، اس کا نتیجہ ہر آنے والے دنوں میں مزید اداروں کے زوال کی صورت میں نکلتا ہے۔۔۔۔لیکن ان کی بلا سے ادارے تباہ ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، کیونکہ انہوں نے علاج کے لئے بیرو ملک جانا ہے، تعلیم کے لئے بچوں کو بیرون ملک بھیجنا ہے، رہائش اور کاروبار بھی بیرون ملک رکھنا ہے۔۔۔۔ان کا جان ومال کے تحفظ کا مسئلہ نہیں کیونکہ ملک کے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی ہمہ وقت حفاظت میں مامور ہیں۔۔۔لہذا اداروں کا کردار صرف مخصوص طبقات کی خدمت، حفاظت اور ان کی خوشحالی تک محدود ہو چکا ہے۔۔۔۔اداروں کے کردار کو کمزور رکھنے کا فائدہ اس مخصوص حکمران طبقات کو ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں ہمیشہ ایسے اقدام کی مخالفت کی بلکہ ایسے کسی نظرئیے کو معاشرے میں پیدا ہی نہیں ہونے دیا جس کی اساس نظام کی تبدیلی یا اداروں کی فعالیت اور مبنی بر انصاف ہو۔۔۔۔۔یہ کرپٹ قیادت ہر آنے والے دن میں قوم کے جسم سے باقی رہنے والا خون بھی پورے تسلسل کے ساتھ چوسنے میں مصروف ہے۔۔۔تازہ ترین خبر کے مطابق پارلیمنٹ میں عوام کی طرف سے منتخب ہونے کا دعویٰ لے کر اسمبلی کے اجلاسات میں شریک نہ ہونے والے، عوام کی بہتری، تعلیم، صحت، انصاف، معیشت، سیکورٹی کے لئے کوئی مناسب قانون سازی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والے، جن کا کام صرف پرو ٹو کول اور مراعات سے مستفید ہونا ہے، کے لئے مزید تنخواہوں میں اضافہ منظور کیا گیا۔چئیر مین سینٹ کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار کر دی گئی۔ اور دیگر ممبران اسمبلی کی تنخواہیں دو لاکھ کر دی گئی۔اور اس طرح وزیر مملکت کی تنخواہ ایک لاکھ اسی ہزار کر دی گئی۔۔۔یہ تو مختصر سا جائزہ تھا، وگرنہ تفصیل میں جائیں تو قیادت کے نام پہ اور اداروں کو چلانے والے کرتا دھرتاوں کی ایسی ایسی مکروہ کردار کی کہانیاں موجود ہیں، جو اس ملک اور قوم کی جڑوں کو کھو کھلا کر رہے ہیں۔۔۔۔یہ وقت کی صدا ہے اس ملک کے دیانت دار اور مخلص افراد یکجا ہو کر ۔۔۔منظم ہو کر۔۔۔قومی قیادت کو تبدیل کریں۔۔۔یہ وقت تبدیلی کا تقاضہ کرتا ہے۔۔۔۔ایک ایسی تبدیلی جس سے ملک کے تمام سیاسی و ریاستی دارے کرپٹ اور نااہل افراد سے صاف کر دئیے جائیں۔۔۔۔یہ وقت تقاضہ کرتا ہے کہ عوام کے پڑھے لکھے اور باصلاحیت طبقات آنے والی نسلوں کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے آگے بڑھ کر ان استحصالی طبقات سے قوم کو نجات دلائیں۔۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ کرپٹ اور ناہل قیادت سے چھٹکارے کے بغیر ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136254 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More