پاکستان یپلز پارٹی، زیڈ اے بھٹو سے بلاول بھٹو زرداری تک
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
1966 میں ایوب خان کے دور اقتدار میں حکومت
سے نکال دیے جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں 30 نومبر 1967 کو
اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت کا پہلا کنوینشن
ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا۔ اس جماعت کو ترقی پسند
سیاست کے مختلف نظریات کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بیان کیا گیا۔ اس
جماعت کے تشکیلی کاغذات میں آزاد/غیر جانبدار خارجہ پالیسی (سرد جنگ کے
تناظر میں)، پارلیمانی جمہوریت متعارف کروانے، سوشلسٹ اقتصادی اصلاحات، ایک
روشن خیال اور ترقی پسند سماج، اور ایوب کے ’چند خاندانوں پر محیط سرمایہ
دارنہ نظام’ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پی پی پی ایوب حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر برپا کی جانے والی احتجاجی مہم
میں آگے آگے تھی۔ مظاہروں کی شروعات بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے کی اور
پھر جلد ہی اس میں مزدور، تجارتی اور کسان تنظیمیں، اور دیگر سیاسی جماعتیں
بھی شریک ہو گئیں۔ ایوب خان 1969 کے اوائل میں استعفیٰ دینے پر مجبور ہو
گئے۔
1970 کے انتخابات کے لیے جماعت کا منشور ایک مفصل دستاویز تھا جسے بھٹو،
ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور مایہ ناز ٹریڈ یونینسٹ ایس راشد نے مشترکہ
طور پر تحریر کیا تھا۔ منشور میں ایک فلاحی ریاست اور ایک روشن خیال اور
ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے بڑے پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور زمینی
اصلاحات کا وعدہ کیا گیا۔ منشور میں اسلام کو پارٹی کا مذہب، سوشلزم اس کی
معیشت اور جمہوریت کو اس کی سیاست قرار دیا گیا تھا۔
1970 کے انتخابات میں پی پی پی نے مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں (پنجاب
اور سندھ) میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی
بلوچستان اور کے پی میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کامیاب رہی۔
بنگالی قوم پرست جماعت عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں انتخابات میں بھاری
اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ انتخابات میں زیادہ تر مذہبی جماعتوں کو
بدترین شکست ہوئی۔
پاکستان نے خانہ جنگی میں اپنا مشرقی بازو گنوا دیا اور برہم فوجی افسران
کے ایک گروپ نے جنرل یحییٰ سے جبری استعفیٰ لے لیا۔ پی پی پی نے 1970 کے
انتخابات میں مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، اس لیے
افسران نے نئی حکومت بنانے کے لیے بھٹو کو دعوت دی۔
ریاست اور حکومت کے سربراہ کے طور پر بھٹو نےاپنا قوم سےخطاب انگلش میں کیا
اور ایک جمہوری، ترقی پسند اور فخرمند ’نئے پاکستان’ کی تعمیر کا وعدہ کیا۔
بھٹو حکومت نے بگٹی کو بلوچستان کا نیا گورنر بنا دیا۔
1973 کے آئین کی منظوری کے بعد آئین کے نافذ العمل ہونے پر بھٹو صدر سے
آئینی وزیر اعظم بن گئے ۔
معراج محمد خان نے 1973 میں بھٹو سے راہیں جدا کر لیں اور وزارت سے استعفیٰ
دے دیا۔ بھٹو نے جلد ہی انہیں پی پی پی سے خارج کر دیا۔ اس کے بعد سے بھٹو
نے پی پی ہی سے بائیں بازو کے کٹر نظریہ پرستوں کا اخراج شروع کر دیا۔
1974 میں پنجاب میں ہونے والے احمدی مخالف فسادات کے دوران مذہبی جماعتیں
احمدی برادری کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ بھٹو
مان گئے اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں احمدی مخالف بل پیش
کرنے کی اجازت دی۔ بل میں ایک آئینی ترمیم متعارف کروائی گئی جس میں
احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
لاہور میں 1974 منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں 35 سے زائد
مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اسی کانفرنس کے دوران بھٹو نے پہلی بار
مسلم ممالک کو ایک اقتصادی بلاک میں تبدیل کرنے کے خیال کا اظہار کیا۔
1976 میں بھٹو نے جنرل ضیاء کو ملک کا آرمی چیف منتخب کیا۔
بھٹو دائیں بازو کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی این اے نے مارچ 1977 میں
بھٹو حکومت کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کیا۔ اس نے 1977 کے انتخابات کے
نتائج کو مسترد کر دیا اور دوبارہ انتخابات کروانے اور شرعی قوانین کے نفاذ
کا مطالبہ کیا۔
بھٹو نے اس گروپ کے زیادہ تر مطالبات مان لیے۔ پی پی پی پہلے ہی اپنے
سوشلسٹ مؤقف اور قومیانے کی پالیسی واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو شراب پر
مسلمانوں کے لیے پابندی عائد کرنے پر راضی ہوئے۔ اتوار کے بجائے جمعے کو
ہفتہ وار چھٹی کا دن مقرر کر دیا گیا۔
جولائی 1977 میں آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا،
ضیاء آمریت نے بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے اور ٹرائل کے ذریعے پھانسی دے دی۔
ان کے جسدِ خاکی کو رات کے آخری پہر خفیہ پرواز کے ذریعے ان کے آبائی شہر
لاڑکانہ لایا گیا اور خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ تصویر میں دیکھا
جاسکتا ہے کہ مٹھی بھر افراد ان کی نماز جنازہ ادا کر رہے ہیں۔ بھٹو کی
بیگم اور ان کے بچوں کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی
تھی۔بھٹو کی سزائے موت کے بعد بینظیر کو جیل میں اور پھر بعد میں گھر پر
نظر بند رکھا گیا۔
ضیاء مخالف 9 جماعتی اتحاد، تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) ایم آر ڈی کو
1981 میں تشکیل دیا گیا۔
1980 کی دہائی کے اوائل تک پی پی پی نے اپنا رخ ایک بار پھر کٹر بائیں بازو
کے پلیٹ فارم کی طرف کر لیا۔ ایسا تب ہوا جب جماعت میں دوسری اور تیسری سطح
کی قیادت ابھری جبکہ اس کی اعلیٰ قیادت یا تو جیل میں یا ملک بدر تھی۔
فرانس جلا وطن کیے جانے سے پہلے 1985 تک بینظیر کو جیل میں ڈالنے اور
نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔
شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو نے 1980 میں ضیاء کو ہٹانے کے لیے ایک گوریلا
تنظیم الذوالفقار تشکیل دی۔ بینظیر نے اس اقدام کی مخالفت کی جس کے باعث
مرتضیٰ اور ان کی بہن کے درمیان دراڑ پیدا ہو گئی۔
شاہنواز کو 1985 میں زہر دے دیا گیا۔ بینظیر نے یہ شک ظاہر کیا کہ ان کے
بھائی کی افغان بیوی نے ضیاء کے سکیورٹی اداروں کی ایماء پر انہیں زہر دیا۔
بینظیر 1986 میں پاکستان لوٹ آئیں۔ یہاں وہ کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کر
رہی ہیں جسے پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔ بینظیر کو ایک بار پھر گھر پر نظر
بند کر دیا گیا، اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں ضیاء کی موت واقع ہوئی اور
اسی سال انتخابات ہوئے۔ پی پی پی نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی
اور نئی حکومت تشکیل دی۔
اگست 1990 میں صدر غلام اسحاق نے کرپشن اور کراچی میں بگڑتی ہوئی امن و
امان کی صورتحال کو سنبھالنے میں نااہلی کے الزامات لگاتے ہوئے ان کی حکومت
کو برطرف کر دیا۔
1993 میں غلام اسحاق خان نے شریف حکومت کو بھی برطرف کیا۔ اس کے بعد غلام
اسحاق خان کو (فوج کی جانب سے) استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔
1993 کے انتخابات میں پی پی پی نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
اپنے دوسرے دورِ حکومت کے دوران بینظیر نے صاف طور پر پی پی پی کا رخ
اعتدال پسندی کی جانب موڑا اور نجکاری کو فروغ دیا مگر پارٹی کے عوامیت
پسندی طرزِ عمل کو برقرار رکھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں اکثر آصف زرداری پر الزام عائد کرتی تھیں کہ انہوں
نے نفع بخش سودوں کے لیے اپنی بیوی کی حکومت کو استعمال کیا، مگر عدالت میں
کوئی ایک بھی دعویٰ ثابت نہیں ہوا۔
نواز شریف اور بینظیر لندن میں موجود ہیں۔ 1999 میں فوجی بغاوت میں نواز
شریف کی دوسری حکومت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ جنرل مشرف نے انہیں ملک بدر کر
دیا تھا۔ بینظیر پہلے ہی جلا وطن تھیں۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں پرانے
دشمنوں نے ایک معاہدے پر دستخط کرنے لیے لندن میں ملاقات کی جس میں انہوں
نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف نہ اسٹیبلشمنٹ کو
استعمال کریں گے اور نہ ہی استعمال ہوں گے (جیسا کہ 1990 کی دہائی میں ہوا
تھا)۔
دونوں نے مشرف حکومت کے خلاف مشترکہ محاذ کھڑا کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ 2002
کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو بدترین شکست ہوئی اور پی پی پی
دوسرے نمبر پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ مشرف نے دونوں رہنماؤں
کو پاکستان میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
2007 میں بینظیر بھٹو پاکستان لوٹ آئیں اور کراچی میں ہزاروں لوگوں نے ان
کا استقبال کیا۔ دہشتگردی اور انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث
مشرف حکومت کمزور ہو چکی تھی اس لیے نواز شریف بھی وطن واپس لوٹ آئے۔
2007 میں بینظیر اور نواز اسلام آباد میں موجود تھے، دونوں اتحادی بن چکے
تھے۔ جب مشرف نے 2008 میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا تب چند جماعتوں،
بشمول پاکستان مسلم لیگ ن نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، مگر بینظیر نے نواز
شریف کو اس بات پر آمادہ کر دیا کہ یہی تو مشرف حکومت ان سے کروانا چاہتی
ہے، جس کے بعد نواز نے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے انتخابات میں حصہ
لینے کا فیصلہ کر لیا۔
بینظیر نے راولپنڈی میں ایک بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے
اُس وقت سے اپنی جماعت کو بائیں بازو کی لبرل تنظیم کے طور پر پیش کرنا
شروع کر دیا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا اور پھر وہ شہید کر
دی گئیں۔ بینظیر کی گاڑی پر حملہ کیا گیا۔ قاتل نے پہلے ان پر گولیاں
چلائیں جس کے بعد خودکش بمبار نے دھماکہ کر دیا۔ بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007
کو اپنے درجنوں حامیوں کے ساتھ شہید کر دی گئیں گئیں۔
بینظیر کے قتل کے بعد پورے پاکستان میں فسادات برپا ہوگئے اور یہ کشیدہ
صورتحال تین سے زائد دنوں تک جاری رہی۔
2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کر کے پہلے جبکہ مسلم لیگ ن
تھوڑے سے فرق کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ پی پی پی نے نئی حکومت تشکیل دی۔
پی پی پی کے نئے سربراہ آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم
نامزد کیا۔
آصف زرداری ملک کے صدر بنے۔ پی پی پی کے سامنے انتہاپسندی اور دہشتگردی کے
بڑھتے ہوئے واقعات، سیاسی سازشیں، عدالتوں کے ساتھ کشیدہ معاملات اور پارٹی
کی اپنی نااہلی جیسے مشکل چیلنجز موجود تھے۔ معاشی بحران پیدا ہوا اور
جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
ایک ’نئی پی پی پی’؟
زرداری اپنے بیٹے بلاول کے ہمراہ۔ 2013 کے انتخابات میں پی پی پی کی بدترین
شکست کے بعد باپ اور بیٹے میں دراڑ پیدا ہوئی۔ بلاول پارٹی میں بڑے پیمانے
پر تبدیلیاں لانا چاہتے تھے۔ آخر کار زرداری کسی حد تک پیچھے ہٹ گئے۔
بلاول جماعت میں چند تبدیلیاں لائے ہیں۔ انہوں نے ایک ’نئی پی پی پی‘ کا
وعدہ کیا ہے جو پی پی پی کی روایتی عوامیت پسندی کی روش اپناتے ہوئے لبرل
اور جدید جمہوری اقدار قائم رکھے گی- |
|