مدارس اور پاکستان کے لیے خطرات

کچھ دنوں سے پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے خطرناک اور نظریہٗ پاکستان دشمن عزائم کے حوالے سے میڈیا میں ردّ وقدح اور شدید تنقید جاری ہے،سیف اﷲ خالد،انصار عباسی اور خالد محشر نے اس پر کماحقہ گفتگو کی ہے،اس این جی او کے ساتھ کچھ دینی حضرات نے ’’میثاقِ انسانیت‘‘ پر بھی دستخط کئے ہیں،نیز ان ہی حضرات نے ریڈکراس کے ساتھ تمام دینی مدارس کے بلڈ ٹیسٹ کے بھی معاہدے کئے ہیں،فنڈنگ اور نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کے بھی کھسر پھسر ہوئی ہے،ستم ظریفی یہ کہ مذکورہ این جی او کی سفار شات نہ صرف اسلام دشمنی ،ملک وملت دشمنی پر مبنی ہیں بلکہ دشمن پرستی اور دشمن نوازی بھی اس سے عیاں ہیں،پی ڈی ایٖف کی صورت میں ان کا کتابچہ میرے پاس موجود ہے، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ یا اﷲ اس حد تک بھی کوئی این جی او اس ملک میں متحرک رہ سکتی ہے،پھرتعجب بالائے تعجب اس پر بھی کہ مذہبی طبقے کے کچھ اساطین ان کے ساتھ دانستہ یانادانستہ اشتراک عمل کے عہد وپیمان کر چکے ہیں ،ان کے کتابچوں پر تقریظیں لکھی جارہی ہیں، ان کے پروگرام اپنے اداروں میں منعقد کرائے جا رہے ہیں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں اندرون وبیرون ملک ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں،موضوع کی نزاکت وحساسیت کے پیشِ نظر شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان صاحب نے پیرانہ سالی اور کثرتِ اشغال کے باوجود اس پر بذاتِ خود قلم اٹھایا اور بہت تفصیل سے ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی رپورٹ۲۰۱۶ء کا ایک جائزہ‘‘ کے عنوان سے مندرجہ ذیل تحریر تیار کی،جو ہمیں بھی ارسال کی گئی،افادہء عام کے لئے ہم اسے یہاں اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں:

’’ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے بعد امریکا عالم اسلام پر ایک بپھرے ہوئے ریچھ کی طرح حملہ آور ہوا۔ اس نے یکے بعد دیگر ے مسلم خطوں میں بالواسطہ اوربلاواسطہ حملوں کا آغاز کیا۔ افغانستان، عراق، لیبیا اورشام وغیرہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ یہ عسکری حملے تھے اوران کی وجہ سے عالم اسلام کا بہت بڑا خطہ متاثر ہوا۔ ایک طرف تو یہ ہوا؛دوسری طرف امریکی پالیسی سازوں نے پاکستان جیسے ملکوں کے لیے بھی منصوبہ تیار کیا۔ اس پلان کا مرکزی نکتہ مسلم دانش وروں، مذہبی رہنماؤں اورمسلم معاشروں کے دل و دماغ کی تبدیلی کا کام تھا۔ اس نے براہ راست لیکن ذرا محتاط اَنداز میں مسلمانوں کے عقائد و نظریات میں نقب لگانے کے لیے ’’انٹرفیتھ ڈائیلاگ‘‘ (مکالمہ بین المذاہب )کا آغاز کیا۔ ’’ہیومن رائٹس‘‘ (انسانی حقوق )کو میٹھی گولی میں سموکر پیش کیا۔ عدم تشدد، برداشت، رَواداری، آزادی، مساوات اور ترقی جیسے بظاہربے ضررنظریات کو باقاعدہ ایک’’ نصاب‘‘ کے طور پر متعارف کرایا۔پاکستانی جامعات میں مخصوص موضوعات پر پی ایچ ڈی مقالات لکھوائے گئے۔ پاکستان سے مرحلہ وار دانش وروں، اسکالروں، مذہبی رہنماؤں کو امریکا ،جرمنی اور ناروے بلاکر کانفرنسیں منعقد کی گئیں، ان کانفرنسوں کا مقصد غیر محسوس طریقے سے اسلامی نظریات والے اذہان،مزاج اورسوچ کی تبدیلی تھی؛ نیزاس ذریعے سے اپنے مطلب کے افراد کی تلاش بھی تھی جو ان کے عزائم کی تکمیل میں معاون ثابت ہوسکیں۔
اس کے بعد اگلے مرحلے میں بیرونی امدادسے قائم ہونے والی این جی اوز پاکستان وارد ہوئیں۔ یہاں انہوں نے مقامی ایجنٹوں / افراد کے ذریعے اسکولوں اور دینی مدارس کے ماحول، نصاب اورنظام تعلیم پر کام شروع کیا۔ اپنے ایجنٹ افراد کے ذریعے ایسی ورک شاپس منعقد کی گئیں جہاں اسلامی عقائد و نظریات پر شکوک وشبہات اوردینی مسلمات پر سوالات اٹھائے گئے ،پاکستان کے آئین میں موجود اسلامی شقوں کو ایک تسلسل سے ہدف ِ تنقید بنایاگیا،یوں پورے اسلامی عقائدواقدار پرشک وشبہے کی گرد بٹھا نے کا بھر پور اہتمام کیا گیا۔
گزشتہ پندرہ برس کے دوران این جی اوز کی یہ محنت کس مرحلے تک پہنچ چکی ہے، اس کا اندازہ امریکا کے ’’کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ کے تعاون سے’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن اسلام آباد‘‘کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ برائے سال ۲۰۱۶ء سے ہوتا ہے ،جس کا عنوان ہے :
TEACHING INTOLERANCE IN PAKISTAN
’’پاکستان میں عدم برداشت کی تدریس‘‘
’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ کی جاری کردہ رپورٹ www.uscirf.gov پر انگریزی متن اورغیرمعیاری اردو ترجمے کے ساتھ دستیاب ہے۔ پوری رپورٹ چشم کشا ہے اور اس کے مندرجات کا جائزہ لینے کے لیے الگ سے مضمون کی ضرورت ہے۔اس رپورٹ میں سرکاری نصاب تعلیم میں پائے جانے والے عدم برداشت پر مبنی اسباق کا صوبے وار جائزہ لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی سفارشات اور تجاویزمرتب کرکے پیش کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کا دیباچہ پڑھے جانے کے لائق ہے۔ دیباچے کے مطابق:
۱…… ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ (PEF) پاکستان میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔
۲…… اس کے مقاصد میں :(الف) ’’امن‘‘ اور’’رواداری‘‘ کوفروغ دینے کے لیے سول سوسائٹی کی صلاحیت کی تعمیر، مذہبی رہنماؤں کو ’’بااختیار‘‘ بنانا ۔(ب) پُر تشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا۔ (ج) مذہب کے نامناسب استعمال سے حاصل ہونے والے عدم برداشت اورتشدد کے روک تھام وغیرہ شامل ہیں۔
’’پی ای ایف ‘‘کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ فاؤنڈیشن نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اب تک گیارہ ہزار (11,000) مذہبی رہنماؤں کو اپنے پروگرام میں شامل کیا اورانہیں تربیت دی ہے، ان رہنماؤں میں مدارس کے اساتذہ، علماء، مساجد کے ائمہ اورایسے مذہبی افراد شامل ہیں جو معاشرے پر کسی بھی انداز میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’پی ای ایف ‘‘کی ورک شاپ کے فارغ التحصیل افراد نے اپنے علاقوں میں ’’انتہا پسند روایات‘‘ کو پھیلنے سے روکنے، ’’امن‘‘ اور ’’رَواداری‘‘ کی تعمیر کے مختلف پروگرام تیار کرنے، ’’تعلیمی‘‘ اقدامات بڑھانے کی سہل کاری میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
’’پی ای ایف ‘‘رپورٹ کے مطابق مذہبی رہنماؤں کے بے مثال تعاون کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے اسٹریٹجک اورجدید پروگراموں کی پاکستانی معاشرے کی ہر سطح پر پذیرائی ہوئی۔ پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ان فارغ التحصیل مذہبی رہنماؤں کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے، پاکستان کے مدارس اپنے نصاب کو بڑھانے، اپنے طالب علموں کو تعمیر امن کی تدریس دینے، تنقیدی سوچ اور رواداری کی تعلیم دینے اور منظم طریقے سے اپنے اداروں اور تدریسی طریقوں کو ’’جدید‘‘ کرنے کے راستے پر گامزن ہیں۔
’’پی ای ایف ‘‘کی رپورٹ نہایت فخر سے بتاتی ہے کہ ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ کا پروگرام سب سے زیادہ قدامت پسند اورمشکل ترین رسائی والے دینی مدارس میں معیار، پہنچ، اثر اورپائیداری میں نئے معیار قائم کررہا ہے۔
ہمیں اس رپورٹ کے ان مندرجات سے انکار کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ گزشتہ پندرہ برس کے دوران ایسے مذہبی افراد اور ادارے(بلاتفریق مسلک) ہمارے مشاہدے میں رہے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اوراپنے اداروں کو مذکورہ سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ پرانی بات نہیں تھوڑا عرصہ قبل جنوبی پنجاب کے ایک دینی ادارے میں جرمنی کی ایک (بظاہر) غیر سرکاری تنظیم کے اشتراک سے ورک شاپ منعقد کی گئی؛ جس میں مدرسہ کے ذہین طلبہ کو شامل کیا گیا اوران کے سامنے جس قسم کے مباحث رکھے گئے ان کا خلاصہ مغربی نظریات کی پذیرائی ،پاکستان کے آئین میں شامل قادیانیوں/ اقلیتوں سے متعلق قوانین کے خاتمے؛اوردینی مدارس میں جدیدیت کے نفوذ کے لیے ذہن سازی کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر سرکاری تنظیمیں کس حد تک ہمارے اداروں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھاچکی ہیں اورکس تیز رفتاری کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے گامزن ہیں۔
یہ رپورٹ جس کا عنوان ’’پاکستان میں عدم برداشت کی تدریس‘‘ ہے، بجائے خود عدم برداشت، دینی مسلمات اوراسلام سے شدید نفرت اورمنفی خیالات سے عبارت ہے۔’’پی ای ایف‘‘ کی رپورٹ نظریہ پاکستان، مسلمانوں کے جداگانہ تشخص، ہندو، سکھ، عیسائی، قادیانی اوریہودیوں کے الگ قوم ہونے کو منفی اوردقیانوسی تصورات قرار دیتی ہے۔ یہ صرف ایک مقام پر نہیں بلکہ رپورٹ کے مختلف مقامات پرمتعدد بار اپنے تخیلات کے علی الرغم نظریات کو منفی / دَقیانوسی قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ کے تیار کرنے والے افراد کواعتراض ہے کہ سرکاری نصاب تعلیم میں:
۱) نظریۂ پاکستان کیوں پڑھایا جاتا ہے؟(ص:۶،۲۸)
۲) نصاب میں اسلام کو پاکستان کی کلیدی خصوصیت اور پاکستانی شناخت کے طور پرپیش کیاجاتا ہے۔(ص:۷)
۳) پبلک اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتب میں صرف اسلام کو ہی واحد، جائز اورمنطقی مذہب کیوں قرار دیا گیا ہے؟(ص:۵)
۴) اسکول کے بچوں کو یہ کیوں پڑھایا جاتا ہے کہ ’’اسلامی مذہب، ثقافت اور سماجی نظام غیر مسلموں سے مختلف ہیں۔‘‘(ص:۱)
۵)اس بات پر شدید قلق کا اظہار کیا گیاہے کہ غازی علم دین شہیدکا تذکرہ نصابی کتب میں کیوں موجود ہے؟(ص:۳۰)
۶) رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کا تذکرہ طالب علموں کو تشدد پر ابھارتا ہے۔(دیکھیے عنوان’’جنگ اور تشددکی ستائش‘‘ص:۷)
۷) یہ رپورٹ اس بات پر بھی اپنی خفگی کا اظہار کرتی ہے کہ نصابی کتابوں میں عیسائیوں، قادیانیوں اور ہندؤوں کے متعلق تعصب کا اظہار کیا گیاہے۔(ص:۵)
۸) ’’پی ای ایف‘‘ کی رپورٹ میں اس بات پر بھی شدید اعتراض کیا گیا ہے کہ انگریز کے برصغیر پر تسلط، عیسائی پادریوں اور مشنریوں کی سرگرمیوں کو نصابی کتب میں منفی طور پر کیوں پیش کیا گیا ہے۔(ص:۸،۳۲)
۹)رپورٹ میں جگہ جگہ بھارت کی نہ صرف بے جاحمایت کی گئی ہے بلکہ بھارت کے متعلق پاکستان کے دیرینہ موقف کو تعصب اور جہالت پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔(دیکھیے ص:۵،۶،۷،۹،۲۷)
۱۰)’’نصاب کی تیاری کے لیے تجاویز‘‘کے عنوان سے ’’پی ای ایف ‘‘نے جو ہدایات بعنوان ’’تجاویز‘‘ (ص:۱۰)دی ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
٭……تمام پاکستانیوں کو فراہم کی گئی مذہبی آزادی کی آئینی ضمانتیں درسی کتابوں میں ظاہر کرنی چاہییں۔
٭……طالب علموں کو ایسا مواد بالکل نہیں پڑھانا چاہیے جو کسی ایک مذہب کو دوسرے مذہب پر برتر ثابت کرے۔
(یعنی اسلام کو عیسائیت، یہودیت، ہندومت اور قادیانیت پر فوقیت نہیں دی جانی چاہیے)
٭……اسلام کا بطور واحدصحیح ایمان ہونے کو درسی کتابوں سے ختم کیا جانا چاہیے۔
(یعنی خاکم بدہن اسلام واحد سچائی نہیں بلکہ دیگر مذاہب بھی حق ہیں،اس کا واضح مطلب ایمان سے محرومی ہے)
٭……’’منفی تلقین ‘‘ختم ہونی چاہیے۔(نہی عن المنکر کا خاتمہ)
٭……پاکستان میں پرامن بقائے باہمی اور مذہبی تنوع کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔(وحدت ادیان/تقارب ادیان کا پرچار)
٭……درسی کتب میں اقلیتی گروپوں کے نامور افراد کی مثالیں بھی شامل کی جانی چاہییں۔(ص:۱۰)
غرض پوری رپورٹ اس قسم کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔اب ہم چند معروضات اپنے الفاظ میں بیان کریں گے:
(الف): پی ای ایف رپورٹ میں نوٹ کرنے کی بات اس کا بے باک اور دو ٹوک لہجہ ہے۔ اس رپورٹ میں بہت سی باتیں کُھلے طورپر کہہ دی گئی ہیں جو قبل ازیں الفاظ کے پیچ و خم میں چھپاکر کہی جاتی تھیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا ایجنڈا یہ ہے کہ اسلام اورمسلمانوں کو دوسرے مذاہب اوران کے پیر کاروں میں کچھ اس طرح گڈ مڈ اور تحلیل کردیا جائے کہ حق اورباطل کا امتیاز ہی ختم ہوجائے۔
(ب): ’’برداشت‘‘ اور ’’مساوات‘‘ کا تقاضا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اسلام کی حقانیت ،برتری ،واحد سچائی کے عقیدے سے دست بردار ہوجائے۔ اس بات کو تسلیم کرلے کہ جس طرح اسلام ایک مذہب ہے اسی طرح عیسائیت، یہودیت، قادیانیت، ہندو مت بھی مذاہب ہیں اورمذہب ہونے میں سب برابر ہیں۔ چنانچہ اہل اسلام اپنے’’ حق‘‘ پر قائم ہونے اور دیگر مذاہب کو’’ باطل‘‘ سمجھنا چھوڑ دیں…… بالفاظ دیگر اپنے علاوہ دوسرے اہل مذہب کو ’’کافر‘‘ نہ کہیں۔ دیگر مذاہب کی تعلیم، تبلیغ، تشہیر اور ترویج کا حق ویسا ہی خیال کریں جیسا اپنے تئیں باور کرتے ہیں۔
(ج): اس رپورٹ کے تیار کنندگان کے خیال میں دینی مسلّمات کے حوالے سے عمومی طور پر (ٹی وی چینلز، این جی اوز کی ورک شاپس اورانٹر فیتھ ڈائیلاگ کے ذریعے) اتنی گرد اڑائی جاچکی ہے کہ اب ان کے لیے یہ مطالبہ کرنا بہت آسان لگ رہا ہے کہ اسلام کے واحد ’’الحق‘‘ اور’’الدین‘‘ ہونے کے تصور کو نصابی کتابوں سے نکال دیا جائے، مگر اس کے علی الرغم انہیں ہیومن رائٹس اور مذہبی آزادی کے حق کی آفاقیت پر بھی اصرار ہے۔
(د): حیرت، اَفسوس اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ اس قدر شرمناک عزائم رکھنے والی این جی او نہایت واشگاف الفاظ میں مذہبی شخصیات اور اداروں کے ’’بے مثال تعاون ‘‘کااظہار کرنا بھی ضروری خیال کرتی ہے اور اسے اس بات پر فخر ہے کہ’’ قد امت پسند ‘‘اور’’مشکل ترین رَسائی‘‘ والے دینی مدارس میں بھی ان کا پیغام نہ صرف پہنچ رہا ہے بلکہ اثر پذیر بھی ہے۔ اس بات پر یقین کرلینے کی وجہ گزشتہ پندرہ برس کا مشاہدہ ہے۔ نامور مذہبی شخصیات کے جرمنی، ناورے، امریکا اور کینیڈا کے دورے، وہاں کُھلے ماحول کی کانفرنسوں میں شرکت اور معذرت خواہانہ بیانات مذکورہ رپورٹ کے مشمولات کی تصدیق کرتے ہیں۔
حالیہ دور جو عالم اسلام کے لیے نہایت کٹھن دورہے۔ ایک طرف عالم کفر کی عسکری یلغار ہے تو دوسری طرف فکر و نظر کی سطح پر غیر سرکاری تنظیمیں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ آور ہیں، ان کی جرأ ت یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ وہ ایک مسلم ملک کے کارپردازان اور پورے مسلم معاشرے کوایمان و اسلام سے ہی دَست بردار ہوجانے کی تجاویز دے رہی ہیں۔آج اسلام اور جاہلیت جدیدہ میں ویسا ہی ٹکراؤ ہے جیسا دوسری صدی ہجری میں یونانی فلسفے اور اسلام میں ہوا تھا۔اس عرصہ ء پیکار میں چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے ذہین اَفراد اسلام کی حقانیت، آفاقیت اور’’واحد حق‘‘ ہونے کو دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کرتے اور جدید مغربی نظریات کے فلسفے کولایعنی،ازکاررفتہ اور نامعقول ہونا بتلاتے ، اپنے اَکابر و اَسلاف کی روش پر چلتے ہوئے مغرب کی تہذیبی، فکری اورنظریاتی یلغار کے سامنے ڈٹ جاتے …… الٹا یہ ہوا کہ ہماری ہی صفوں کے بعض اَفراد دوسری طرف جاکھڑے ہوئے اوردانستہ ونادانستہ غیروں کی ہاں میں ہاں ملانے لگے، فیا اسفیٰ علی مافرطتم فی جنب اللّٰہ!
رفتی بہ بزم غیر، نکو نامی تو رفت
ناموس صد قبیلہ بہ یک خامی تورفت
اب ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس تفصیل کے بعد مغرب پرست این جی اوزکی مدارس دشمنی سمجھ آجانی چاہیے۔ اہل مغرب کے خیال میں ان کے شرمناک عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ دینی مدارس ہیں؛اس لیے کہ علماء اور مدارس ہی اس امت کے دین ودنیا کے محافظ ہیں۔جب تک حق گو علماء اور دینی مدارس موجود ہیں حفاظت دین کے فرائض انجام دیتے رہیں گے،یہی وجہ ہے کہ علماء ومدارس کو مختلف انداز میں ہدف بنایا جاتا ہے۔ دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی، نظام تعلیم میں تبدیلی، مغرب کے جدیدنامعقول نظریات اور مغربی اطوارکی مدارس میں ترویج، یکساں نصاب رائج کرنے کی خواہش،معاشرے میں مدارس کے کردار کوحد درجہ محدود کرنے کی منصوبہ بندی ،مختلف حیلوں سے مدارس کو ہراساں اور تنگ کرنے کی روش، مدارس پر اقتصادی اور حکومتی بندشیں…… یہ سب اہل نظر سے چھپی ہوئی باتیں نہیں…… جس دن مدارس کے خلاف اہل مغرب کی یورش کامیاب ہوگئی پھر پاکستان کو ’’اسپین‘‘ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ تمسک بالسنۃ،استقامت علیٰ الدین کو اختیار کیاجائے، اپنے عقائد ونظریات ،تشخص، انفرادیت اور اپنے اسلاف کے کرداروعمل پر غیر متزلزل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے گرد و پیش پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ کسی بھی خیرہ کن نظریے کو محض اس وجہ سے قبول نہ کیا جائے کہ وہ چاندی کے ورق میں لپٹا ہوا ہے۔حمیّت دینی کامظاہرہ کرتے ہوئے مغربی این جی اوز کے ساتھ عدم تعاون کارویہ اپنایاجائے ۔اس ارشاد ِربانی کویاد رکھیے:
یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَتَّخِذُوْاالَّذِینَ اتَّخَذُوْادِیْنَکُمْ ھُزُواًوَّلَعِباً مِّنَ الَّذِینَ اُوْتُواالْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَاءَ وَاتَّقُوااللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنo
ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ علماء امت اور داعیان دین اپنے اسلاف کی روِش پر چلتے ہوئے مغربی نظریات اور مغربی تہذیب کی تفہیم حاصل کرکے اس کے بطلان اور بے سند ہونے کو طلبہ کرام اور عوام کے سامنے خوب واضح کریں۔نیز گزشتہ سطور میں ہم نے جو مندرجات پیش کیے ہیں انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے جمعہ کے خطابات میں عامۃ الناس کو آئندہ خطرات سے آگاہ فرمائیں ۔وماعلینا الاالبلاغ المبین۔
سلیم اﷲ خاں
صدر اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ پاکستان
رئیس وِفاق المدارس العربیہ پاکستان
شیخ الحدیث ومہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی

 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877654 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More