ایک عبقری مدرّس
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
دو تین روز قبل ہم اپنے شیخ حضرت مولانا
سلیم اللہ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے،بہت دیر تک ان کےانفاسِ طیبہ سے
محظوظ ہوئے،آج یہ خیال آیا کہ حضرت کا درسِ بخاری شریف بہت شہرہٗ آفاق
ہے جو وہ ستّر سال سے دے رہے ہیں،کے حوالے سے کچھ گفتگو کی جائے:
اندازِتدریس میں ہمارے حضرت‘‘حلف الزمان ليأ تينّ بمثلهِ ۔۔حنثت یمینک یا
زمان فکفّر’’ کےصحیح مصداق ہیں،اس کی وجہ (1) ان کی خدادا قابلیت،ذہانت ا
ورفطانت ہے،جو ان کی أصول سے چلی آرہی ہیں اور پھراُن سے ہوتے ہوئے اُن کے
فروع میں سرایت کئے ہوئے ہیں،(2) انہیں اتفاق سے اساتذہ بھی ایک سے ایک
میسر ہوئے،(3)وہ تحصیلِ علم میں طالبِ صادق رہے،(4)باکردار اور أولوالعزم
خاندانی پس منظرنے انہیں کچھ کرنے پر آمادہ رکھا،(5)وہ بہت کچھ کے
باوجوداول وآخر مدرس ہی رہے،ہمارے مدارس میں پڑھائی جانے والے فنون انہیں
مستحضر ہیں،اسی لئے صحیح بخاری ومشکاۃ کے ساتھ ساتھ فنون کی بنیادی کتابیں
بھی خود پڑھاتے ہیں،(6)انہیں ہر وقت اس بات کا احساس رہتاہے کہ انہیں ایام
تدریس میں سبق پڑھانا ہے،(7)ان کی درسی کتاب اور روز کا درس ان کی مکمل
گرفت میں ہوتاہے،(8)اسباق اور دیگر تمام معاملات میں وقت کے نہایت پابند
ہیں،(9)خود عبارت ایسی لے میں پڑھتے ہیں کہ کیا کہنے،(10)عبارت سے متعلقہ
تمام امورِ لغویہ،صرفیہ،نحویہ،بلاغیہ،منطقیہ،کلامیہ،مصطلحات الحدیث،فن رجال
اور پھر درس کے موضوع ومشمولات انہیں ازبر ہوتے ہیں،(11)عبارت میں طالب علم
کی باریک سی باریک غلطی بھی پکڑسکتے ہیں،(12)آواز نہ کانوں کو چیرنے
والی،نہ مدہم،بلکہ شیریں وفرحت بخش اور واضح(13)حروف کی ادائیگی اتنی صاف
وشفاف کہ سننے والے کو قریب المخارج حروف سمجھنےمیں کبھی دقّت محسوس نہیں
ہوتی،(14)الفاظ وتعبیرات میں بہت عمدہ اور برمحل چناؤ کا تسلسل،(15)روح،بدن
ولباس نہایت پاکیزہ اور معطر،(16)اپنے اساتذہ ،متقدمین اور مؤلفینِ کتب کا
تپاک سے تذکرہ وتحسین،(17)ظاہر وباطن،وضع قطع اور قول وعمل میں سنت وشریعت
کے سختی سے پابند،(18)کردار وگفتار میں آئینہ کی طرح صاف ،اُجلا اور کھلی
کتاب19)طلبہ سے محبت وپیار اُن کا خاصہ ہے،(20) طالبانِ علومِ نبوۃﷺ اور
اسلامی علوم سے بے پایاں اخلاص وللہیت،(21)کمال کی خود اعتمادی،(22)عربی،اردو
اور فارسی الفاظ و محاورات کا ہرطرح سےصحیح اور برموقع استعمال،وہ کبھی بھی
اِغواء کو اَ غوا ،اِجتِناب کو اجتَناب اور وِفاق کو وَفاق نہیں کہیں
گے،علیٰ ہذا القیاس(23) ان کے درس میں جملے تو جملے الفاظ کبھی ایک دوسرے
سے آگے بڑھ کر نہیں آتے،تتابُع،تسابُق اور تراکب وتحامل نہیں ہوتا، الگ
الگ ،رک رک ،ٹہر ٹہرکر ادائیگی اور انتہاء تک پہنچنے کے بعد اگلے لفظ کا
نمبر آتاہے،(24)وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں ناپ تول کروہی کہتے ہیں اور وہی
کہرہے ہوتے ہیں،یہ نہیں کہ کہنا کچھ چاہتے تھے،کہاکچھ اورگیا،(25)ان کو
تدریس سے عشق ہے،اسی لئے وہ کبھی پڑھاتے ہوئے اکتاتے نہیں ہیں،نہ ہی سامعین
گھنٹوں سبق سننے کے باوجود بوریت کا شکار ہوتے ہیں،نیزدرسں نظامی کی کل
کتابوں پر حضرت کو عبور ہے(26) وہ جب ‘‘امام ِ۔۔بخاری، حافظ۔۔ ابنِ۔۔ حجر ،
علامہ۔۔عینی،یا مثلاً : جنابِ۔۔ سرورِ۔۔ کائنات۔۔ صلَّی اللہُ۔۔علیہِ۔۔
وسلم’’ فرماتے ہیں،تو سامع عش عش کے رہ جاتا ہے،(27) کبھی کبھی دورانِ سبق
وہ جب کسی بزرگ کی محاکاۃ کرتے ہیں ،تووہ تو صرف اور صرف دیکھنے سے تعلق
رکھتاہے،(28)درس دیتے ہوئے خود بخود ان کے ہاتھ دونوں طرف سے اٹھ اٹھ کر سر
مبارک کے اوپر آجاتے ہیں اور دایا ں ہاتھ بائیں ہاتھ کی چار انگلیوں کو
پکڑلیتا ہے ،پھر چھوڑ دیتاہے،یوں محرابیں بنتی ہیں اور پھر کھل جاتی ہیں،اس
دوران بہت کم مگر کبھی کبھار تصفیق کی آواز بھی آجاتی ہے،ایک عجب نظارہ
ہوتاہے،(29)اُن کی آوازِمبارک، الفاظ ،معانی اور مضامین کی تابع ہوتی
ہے،چنانچہ رخوۃ،شدۃ،تفخیم وترخیم اور علوّ وانخفاض کے مراحل اس میں مسلسل
آتے رہتے ہیں،(30)بعض اوقات کسی بات پر زور دینے یا اہمیت جتانے کے لئے
سیدھے ہاتھ کوران مبارک پر دے مارتے ہیں، تھپڑ کی طرح یہ آواز کیا غضب کی
ہوتی ہے،(31)سبق کا انداز لیکچر ومحاضرے کی طرح ہوتاہے،خطیبانہ نہیں
ہوتا،لیکن استغراق فی الدرس اور جوشِ تدریس کی وجہ سے طالبِعلم مکمل حضرت
کے شکنجے میں ہوتاہے،مجال ہے ،کسی کو اِدھر اُدھر کے خیالات آجائیں،(32)درس
کا ماحول طلبہ اور حضرتِ اقدس میں قلبی لحاظ سے یگانگت کا ہوتاہے،ایسا
لگتاہے کہ حضرت ان ہی کو پڑھا رہے ہیں اور طلبہ ہمہ تن گوش ہوکر گویا ان ہی
سے پڑھ رہے ہیں،دونوں فریق اس وقت آس پا س کی دنیا ومافیہا سے منقطع اور
لا تعلق ہوتے ہیں،‘‘میانِ عاشق ومعشوق رمزیست۔۔کراماً کاتبین را ہم خبر
نیست’’ والی کیفیت(33)صحیح بخاری ومشکاۃ کا سبق کبھی کبھی عربی میں پڑھانے
لگ جاتے ہیں،مہینوں یہ سلسلہ چلتاہے،عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ حضرت کےعربی
سبق کے حوالے سے ہم نے کبھی نہیں سنا ،کہ سمجھ میں تو آتانہیں،جبکہ ہمارے
دیگر ساتھیوں کے حوالے سےجامعہ میں یہ معاملہ آجاتاتھا،(34) سبق جب بھی
مقررہ وقت کے مطابق نہیں ہوگا، تو اس کی بھی اطلاع کراتے ہیں اور جب بھی
مقررہ وقت سے خارج میں ہوگا، اس کے بارے میں بھی دورۂ حدیث کے شرکاء کو
خبر کرانا حضرت کا دیرینہ معمول ہے،(35)حضرۃ الامام درس کو مشن اور نظریہ
سمجھ کر پڑھاتے ہیں،وہ ہمیشہ فرماتے ہیں: ہم نظریاتی لوگ ہیں،(36)حضرت کی
سب سے زیادہ نگاہ متن ِکتاب پر ہوتی ہے،خواہ مخواہ کی علمی دھاک بٹھانے
کےلئےبلا ضرورت کی بحثیں اور حوالے دینا ان کا معمول نہیں ہے،(37) بلاوجہ
علمی وتحقیقی رعب جھاڑنے کے وہ شدید خلاف ہیں،میں نے ان کے ساتھ سفر وحضر
میں ایک لمبا عرصہ گذاراہے،اس دوران حضرت کو کبھی ایک مرتبہ بھی علمی یا
کسی حوالے سے رعب جھاڑتے نہ ہی مرعوب ہوتے دیکھا،سبق میں ایک ماہر معالج کی
طرح تشنگانِ علوم کو جتنی ضرورت ہوتی اتنی ہی وہ دواء دیتے ہیں،تشریحات
ہوں،تحقیقات ہوں یا پھر حوالہ جات(38)اعتدال فی الفکروالنظر،والتناسب فی
الجسم والبدن یعنی فطری حسن ،جمال،جلال،وقار،تمکنت،متانت،محبوبیت کے ساتھ
استقامت علیٰ الدین و المبادئ والاصول والعقائد والوظائف بھی حضرت کی تدریس
کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں،(39)ہمیشہ سے ان کا معمول ہے،سابق درس سے ربط ،خلاصے
کی شکل میں بیان کرنا ،پھر اسی بنیاد پر نئے درس کی تعمیر اٹھانا،(40)ان کا
طریقۂ تدریس عمومی طورپرقراءۃ الشیخ جبکہ أخیر سال میں قراءۃ علیٰ الشیخ
بھی ہوتاہے،دونوں صورتوں میں پہلےپورے سبق کو مالہ وما علیہ کے ساتھ القاء
فرماتے ہیں،پھر کتاب میں درس پے آتے ہیں کہیں کہیں تشریحاتِ لغت ورجال کے
ساتھ متن وعبارت کو سبقی بیانئے سے منطبق کرتے ہوئے چلتے ہیں، (41)سبق کے
دوران اور سبق سے فراغت کے بعد اُن کا اور ان کےسامعین کے چہرے ایسے کھلے
ہوئے ہوتے جیسے فرطِ خوشی اور فتح مندی سے معمور ومخمور ہوں،(42)مسلسل
مسکراہٹ وانبساط کی وجہ سےان کاچہرہ مبارک اور ماتھا چمک رہاہوتاہے،ان کے
دہن ،دندان،چشمان اور پیشانی مبارک پر دورانِ درس کبھی بھی ناگواری کی
کیفیت بَل یا شکن کی صورت میں نہیں ہوتی،نہ ایسی کوئی ہیئت وکیفیت ہوتی ہے
جس سے سامعین ومشاہدین کو ناگواری وتوحش ہو،(43)حضرت جی کووِفاق اور سوادِ
اعظم کے فلیٹ فارمز سے لوگ جانتے ہیں،وہ ایک زیرک سیاستداں،قائد اور رہبر
وخطیب بھی ہیں،ان کے درس میں اس وصف کے بھی اثر کا ہونا لازمی امر ہے،(44)وہ
اپنے تلامذہ کو گویا خونِ دل پلاتے ہیں،چنانچہ ازدل خیزَد بر دل ریزَد،‘‘دل
سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے’’(45)ان
کے سبق میں ابتداء وانتہاء میں کتاب کھولنا ،بند کرنا،وال کلاک پے نظر
رکھناکچھ چیزیں ایسی ہیں ،جو دیکھنے کی ہوتی ہیں۔بہر کیف ویسے ہی تو احمد
شوقی نے نہیں کہا:قم للمعلم وفّہ التبجیلا۔۔کاد المعلم أن یکون رسولاً۔ |
|