عالمی ہیرواوردنیا کی عظیم فوج کے سپہ
سالارجنرل راحیل شریف بطورآرمی چیف اپنی تین سالہ آئینی مدت پوری
کرکے29نومبر 2016کو ریٹائر ہوگئے۔ 2015میں بہترین کارکردگی اور اعلیٰ قیادت
کی بدولت جنرل راحیل شریف کو دْنیا کے 10 جنرلز میں سے بہترین جنرل کا
اعزاز دیا گیا تھا یہ وہ اعزاز ہے جو اس سے پہلے کسی پاکستانی جنرل کو نہیں
ملا ۔ جب ملک دہشت و وحشت کے گرداب میں گھرا ہوا تھاایسے میں آرمی چیف جنرل
راحیل شریف پاکستانی قوم کے لیے ایک مسیحا بن کر آئے اور قوم کو نہ صرف امن
و آشتی کی نوید سنائی بلکہ فوج کی گرتی ہوئی ساکھ کو پھر سے اوجِ کمال بخشا۔
دہشت گردوں کی سرکوبی اور پاکستان کی ہر آفت و مصیبت میں خدمت کے باعث آج
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قوم کی آنکھوں کا تارا ہیں اورعوام ان سے بے حد محبت
کرتی ہے اور قوم اپنے ہیرو کو مزیدایکسٹنشن لینے یا اقتدار پر قبضہ کرنے کا
کہتی رہی مگر جنرل راحیل نے باوقار انداز میں فوج کی ذمہ داری باقاعدہ
تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کی۔لہذا اب جنرل قمر جاوید باجوہ
افواج پاکستان کے 16ویں اور موجودہ سربراہ ہیں۔پاکستانی قوم اور پورے عالم
کی نظریں اب جنرل قمر جاوید باجوہ پر ہیں ۔جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے
بعد قوم اداس ضرور ہے مگر مایو س نہیں کیونکہ افواج پاکستان کی قیادت اب
نئے جنرل قمر جاوید باجوہ کی صورت میں انشاء اﷲ مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں
ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا شمار پاک فوج کے ماہر اور بہترین جنرلز میں ہوتا
ہے، نئے آرمی چیف کامیابی کے ساتھ اہم اہداف اور پالیسیوں کومکمل کرنے میں
انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ1959 میں گکھڑ منڈی میں پیدا
ہوئے۔ان کے والد کرنل محمد اقبال باجوہ کی طرح ان کے سسر بھی میجر جنرل
تھے۔انہوں نے کینیڈین آرمی کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، نیول پوسٹ گریجوایٹ سکول
اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، پاکستان سے تعلیم حاصل کی۔ان کے والد کرنل محمد
اقبال باجوہ نے 1965کی جنگ میں دشمن کا بھر پورمقابلہ کیا اور فوج میں دیگر
خدمات بھی سر انجام دیں۔انہوں نے 24 اکتوبر 1980 ء کو فوجی کیریئر کا آغاز
کیا۔ وہ آغاز میں بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے ، اس رجمنٹ کے وہ چوتھے افسر ہیں
جو آرمی چیف بنے۔ آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ
جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل آف دی ٹریننگ اینڈ ایویلیو ایشن رہے۔ لائن آف
کنٹرول کے اطراف کشیدگی کے بعد حالیہ تربیتی مشقوں کی خود نگرانی کی ، وہ
چیف آف آرمی سٹاف کے پرنسپل سٹاف آفیسر بھی رہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کو یہ
اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ آرمی کی سب سے بڑی دسویں کور کو کمانڈ کرچکے ہیں
بلکہ اپنے کیرئیر میں دو مرتبہ اس کور میں خدمات انجام دے چکے ہیں، جو
کنٹرول لائن کے علاقے کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔ وہ کشمیر اور شمالی علاقہ
جات میں معاملات کو سنبھالنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور بطور میجر جنرل
انہوں نے فورس کمانڈر ناردرن ایریاز کی سربراہی کی ، جنرل قمر جاوید باجوہ
اقوام متحدہ کے تحت کانگو میں پاک فوج کے امن مشن کی قیادت کر چکے ہیں۔
ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں ان کی شہرت انتہائی پروفیشنل آرمی مین کی
ہے۔
فوجی کمان کی منتقلی میں استعمال ہونے والی علامتی چھڑی’’ بیٹن ‘‘کہلاتی ہے
۔انگریزوں کی جانب سے لائی جانے والی چھڑی روایت بن چکی ہے ۔یہ چھڑی
سنگاپور سے منگوائے گئے’’ ملاکاکین ‘‘سے تیار کی جاتی ہے ۔ ون سٹار کے بعد
ہر افسر کو ایک چھڑی دی جاتی ہے ۔یہ علامتی چھڑی افسر کی شخصیت میں مزید
رعب اور دبدبہ ظاہر کرتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاک فوج میں بریگیڈیئر اور
اس سے اوپر کے عہدے میں ترقی پانے والے ہر افسر کو ایک چھڑی سونپی جاتی
ہے۔بیٹن کہلانے والی یہ چھڑی کسی عہدے کی ذمہ داریوں کی منتقلی کا علامتی
نشان ہوتی ہے۔منگل کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنے عہدے
کی ذمہ داریاں نئے فوجی سربراہ قمر جاویدباجوہ کو سونپی ہیں یعنی پاکستانی
فوج کی قیادت کی یہ چھڑی اب جنرل قمر جاویدباجوہ کے ہاتھ میں ہوا کرے
گی۔دنیا بھر میں یہ عمل مشترک ہے کہ فوج کی کمان ایک معینہ مدت کے بعد
تبدیل ہوتی ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ فوج کی کمان پیشہ ورجنرل کے ہاتھ
ہی ہوتی ہے۔ ممکن ہے فوج کی کمان کی تبدیلی کی تقریب پڑوسی ممالک سمیت دنیا
کے کسی بھی ملک میں’’جنگی‘‘جذبے اور لگن و توجہ سے نہ کی جاتی ہو جو ہمارے
ہاں روایت بن چکی ہے۔پیر کے روز چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل
زبیر محمود حیات کے اعزاز میں باضابطہ استقبالیہ تقریب راولپنڈی ہیڈکوارٹر
میں ہوئی۔تقریب میں سبکدوش ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی
جنرل راشد محمود نے نئے نامزد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر
محمود حیات کو کمان سونپی۔تقریب میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور اعلیٰ
افسران نے شرکت کی۔جنرل زبیر محمود حیات 17ویں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف
کمیٹی ہیں۔کمان کی تبدیلی کی دوسری بڑی تقریب منگل کی صبح روالپنڈی میں
واقع بری فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی ۔تقریب کا آغاز قرآن
پاک کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد پاک فوج کے چاک و چوبند دستے نے تقریب کے
مہمان خصوصی جنرل راحیل شریف اور کمان سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ
کو سلامی پیش کی۔تقریب میں اعلیٰ عسکری حکام موجود تھے جبکہ وزیر دفاع
خواجہ آصف، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، اسپیکر قومی
اسمبلی سردار ایاز صادق و دیگر وزراء بھی تقریب میں شریک تھے۔چیئرمین
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد
ذکاء اﷲ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل سہیل امان اور سابق آرمی چیف
اشفاق پرویز کیانی بھی مہمانوں میں شامل تھے۔تقریب میں ملٹری بینڈ نے مارچ
پاسٹ کرتے ہوئے قومی ترانوں اور علاقائی نغموں کی دھنیں بجاکر شرکاء کا جوش
و جذبہ مزید بلند کیا۔تقریب میں بّری فوج کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جنرل
راحیل شریف اور نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یادگار شہدار پر فاتحہ
خوانی اور سلامی پیش کی۔اپنے الوداعی خطاب میں جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا
کہ ’’ہم نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ کر تاریخ کے دھارے کو موڑا اور
اس خطے بالخصوص پاکستان کی عوام کو امن کی ایک نئی امید دی۔بلوچستان اور
کراچی میں امن کا قیام، آپریشن ضرب عضب ہو یا ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے
سی پیک پراجیکٹ ہر میدان میں کامیابی کے ثمرات واضح نظر آرہے ہیں۔ خطے میں
سکیورٹی کے حالات پیچیدہ ہیں اور ملک کو درپیش چیلنجز ابھی ختم نہیں
ہوئے۔بیرونی خطرات کو بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے اندرونی کمزوریوں خصوصا
جرائم، بدعنوانی اور انتہاپسندی کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہوگا اس کے لیے نیشنل
ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد لازم ہے‘‘۔اس موقع پر انھوں نے
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی صورتحال اور سرحدی کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے
کہا کہ ’’ہماری تحمل کی پالیسی کو کسی قسم کی کمزوری سمجھنا خودبھارت کے
لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل
ضروری ہے جس کے لیے عالمی توجہ ضروری ہے‘‘۔اسی تناظر میں ریٹائر ہونے والے
موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود اور آرمی چیف
جنرل راحیل شریف کو بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح مراعات دی جائیں
گی۔ریٹائر ہونے والے دیگر آرمی چیفس کی طرح جنرل راحیل شریف پر بھی
انٹرویوز اور تقاریر پر آئندہ دو سال تک پابندی ہو گی۔اگر دو سال کی مدت
پوری ہونے سے پہلے انٹرویو کی ضرورت پڑے تو جنرل ہیڈکوارٹرز سے اجازت لینا
پڑتی ہے۔ انٹرویو یا تقریر کا مواد بھی کلیئر کرانا ہوتا ہے۔
نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے پیش رو جنرل (ر)راحیل شریف
میں ذاتی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں
میں جنرل راحیل ہی کی طرح ’کھلے ڈلے‘ افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور
انہی کی طرح فوج کی تربیت اور مہارت میں اضافے کے ہر وقت خواہشمند رہتے
ہیں۔جنرل جاوید قمر باجوہ کے بارے میں ان کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے
بعض افسروں کا خیال ہے کہ نا صرف سیاسی معاملات پر پختہ رائے رکھتے ہیں
بلکہ اس کا اظہار کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ ان کے ساتھ کسی بھی وقت کسی
بھی موضوع پر بے تکلف گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ان کی یہی خوبیاں انھیں اپنے
ساتھیوں میں مقبول اور ممتاز بناتی ہے۔جنرل باجوہ فوری فیصلہ کرنے کی غیر
معمولی صلاحیت رکھنے والے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنرل راحیل اور
جنرل باجوہ کے درمیان یہ قدر بھی مشترک پائی جاتی ہے۔ جنرل راحیل ہی کی طرح
جنرل باجوہ بھی فوج کی تربیت کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں
اور گذشتہ سالوں میں انھوں نے اس سلسلے میں فوج کی تربیتی برانچ کے سربراہ
کے طور اہم کردار اداکیا ۔جنرل قمر جاوید باجوہ کے پی ایم اے کے ساتھی میجر
ریٹائرڈ ایاز رسول کا ایک نجی ٹی وی کو انٹرویودیتے ہوئے کہنا ہے کہ نئے
آرمی چیف کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہیں، مگر وہ ان چیلنجز سے نمٹنا
بھی خوب جانتے ہیں۔ ’جنرل باجوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تسلسل نہیں ٹوٹنے
دیں گے اور جنرل راحیل سے بھی آگے نظر آئیں گے۔‘سیاست سے متعلق نئے آرمی
چیف کے خیالات کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جنرل قمر باجوہ ایک غیر
سیاسی شخصیت ہیں اور فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کے حامی ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک وقت پر اپنی ذمہ داریاں
سنبھالیں ہیں۔ سابقہ چیف کے ساتھ وہ ان کے شانہ بشانہ تھے تو تمام معاملات
سے بخوبی واقف ہونگے اور پاکستان کے کروڑوں عوام کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر
کو یقین ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ سی پیک جیسے
پراجیکٹ جس کی ناکامی کی کوششیں بھارت ہی نہیں اور لوگ بھی کررہے ہیں،
انہیں ملیامیٹ کرنا بھی افواج پاکستان کا کام ہے۔ بھارت کو علاقے میں اس کا
مقام دکھانا بھی ضروری ہے۔دفاعی امورسے وابستہ ذرائع سے معلوم ہواہے کہ نئے
آرمی چیف قمرجاوید باجوہ کی عہدہ سبنھالنے کے بعدابتدائی طور پر5 ترجیحات
ہوں گی۔ ان ترجیحات میں ملک سے دہشت گردی وانتہا پسندی کاخاتمہ اورقیام امن
کی لیے حکومت کے ساتھ مل کر موثر پالیسی کی تکمیل میں بھرپورتعاون، ملک کے
خلاف سازشوں میں مصروف دشمنوں کو موثر جواب اور ان کا مکمل خاتمہ کرنا،
آپریشن ضرب عضب اور کراچی سمیت دیگر آپریشنز کے اہداف کا حصول سمیت دہشت
گردتنظیموں، سہولت کاروں اور معاونین کا قلع قمع کرنا اور پاک چین اقتصادی
راہداری کی تکمیل وتحفظ ہوگا۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر)
سیمسن کا کہنا تھا کہ راحیل شریف کے جانے اور قمر جاوید باجوہ کے آنے
سے فوج میں کسی قسم کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جنرل باجوہ ایل او سی کے ایک
ایک مورچے سے بخوبی واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ معاملات کو
کس طرح سے لے کر چلنا چاہیے۔ حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی جانب سے نرم رویہ
اختیار کرنے میں بھی جنرل باجوہ کا کافی کردار رہا ہے اور خود بھارتی افواج
کو بھی معلوم ہے کہ وہ اپنی فوج کو کس طرح سے لے کر چل سکتے ہیں یہی وجہ ہے
کہ جنرل صاحب کو عہدہ سنبھالے ابھی دن بھی نہیں گزرے کہ ہمارے ازلی دشمن
بھارت میں شام غریباں کا منظر ہے اور ہندوستان کا فوجی سربراہ بکرم سنگھ یہ
کہے بغیر نہ رہ سکا کہ جنرل قمر جاوید سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے وہ loc
کے چپے چپے سے واقف ہیں لہذاجنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے جن
محاذوں پر کامیابیاں حاصل کرنے کا رواج ڈالا ہے اب ان کامیابیوں کو بام
عروج تک لے جا نے کی ذمہ داری جنرل باجوہ پہ آن پڑی ہے۔امید ہے کہ یہ بھی
قوم کے ہیرواور دوست ثابت ہونگے۔ |