وزیر اعظم -خطابت جن کا جوہر خاص ہے

وزیر اعظم نریندر مودی ڈھائی سالہ دور اقتدار میں اپنی خطابت کا لوہا منواچکے ہیں، انگلینڈ، فرانس ،امریکہ ،جاپان دنیا کے بہت سے ممالک کے لوگ ان کی خطابت کے گرویدہ ہیں۔اسٹیج پر آنا، لوگوں کو ترقیات کے سرسبز باغات کی سیر کرانا ان کا مزاج ہوگیا ،کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ کسی ملک کا وزیر اعظم اس طرز پر گفتگو کرتا ہو،لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ،کبھی مذہب کے نام پر ،کبھی ترقی کے نام پر ،کبھی اپنی غربت کا رونا روتے ہوئے اور غریبوں کے احساسات کو سمجھنے کا دعوی کرنا، ان کے دکھ درد بانٹنے اور ختم کرنے کا ارادہ کرنا ،مختلف مواقع پر ،الگ الگ رنگ سے عوام کے جذبات کو گرمانااور جوش کا عالم یہ ہے کہ بسا اوقات خود بھی جذبات کی رو میں بہ جانااور ایسے کلمات ادا کرنا جو قابل گرفت ہوتے ہیں اور سوال پیدا کرتے ہیں ،کیا حقیقت یہی ہے؟کیا جو جملے وزیراعظم کی زبان سے ادا ہوئے وہ مبنی بر حقیقت ہیں ؟یا محض جذباتی مقرر کی دھاڑاور ہر ذی شعور فرد غور و فکر کرنے پر مجبور ہوتا ہے ،مثال کے طور پر ’’پریورتن ریلی‘‘کے درمیان وزیر اعظم نے کہا:ہم تو غریب ہیں، جھولا اٹھا کر چلے جائیں گے حالاںکہ ان کی غربت کا عالم یہ ہے کہ ان کے ملبوسات کروڑوں میں ہیں،جو عام آدمی کی زندگی بھر کی کمائی سے کہیں زیادہ ہے،اس کے افکار و خیالات میں بھی اتنی رقم کا گذر نہیں ہوتا ،یقین نہ آئے تو ان کی تصاویر دیکھ لیجیے، کوئی لباس دومرتبہ ان کے جسم پر نہیں دیکھیںگے۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دعوی کیا تھا کہ ہمارے وزیر اعظم دن میں پانچ مرتبہ لباس تبدیل کرتے ہیںاور دو سال میں 70 کروڑ روپے اپنے لباس پر خرچ کرچکے ہیں۔یہ ہے اس شخص کا عالم جو اپنے آپ کو غریب کہتا ہے،روتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے ،کہ ہم غریبوں اور مفلسوں کے ہمراہ ہیںاور سب سے بڑی بات یہ کہ سنیاسی ہیں۔اب اگر ان سے سوال کیا جائے سنیاس کیا ہے؟کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک سنیاسی اتنے عمدہ اور گراں قیمت لباس زیب تن کرے،چلئے تسلیم کرلیتے ہیں کہ آپ ایک ارب 28 کروڑ افراد کی قیادت کر رہے ہیں، اس لئے یہ سب کرنا پڑتا ہے،تو پھر غربت کا رونا کس لئے؟معصوم غریبوں کو ٹھگنے، ان کے جذبات سے کھیلنے،کرسی کے پایہ مضبوط کرنے کے لئے،آپ وزیر اعظم ہیں یا خطیب اعظم ؟اور یہ سب کھیل اس ملک میں جہاں کثیر تعداد غربت و افلاس سے متاثر ہے ،جہاں بھوک مری کے واقعات کی کثرت ہے،دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زائد افراد بھوک کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں ،روٹی پیٹ میں نہ جانے کے باعث ان کی سانسیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیںاور زندگی کابوجھ ان کے تن سے جدا ہوجاتا ہے،جس کا آدھا حصہ 40کروڑ افراد ہندوستان ،پاکستان ،بنگلہ دیش میں بھوک کی شدت سے تڑپ تڑپ کر مرتے ہیںاور اس پوری تعداد کا تہائی حصہ ہندوستان کے سینہ کو زخمی کرتا ہے ،دنیا بھر میں چوبیس ہزار افراد روزانہ بھوک کی شدت سے دم توڑ دیتے ہیں،جن میں آٹھ ہزار بھارت کی مقدس سرزمین پر اپنی آخری سانسیں لیتے ہیںاور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان میں 6 ہزار معصوم بچے ہوتے ہیں،جنہوں نے ابھی تک دنیا کی رنگینی و سنگینی، اس کی خوبصورتی اور ہولناکی کو دیکھا ہی نہیں ،جرم و سزا کے تصور سے بھی ابھی وہ واقف نہیں ہوئے،کیا ان کا پیدا ہونا جرم ہے ؟کیا آپ کا دعویٰ مسیحائی فریب ؟کیا نریندر مودی واقعتا غریبوں کا درد سمجھتے ہیں ؟ہر باشعور فرد اپنے ذہن میں ان سوالوں کے جواب تلاش کرلے گا،یہ کوئی منطقی شگوفہ نہیں جس کا حل کرنا مشکل ہواور آگے بڑھئے تو ہندوستان کا 29 فی صد حصہ غریبی کی زندگی گذار رہا ہے،انہیں زندگی کی آسائشیں میسر نہیں،آرام و راحت سکون و اطمینان کے لمحات سے ان کی زندگی خالی ہے،اس غربت کا احساس ہمارے وزیر اعظم کو ہوتا تو ایسے جملے نہ ادا کرتے ،ایک دن اگر غربت و افلاس کی زندگی گذاریںگے تو حقیقت سمجھ میں آجائے گی،جب چائے بیچتے تھے ،وہ بچپن کی کہانی تھی اب کریں تو معلوم ہوگا غربت کیا چیز ہے،اگر واقعتا آپ غریبوں کے مسیحا ہیں،تو دیجئے نوالہ ان بھوکوں کو، روکئے ان لوگوں کو جو گیہوں کی کالابازاری کرتے ہیں اور گیہوں روکتے ہیں ،گراں قیمت پر فروخت کرتے ہیں،یا سڑنے دیتے ہیں،کیوں ان پر شکنجہ نہیں کسا جاتا؟جب ہم آر ٹی آئی کہ ذریعہ جان لیتے ہیں کہ ملک میں کتنا غلہ خراب ہوا،تو کیا حکومت کو اس کا علم نہیں ہے،یا بس وزیراعظم کا کام زبان سے غریبی مٹانا ہے، عملی طور پر اور حقیقت میں نہیں ،جواب اگر اثبات میں ہے ،تو حقائق آپ کے سامنے ہیں،نفی میں ہے تو یہ ڈرامہ کیوں؟اسی طرح ہمارے وزیر اعظم نے کہا کہ ہر ہندوستانی کہ اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے آئیں گے ،بعد میں اس کو سیاسی جملہ کہہ دیا گیا ،کون اعتبار کرے آپ کا اور آپ کی بے تکی باتوں کا ،ابھی چند ایام پہلے کرنسی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا،عوام پریشانی اور مشکل کا شکار ہوئی،لوگ قطاروں میں لگے ہیں،اب وزیر اعظم کو مخالفت کا احساس ہوا ،معاشیات کے ماہرین نے اس عمل کے فائدہ سے انکار کیا ،تو ہمارے وزیر اعظم اپنے سابقہ انداز میں پھر نمودار ہوئے اور لوگوں کا من موہنے کی کوشش کی آنسو بھی بہائے خواب بھی دکھائے اور اب تو یہ اعلان کردیا گیا کہ جن دھن کھاتوں میں جو پیسے آئے ہیں، وہ انہیں کے ہیں جن کا کھاتہ ہے،پھر وہی انداز اور طریقہ کار لوگوں کو خوش کرنے والا، حقائق کا اندازہ کیجئے ،جس ملک میں کثیر تعداد غریبوں کی ہے کیا وہاں یہ فیصلہ مناسب ہے،5 کروڑ سے زائد جن دھن کھاتے ہیں،ان تمام میں پیسے بھی جمع نہیں ہوئے ہیں اور ہر غریب کا کھاتا بھی نہیں ہے،جس کا کھاتا ہے،وہ آسانی سے اپنے روپے دے گا بھی نہیں،اگر سب دے دیں تو کیا اس طریقہ سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا؟ہر ذی شعور اس سوال کے جواب پر غور کرے اور اپنے دل سے پوچھے ،کیا یہ طریقہ مناسب اور درست ہے؟ہونا تو یہ چاہئے تھا ،حکومت فہرست پیش کرتی ہم نے اتنا کالا دھن پکڑا ہے،جو اتنی مقدار میں تمام غرباء میں تقسیم کیا جائے گا، لیکن ہوا یہ کہ سادہ لوح اور سادہ طبیعت افراد کے جذبات سے کھیل کر انہیں خوش کرنے اور اپنی تقریر میں الجھانے کی کوشش کی گئی ہے،نہ حقائق سامنے ہیں،نہ نوٹ بندی کا فائدہ اور نقصان سامنے ہے بلکہ لڑائی کا ایک بہانہ دے دیاگیا،اگر حکومت کو دینا تھا تو خود ضبط کرتی اور تمام جن دھن کھاتوں میں تقسیم کردیتی ،عوام کو بھی ان تمام حقائق پر غور کرنا چاہئے،اور مذہبی تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچنا چاہئے،جو ملک کو جملوں اور تقریر سے جیتنا چاہتے ہیں انہیں باور کرانا چاہئے کہ ہم حقیقت پسند ہیں مکڑی کہ جال میں ہمیں نہیں پھنسایا جاسکتا ہے اور اپنی ہوشمندی کا انتخاب میں ثبوت پیش کرنا چائے ،ورنہ آنے والے وقت میں ملک عظیم خسارے سے دوچار ہوگا اور کئی اور مقرر سیاست کے میدان میں اتریں گے اور ہمیں چھلیں گے-
Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 85101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.