روہنگیا مسلمان اوراقوام ِ عالم
(Maemuna Sadaf, Rawalpindi)
روہنگیامیامیرکی مغربی ریاست ریکھائن میں
رہنے والے مسلمان ہیں جو کہ اسلام کے سنی مکتبہ ء فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔
روہنگیا دراصل میامیر میں بسنے والے مسلمانوں کو کہا جاتا ہے ۔ روہنگیا
مسلمان ریاست ِ ریکھائن کی کل آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں جبکہ اس ریاست
میں زیادہ تر آبادی بدھ مت سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان دونوں مذاہب کی اقدار ،
عبادات یکسرمختلف ہیں ۔ بدھ مذہب کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ میامیر (
سابقہ برما)یہاں کے مکینوں کا ملک ہے جبکہ ہجرت کرکے آنے والوں کو اس ملک
کو چھوڑ دینا چاہیے ۔بدھ مت کے راہبوں کا کہنا ہے کہ ریاست ِ میامیر صرف
اور صرف بدھ مت کے پیروکاروں کی سر زمین ہے ، کسی اور مذہب کے ماننے والوں
کے لیے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں اس نظریہ کے پیش ِ نظر میامیر میں دوسرے
مذاہب بالخصوص مسلمان طویل عرصے ان کے نشانہ ء ستم پر آچکے ہیں ۔مسلمان
اقلیت نہ صرف ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے بلکہ ان کو بڑی تعداد میں
مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا جا رہا ہے ۔مسلمانوں کی اس صورتحال پر اقوام ِ
عالم ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہوں یا عالمی سطح پر انسانی حقوق کے
لیے کام کرنے والے ادارے سب خاموش تماشائی کی حیثیت سے اپنا کردار نبھانے
سے قاصرنظر آتے ہیں ۔روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہمیں
یہ جان لینا چاہیے کہ روہنگیا درحقیقت کون ہیں ،ان کا تعلق کس زمین سے ہے ،
ان کی تاریخ کیا ہے؟ ۔
روہنگیا کا لفظ اراکان سینکلا ہے ۔ مسلمانوں کا یہ گروہ خود کو ان زمنیوں
سے منسوب کرتا ہے جو کہ ریاست اراکان کے زیرِاثر تھا ۔روہنگیا مسلمانوں کا
سلسلہ پندرہویں صدی کے ان مسلمانوں سے جا ملتا ہے کو ریاست اراکان میں ہجرت
کرکے آئے اور یہیں آباد ہو گئے ان کی نسلیں اسی سرزمین میں پھلنے پھولنے
لگی ۔ اس کے بعد ان گنت مسلمان انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز میں ریاست
میامیر کے علاقے ریکھائن میں آئے اور یہیں آباد ہو تے چلے گئے ۔
1948ء میں برما کی آزادی اور 1989ء میں برما کے نام کی تبدیلی کے بعد 135
یا اس سے بھی زائد سالوں سے اس خطے میں بسنے والے روہنگیا کو اس ملک کے
شہری ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ روہنگیا کو غیر ملکی، بنگال کی جانب سے
ہجرت کرنے والے تارکینِ وطن کے طور پر جانا جانے لگا ۔اس امر سے قطع نظر کہ
یہ مسلمان صدیوں سے اس علاقہ میں آباد ہیں،ان مسلمانوں کی نسلیں اس ارض ِ
وطن میں پنپ رہی ہیں اور ملکی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہیں ۔
حکومت ِ میامیر نے ریاست ریکھائن میں بسنے والے روہنگیا کو شہری حقوق دینے
سے انکار کر دیا ۔ اس طرح بڑی تعداد میں مسلمان ایک وطن میں رہتے ہوئے بھی
بے وطن ہو کر رہ گئے ۔ریاست ریکھائن نے روہنگیا مسلمانوں کو ریاست سے نکل
جانے کا حکم دیا۔ جب مسلمانوں نے اس ریاست کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تو ان
پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے ان گنت مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار
دیا گیا ، کئی نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھوا ء لیا گیا جو کہ آج تک لا
پتہ ہیں ۔ مسلمان عورتوں کے ساتھ زیادتی اوربوڑھوں کی مار پیٹ تو ریاست
ِمیامیر میں روز مرہ کیواقعات ہیں ، ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے
ان بے وطن مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا
۔اس طرح لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی جانب کوچ کیا ۔
بنگلہ دیش میں بھی ان مسلمانوں کو کوئی جائے اماں نہ ملی ۔بنگلہ دیش نے
انھیں اپنا شہری ماننے اور ملک میں بسنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا
اورلاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان میامیر اور بنگلہ دیش کی سر حد پر
قائم مہاجر کیمپوں میں کمپسری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان مہاجر
کیمپوں میں نہ تو کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں موجود ہیں اور نہ ہی
موسموں کی شدت سے بچنے کے کوئی ذرائع ۔ حال ہی میں موسم سرما کی آمد نے ان
مہاجرین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ سردی سے بچنے کا کوئی انتظام
نہ ہونے کی وجہ سے ان مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والے مسلمان کئی طرح
کی موسمی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب جن لوگوں نے میامیر کو
چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا ہے وہ میامیر میں بسنے والی اکثریت کی جانب
سے ڈھائے جانے والے مظالم کا شکار ہیں ۔
چونکہ 1989 ء حکومت ِ میامیر نے روہنگیا مسلمانوں کو شہری حقوق دینے سے
انکار کر دیا تھا جس کے بعد ان حقوق کے حصول کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی
۔تحریکیں چلائی گئی، مظاہرے کئے گئے لیکن کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہو
سکا۔حکومت ِمیامیر نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے چلائی گئی تحریک کو دبانے کی
ہر ممکن کوشش شروع کر دی تاہم طویل جدوجہد کے بعد اگرچہ حکومت ِمیا میر نے
روہنگیا کو اس ملک میں رہنے کے حقوق دئیے لیکن یہ حقوق، عارضی اور غیر
مستقل حقوق ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو حکومت ِ میامیر کی جانب سے ایک وائٹ
کارڈ ایشو کیا گیا جو کہ اس بات کا اجازت نامہ ہے کہ عارضی طور پر روہنگیا
ریاست ِ ریکھائن میں رہ سکتے ہیں تاہم انھیں کسی بھی طرح کی قانونی
سیکیورٹی حاصل نہ ہو سکی ۔ وہ میامیر میں کسی قسم کی کوئی جائیداد نہیں
خرید سکتے اور نہ ہی کوئی کاروبار کرنے کے مجاز ہیں ۔ اس کے علاوہ میامیر
حکومت کے پاس حقوق ہیں جو انھیں کسی بھی وقت ملک سے نکل جانے کا حکم دے
سکتی ہے۔ اس طرح روہنگیا مسلمان ایک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں ۔
اقوام ِ متحدہ کی زیرِنگرانی سن 2014 ء میں ہونے والی مردم شماری میں
روہنگیا کوعالمی طور پر باقاعدہ ایک مسلمان اقلیت کے طورپر تسلیم کیا گیا
تاہم بدھ مت کے پیروکاروں نے اس مردم شماری کا بیکاٹ کیا اور حکومت نے
روہنگیا کو بنگالی کے طور پر رجسڑ ڈ کیا ۔آنگ سانگ سوئی جن کو عالمی امن کا
نوبل انعام مل چکا ہے ان کی حکومت کو اقوام ِ متحدہ کی جانب سے خبردار کیا
گیا کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی بڑی کاروائیوں کو روکا
جائے ۔
اقوام ِ متحدہ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ میامیر کو اپنی تمام تر آبادی کو
انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ ریاست ریکھائی میں ہونے والے نسلی
، ریاستی اور مذہبی فسادات میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا قتل ِعام
ہوا اور عالمی امن کے نوبل انعام کے حامل سو کی ان فسادات کو روکنے کے لیے
خاص اقدامات نہ کر سکے ۔مسلمان تنظیموں کو باقی علاقوں کی طرح اس خطے کے
مسلمانوں کے حالات کو بھی عالمی سطح پر پیش کرنا چاہیے اور ان کی مدد کی ہر
ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔
روہنگیا مسلمانوں کی نگاہیں عالمی برداری اور مسلمان برادری پر جمی ہیں کہ
وہ ان کی مدد کریں انھیں اپنے ہی ملک میں شہری ، انسانی حقو ق فراہم کروانے
میں اپنا کردار ادا کریں ۔ بدھ مت راہبوں کی جانب سے ہونے والی نسل کشی کی
نہ صرف مذمت کی جائے بلکہ اس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جائے ۔
|
|