جہاں ہم بہت سے چھوٹے مسائل کو معمہ بنائے
بیٹھے اپنادردِ سر بنائے ہوئے ایک بامقصد زندگی گزارنے کاڈھونگ رچا رہے ہیں
ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی حرص ہمارے اذہان و قلوب پر غلباٰ باچکی ہے۔
مسلمانی کے اوصاف و خصائص ہمارے نزدیک ایک بھولی بصری یاد اور داستان ہی
میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں تو تو پھر ہمیں بڑے دل کے ساتھ تسلیم کرلینا
چاہیے کہ ہماری اوقات ہی یہ ہی ہے کہ جب جس کا جی چاہے ہمیں جھنجوڑ دے،
ہچکولوں سے سامنا کروا دے اور موجوں میں ذرا سی طغیانی کو ہماری انحطاط کا
وسیلہ کردے۔اصل مسئلہ پر کسی کا فوکس نہیں ہے سب اپنی اپنی ترجیحات میں
منعطف ہیں اور اقوامِ عالم خصوصاٌ مسلمانوں کو درپیش مسائل سے بے خبر ی کی
نیند سونے کاشاید عیادہ کرلیا گیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب رواداری
اور اتصال کی بازگشت سنائی دیتی ہے تواسے ماند پڑتے دیر نہیں لگتی بلکہ بسا
اوقات صرف پوائنٹ اسکورنگ کی خاطر اسے اپنی تقاریر کا حصہ بنایا جاتا ہے
فرقوں کی ہم آہنگی کی بات تو ہر مسلمان کو لبھاتی ہے مگرکوئی بھی عملی
اقدام کرنے سے گریزاں دکھائی دینے والے مسلمان کیونکر نہیں اسٹینڈ لیتے؟جب
بات سر سے گزر جائے گی تو کیا ان کے ضمیرجاگیں گے؟، جب اب سازشی عناصر
سرگرم ہیں اور امن و امان کو تہس نہس کرنے کے لیے تیار ہیں تو ہمیں بھی اب
غفلت کی نیند سے جاگ جانا چاہیے اور ان دشمن قوتوں کو شٹ اپ کال دے دینی
چاہیے۔بھارتی ایجنٹس کا گلا گھونٹ کر انہیں ان کی کاروائیوں سے باز رکھا
گیا ہے بھارتی ہائی کمیشن اسلام آباد سے ’’را‘‘ کے 9 ایجنٹس دھر لیے گئے
اور انہیں واپس بھیج دیا گیا جو آفیشل اسٹاف میں چھپے ہوئے اپنی کارروائیوں
کو انجام تک پہنچانا چاہتے تھے اور انہیں واپس بھیج دیا گیا ، اسلام آباد
میں واقع ہائی کمیشن آف انڈیا اتنا سیکرٹ ہے کہ اس کے اندر کسی کو جانے کی
اجازت نہیں یہاں تک کہ پاکستان کے اقلیتی ایم این ایز جو ہندو ہیں انہیں
بھی اندر کی پروسیڈنگ دیکھنے کی اجازت نہیں یہ آفس اتنا پوشیدہ ہے کہ یہاں
چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ہائی کمیشن کے افسران کی صرف اپنی ہی پناہ گزینی
ہے اور یہ اس دفتر کو ایک کسی نئی اختراع کا رخ دیتی ہے۔ پس پردہ پلاننگ
مملکت خداداد پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے کے حوالے سے ترتیب دی جاتی ہے
اور گھناؤنے عناصر کی پشت پناہی کے لیے باقاعدہ اسٹریٹجی مرتب کی جاتی ہے
بھارت کے ساتھی بھی میدان میں کود پڑے ہیں اور بد حواسی کے ساتھ اپنی
کاروائیوں میں تیزی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ان میں ایک ملک ایسا ہے جس
پر سے حا ل ہی میں سینکشنس اٹھائی گئی ہیں اس سے پاکستان نے ہمیشہ اچھا
سلوک رواں رکھا حتیٰ کے اس سے معاہدات طے کر نے کی بات تک چل نکلی تھی مگر
اس ملک کے بعض بے امن دستے نہیں چاہتے کے پاکستان پُرا من ہوجائے لیکن اب
ان کا بھی ہمارے ادارے گھیراؤ کر چکے ہیں اور ان کے مذموم مقاصد کو ہرگز
پورا نہ ہونے دیں گے صد خیف کے یہ وہی ہے جو بھارت سے معاملات حل کرنے میں
ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔اب چونکہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں
پاکستان کا ’’ نو ڈائیلاگ ٹل کشمیر ایشو ریسولوز‘‘ والا موقف دھتکار کر
پاکستان کے وزیرخارجہ کو نمایاں ہونے ہی نہ دیا گیا سرتاج عزیز وطن لوٹ کر
متانت سے کہتے رہے کہ بھارت نے میزبانی کے اصول بھلا دیئے اچھا سلوک نہیں
کیا گیا ۔ احسان فروش افغانی صدر کو گولڈن ٹیمپل کا دورہ تک کرایا گیا گو
کہ کانفرنس افغانستان کے متعلق تھی پر دوسرے مسائل پاکستان سے واسطہ رکھتے
تھے مگر اسے شدید نظر انداز کیا گیا اور اشرف غنی پاکستان کے بارے میں ہرزہ
سرائی کرتے رہے بھارت کی لفظی معاونت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے انہیں یہ
بھولنا نہیں چاہیے کہ پاکستان نے افغانستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا
پریکٹیکل گراؤنڈز پر اس کی مدد کرنے کو ترجیح دی ہے۔ NDS کی تحریک طالبان
پاکستان سے ملاقاتیں کسی سے چھپی نہیں ہیں یہ باقاعدہ شدت پسندوں کو بریف
کرتی ہے جب سے ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک بکھرا اور وہ مختلف گروہوں کے اکھاڑے
میں نظر آئی تو اس کے سر پر افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے ہاتھ رکھا افغان
طالبان سے ان کے گٹھ جوڑ میں کام آتی رہی اور انہیں اسلحہ سے لیس کرنے میں
کام آئی۔ مودی کا مُکر جانا کوئی نیا نہیں وہ کچھ بھی کہہ کر اس پر قائم
نہیں رہتا جیسا کہ وہ اپنے ساتھ ملے ملکوں کو سہانے خواب دکھا رہا ہے کہ
بھارت ان کو کسی مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا حالات چاہے جیسے بھی ہوں وہ
ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا ان باتوں کے زیر اثر آکر پاکستان مخالف قوتوں میں
ایک ہیجان سا ہے کے کیسے اپنے ایجنڈے کو سہل کر سکیں اور پاکستان کو نقصان
پہنچا کر ثمرات حاصل کریں۔اس وقت ہمیں پاکستان کی بقا ء و سلامتی عزیز ترین
ہونی چاہیے اور متحد ہوکر اغیار کی مہلک خواہشات کو خاک میں ملانا ہے ہمیں
اپنی فارن پالیسی پر بے جا تبصرے نہیں کرنے چاہیے اپنی خامیوں کو سامنے
لانا چاہیے مگر مناسب وقت پر ابھی بطریق احسن ان تمام ملک مخالف قوتوں کو
للکارنا ہوگا اپنی غیور افواج کا مورال ہائی کر نا ہوگا ۔ سول ملٹری تعلقات
کی بحث سے باہر نکلنا ہوگا اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے بہترین اسٹانس
کو سامنے رکھتے ہوئے امن کے لیے اتصال کا ثبوت دینا ہوگا۔ |