سقوط ڈھاکہ 16دسمبر1971ء

 تحریر……عثمان اسماعیل سلفی(گوجرانوالہ)

چالیس لاکھ مربع میل پر سواچھ سو سال تک مسلسل قائم رہنے والی خلا فت ِ عثمانیہ کے زوال کے بعداہل کفر سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان دوبارہ کبھی محض ایک کلمے کی بنیاد پر اکٹھے ہوں گے، کیونکہ ۱۹۲۰ء میں وہ مسلمانوں کو ایک کلمے کی لڑی سے نکال کر قومیت ، لسانیت، اور قبائل کی بنیاد پر آپس میں تفریق کر چکے تھے، مگر قیامِ پاکستان نے ان کے تمام خیالات کو الٹا کے رکھ دیا، کیونکہ ان کے نزدیک قومیں قومیت کی بنیا د پر وجود میں آتی ہیں نہ کہ مذہب کی۔ مگر پھر سب نے دیکھا کہ قریبا ایک ہزار میل کی دوری کے باوجود ایک نظریہ ، ایک مقصد اور ایک ہی جذبہ دونوں طرف موجود تھا اور جذبے کی صورت سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ’’ پاکستا ن کا مطلب کیا‘‘ کا نعرہ لاہور سے لگتا ہے اور جواب میں ’’ لا الہ الا ﷲ‘‘ کی گونج ڈھاکہ میں سنائی دیتی ہے۔ جی ہاں ، وہی ڈھا کہ کہ جہاں ۱۹۰۶ ء میں مسلم لیگ کی بنیا د پڑی وہی ڈھاکہ کہ جہاں ۱۹۴۰ ء میں مولوی فضل حق نے ’’ قراردادِ پاکستان ‘‘ پیش کی ۔ مگر عالم ِ کفر کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ محض نظریے اور مذہب کی بنیاد پر ۱۰ لاکھ شہدا کی قربا نیوں سے دینا کے خطے پر کوئی نیا اسلامی ملک وجود میں آئے ، مگر یہ ہو اس نورِ خدابن کر ایک ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا ، جس کا نام ’’ پاکستان‘‘ رکھا گیا۔

مگر تاریخ کا طالبِ علم آج بھی اس سوال کی تلاش میں ہے کہ ۶۵ء میں اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو شکست دینے والا پاکستان محض ۶ سال کے وقفے سے ۱۹۷۱ء میں دو ٹکڑے کیسے ہو گیا؟ یوں تو اس کے اسباب کئی ایک ہیں ، کیونکہ اس سانحے میں غیروں کی عیاری کیساتھ ساتھ اپنوں کی غداری اور انا بھی شامل ہے، مگر پہلے ہم دشمن کے کردار کی بات کرتے ہیں۔

مشرقی پاکستان یعنی ’’ بنگال‘‘ میں آبادی کے اعتبار سے ۶ کروڑ مسلمان تھے ، تو ایک کروڑ ہندو بھی آباد تھے ۔ مزید یہ کہ مشرقی پاکستان کے ۱۳۰۰ نجی ہائی سکولوں اور ۴۷ فیصد نجی کالجوں میں سے ۹۵ فیصد سکول اور کالج ہندوؤں کی ملکیت تھے ، جن کے کمروں میں قائد اعظم کی جگہ گاندھی اور نہرو کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہو تی تھیں۔ان سکولوں اور کالجوں کے ہندو اساتذہ نے زبان سے لے کر کلچر اور تہذیب وتمدّن تک مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں خلیج پیداکرنے کا بھرپور کردار ادا کیا ۔ اور تاریخ کے مطالعے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے روزِ اوّل ہی سے مملکتِ اسلامی کو کمزور کرنے کی کوشش شروع کردی گئی تھی ۔اس کا ثبوت قیامِ پاکستان سے محض ۵ سال بعد تحریک ِ پاکستان کے سر کردہ رہنما ’’ حسین شہید سہروردی ‘‘ کے دورۂ بنگال سے بھی ملتا ہے ۔ ۱۹۵۲ء میں سہروردی صاحب پہلی مرتبہ ڈھاکہ گئے تو انہوں نے واپسی پر اپنے تا ثرات یوں بیان کیے :
’’ میں تو ڈھاکہ یونیورسٹی اور وہاں کے کالجز اور ہوسٹلزکے مسلمان طلباء کا رجحان دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر لرز اٹھا ہوں ۔مجھے ان کی باتوں سے علیحدگی پسندی کے جذبات کی جو خوفناک لہر ابھرتی نظر آئی ہے، اس نے مجھے فکر مند کردیا ہے ‘‘ ( دس پھول اور ایک کانٹا از خواجہ افتخار )

۱۹۵۲ء ہی میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزیر ’’ خواجہ ناظم الدین‘‘ نے جب اردو کے حق میں بیان دیا تو اس پر ڈھاکہ یونیورسٹی میں شدید فسادات ہوئے ، یہاں تک کہ اس حادثے میں کچھ طلبا جھڑپوں میں جان سے بھی چلے گئے ۔

ہندو اساتذہ کا بویا ہوا نفرت کا بیج اب رنگ دکھانے لگ گیا تھا ، حتی کہ خطے کے دیگر ممالک بھی ان حالا ت کو محسوس کر رہے تھے ، جس کا اظہا ر ۱۹۶۳ ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورۂ چین سے ملتا ہے ۔ قدرت اﷲ شہاب، جو کہ اس دورے میں ان کے ساتھ تھے، لکھتے ہیں :
’’ مسٹر بھٹو کیساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئی چئیر مین ماؤ نے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا
ٰIs East Pakistan tranquil?( کیا مشرقی پاکستان میں امن وامان ہے؟) اس زمانے میں مشرقی پاکستان میں بظاہر کسی خاص شورش کے آثار نمایا ں نہ تھے ۔ اس لیے چئیر مین ماؤ کا یہ سوال مجھے کسی قدر بے تک اور بے موقع وبے محل محسوس ہوا، لیکن اس کے بعد کئی دعوتوں اور استقبالیوں میں وزیرِ اعظم ’’ چو۔این۔لائی‘‘ اور وزیرِ خارجہ ’’ مارشل چن ژی‘‘ کے علاوہ دوسرے چینی اکابرین بھی اپنے اپنے انداز میں ہمیں مشرقی پاکستان کے متعلق خاص طور پر با خبر اور چوکنا رہنے کی فردا فردا تاکید کرتے رہے۔ ( شہاب نامہ، ص:۹۷۵)

مگر ۶۵ء کی ذلت آمیز شکست کے بعد دشمن اس بات کو بخوبی جان چکا تھا کہ وہ میدا ن میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا ، چنا نچہ ۶۵ء کی ذلت کا بدلہ چکانے کیلئے بھارت نے ۱۹۶۸ء میں بد نامِ زمانہ ایجنسی ’’ را‘‘ کو تشکیل دیا ۔ نفرت کا بیج تو ہندو اساتذہ بو چکے تھے ، مگر باقی سارا کچھ کرنے کیلئے اس ’’را‘‘ نامی تنظیم نے کام شروع کیا ۔ اس مشن میں ’’ را‘‘ کیساتھ اور کون کون تھا ، ان حقائق کا اعتراف روس کی خفیہ ایجنسی K.G.B کے سابق ڈائریکٹر ’’ یوری بیزمینوو‘‘ اپنے ایک انٹر ویو میں کر چکے ہیں ، یہ انٹر ویو آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:
’’ پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی مہم ’’ را‘‘،’’ K.G.B ‘‘اور’’ موساد‘‘ نے مل کر لڑی ، جس میں سب سے پہلے میڈیا ، اخبارات اور صحافیوں کو خریدا گیا ۔ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت میں سے خصوصی ٹاسک ہندو ٹیچر حضرات کے ذمّے لگایا گیا کہ وہ زبان کلچر ، تہذیب و تمدّن ومراعات کی تقسیم اور فوج کی تقسیم کے حوالے سے بنگالی طلبا کے ذہنو ں میں انتشار کو فروغ دیں۔ اسی طرح عسکری ٹریننگ کیمپوں میں’’ مکتی باھنی ‘‘ کو گوریلا ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کیا گیا اور ’’مکتی باھنی‘‘ تنظیم کے کمانڈرز کو ’’ماسکو‘‘ میں خصوصی تربیتی کورسز کروائے گئے ‘‘۔

سقوطِ ڈھاکہ کا دوسرا اَہم سبب سیاست دان:
یہ سازشوں کا دور تھا ۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی سیاست گرم تھی تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب بنگلہ بندھو بننے پر تُلا ہو اتھا۔ دشمن کی عیاری کے بعد ان دو اشخاص کی خطرناک سیاست نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ شیخ مجیب نے تو ۱۹۶۲ء سے سرحد پار بھارتی حکام سے سازباز کرلی تھی۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد بھی اس نے اپنے کئی دوستوں سے کہا تھا کہ :’’آزاد ہو نے کا ایک سنہری موقع ضائع ہو گیا ، اگر ہم جنگ سے ذرا پہلے بھارت سے رابطہ کرلیتے تو دورانِ جنگ علیحدگی کے منصوبے پر عمل ہو سکتا تھا ۔‘‘ ( سقوطِ بغداد سے سقوطِ ڈھاکہ تک ،ص: 470)
مزید یہ کہ جنوری ۱۹۶۸ء میں شیخ مجیب پر ’’ اگرتلہ سازش کیس‘‘ بھی بنا ۔ قدرت اﷲ شہاب اس بارے لکھتے ہیں :
’’ سازش میں شیخ مجیب کے علاوہ ۲۸ دیگر افراد ملوث تھے ، ان پر یہ الزام تھا کہ ڈھاکہ میں بھارتی سفارتی مشن کے فرسٹ سیکرٹری ’’پی۔ این۔ اوجھا‘‘ کے زیرِ اہتمام یہ لوگ ہندو ستانی عنا صر کے ساتھ ملکر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش میں مصروفِ عمل تھے۔ اس مقصد کیلئے ’’ اگرتلہ بھارت‘‘ میں ایک مرکز قائم کیا گیا تھا ، جہاں سے علیحدگی کی تحریک کو اسلحہ اور دوسرا تخریبی مواد فراہم کیا جا تا تھا ۔‘‘ ( شہاب نامہ ،ص: 1029)

اس کے باوجود شیخ مجیب کو راہِ راست پر لانے کیلئے صدر ایوب نے کافی ہاتھ پاؤں مارے مشرقی پاکستان کے گورنر ’’عبدالمنعم خاں‘‘ کی جگہ انہوں نے شیخ مجیب کے ایک پسندیدہ سیاستدان اور اقتصادی ماہر ڈاکٹر ’’ایم۔این ہدی‘‘ کو وہاں کا گورنر متعین کردیا ، مگر ۱۰ مارچ ،۱۹۶۹ء کو جب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا اجلاس ہوا تو مجیب نے اپنے بریف کیس میں سے کاغذوں کا ایک پلندہ نکال کر ایک طویل اور کسی قدربے ربط تقریر پڑھی، جس میں اس کے چھ نکات کاذکر تھا اور گفتگو کا انجام علیحدگی اور تخریب پر مبنی تھا ۔‘‘ ( شہاب نامہ،ص: 1046)

یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کی مجیب کی الیکشن مہم میں ہندوؤں نے بھر پور حصہ لیا ۔ ایک امریکی دانشور اور مصنف ’’ رش بروک ولیمز‘‘ لکھتاہے :
’’ مجیب کی اس قدر وسیع اور مہنگی الیکشن مہم کثیر سرمائے اور اخراجات کے بغیر ممکن نہ تھی اور یہ سرمایہ اس جماعت اور اس کے قائدین کو متمول ہندوؤں نے فراہم کیا تھا۔‘‘
( دی ایسٹ پاکستان ٹریجڈی،ص: 445)

مجیب پورے الیکشن کی مہم میں اپنی بنگالی عوام کو یہ دھو کا دیتارہا کہ دائیں دیکھو بائیں دیکھو میری قوم کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں ، مگر مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے ۔ چنا نچہ انتخابات کے نتائج میں مشرقی پاکستان میں مجیب کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی بازی لے گئی۔مگر مجیب کا بنگالی عوام کویہ کہنا کہ یہاں کا سرمایہ اسلام آباد منتقل ہو رہا ہے ، سراسر دھوکہ تھا ، بلکہ مشرقی پاکستان کی غربت کے پیچھے بھی ہندوؤں کا ہاتھ تھا ۔ جنرل ’’ فضل مقیم لکھتے ہیں:
’’ مشرقی پاکستان سے کثیر دولت بھارت بھیجی جاتی رہی، لیکن اسے روکنے کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا ۔ ۱۹۵۲ء میں سمگلنگ روکنے کیلئے فوج نے ’’آپریشن جوٹ‘‘ نام کی کاروائی کی ، ۱۹۶۰ء میں ’’آپریشن سروس فرسٹ ‘‘ اور ۱۹۵۷ء میں ’’آپریشن کلوزڈور‘‘ نامی کاروائیاں بھی ہوئیں۔ آخری کاروائی جو صرف ۲ ہفتے جاری رہی، اس میں ۱۰ کروڑ روپے کا سونا اورچاندی پکڑا گیا ۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سالانہ ۸۰ کروڑ روپے کا زرِ مبادلہ ہندو بھارت لیجا تے تھے ۔‘‘
( پاکستان کا المیہ۔۱۹۷۱ء)

دوسری طرف مغربی پاکستان میں بھٹو جوصدر ایوب کو کبھی ڈیڈی کہا کرتا تھا، اس نے صدر ایوب کو برملا بد عنوان اور کرپٹ ثابت کرنا شروع کردیا۔ الیکشن کے بعد ’’ادھر ہم اُدھر تُم‘‘ کا نعرہ ایسا تھا کہ جس نے متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔ دراصل بھٹو بنگالیوں سے شدید نفرت رکھتا تھا جس کی وجہ سے وہ بنگالیوں کو اقتدار میں حصہ دار نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس بڑھی ہوئی انانیت اور جارحانہ ہوس اقتدار کی وجہ سے بھٹو نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان افہام تفہیم کے ہرعمل میں رکاوٹ ڈالی۔

13 فروری 1971ء کو صدر یحییٰ نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 3مارچ کو ڈھاکہ میں منعقد ہوگا، مگر بھٹو نے کہا کہ جو رکن پارلیمنٹ مغربی پاکستان جائے گا اس کی ٹانگیں توڑدی جائیں گی۔19فروری 1971ء کو بھٹو نے خیبر سے کراچی تحریک چلانے کا اعلان کیا تو مجیب نے بھی 21 فروری کو6 نکات کے بغیر آئین ماننے سے انکار کردیا، گویا پورے ملک کے عوام کی جان سولی پر لٹکی تھی، مگر ان دونوں کو اقتدار کی ہوس تھی۔
چمن کو بیچا بہار لوٹی یہ گل کھلائے ہیں دوستوں نے
جلا کے گھر کو کیا چراغاں ستم یہ ڈھائے ہیں دوستوں نے
زمین بنگال پہ جو پہنچے تو دل سے اپنے صدا یہ آئی
ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی ہیں یہ دن دکھائے دوستوں نے

ادھر یحییٰ خان نے یکم مارچ 1971 ء کو قومی اسمبلی کے ڈھاکے میں ہونے والے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ اس اعلان کے محض آدھے گھنٹے بعد ہی بنگالی لاٹھیاں اور لوہے کی سلاخیں لے کر بازاروں میں نکل آئے اور پاکستان مخالف نعرے شروع ہوگئے۔ عوامی لیگ نے 7مارچ تک مسلسل ہڑتالوں کا اعلان کردیا۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں ہی ریلوے سروس اور پی ۔ آئی ۔اے کی پروازیں بند ہوگئیں۔ سیکرٹریٹ کے ملازم بھاگ گئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یکم مارچ سے 25 مارچ تک ایک لاکھ غیر بنگالی قتل کیے گئے۔

جس ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی اسی ڈھاکہ میں پاکستان کے پرچم کو اور بابائے قوم محمد علی جناح کی تصاویر کو سرِعام جلایا گیا۔ ڈھاکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر عوامی لیگ کے حکم سے بنگلہ دیش کا ترانہ بجا دیا گیا۔

لوگرا کے علاقے سانتا ہار میں 15 ہزار افراد کو گھیرے میں لے کر بے دردی سے مارا گیا۔ سراج گنج میں تین سو پچاس عورتوں اور بچوں کو ایک مکان میں بند کر کے زندہ جلا دیاگیا۔ چاٹگام میں 10 ہزار افراد کو جن میں سات سو پچاس عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، ایک جگہ جمع کر کے سنگینوں کے وارکرکے مارڈالا۔ جیسور، پنجالی دیناج پور میمن سنگھ ملہٹ نرسنگدی اور ٹنگاٹیل کے ہزاروں شہید جو سبز ہلالی پرچم کو آگ سے بچاتے گولیوں کا نشانہ بن گئے، جو جیپوں کے پیچھے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہے۔جن کی عورتوں کو برسربازار برہنہ کر کے گھمایا گیا، ماؤں کو انھی کے بچوں کا لہو پینے پر مجبور کیا گیا۔
کیا کہوں کس طرح سربازار
عصمتوں کے دیے بھجائے گئے
آہ وہ خلوتوں کے سرمائے
مجمعِ عام میں لٹائے گئے

مگر افسوس کہ یہ سب کچھ پاک فوج کے جوانوں پر ڈال دیاگیا، جبکہ مشرقی پاکستان میں پانچ لاکھ مکتی باہنی اور دو لاکھ انڈین آرمی کے مقابلے پر صرف پینتالیس ہزار آرمی کے جوان تھے، جنھوں نے انتہائی دلیری سے وطن کا دفاع کیا اس میں پاک آرمی کتنی قصور وار ہے، آخری دو اقتباس ملاحظہ فرمایے:
1971 ء میں انڈین آرمی چیف مانک شاہ کا سٹاف آفیسر برگیڈیئر دپندر سنگھ اپنی کتاب Soldiering with Dignity میں لکھتا ہے:
’’ہم نے مکتی باہنی کو تیار کیا جن میں کچھ کو ہم پاک فوج کی وردیاں پہنا کر مشرقی پاکستان کی لوٹ مار اور آبرو ریزی کا ٹاسک دے کر بھیجتے رہے، تاکہ بنگلہ دیش کے عوام میں پاک فوج کے خلاف نفرت بڑھے‘‘۔

بنگال ہی کی رہنے والی ایک ہندو خاتون مصنفہ شرمیلابوس اپنی کتا ب’’ ڈیڈ ریکنگ‘‘ میں لکھتی ہے:
گذشتہ نصف صدی میں ہوئی سب سے خونی جنگوں میں ایک داستان صرف فاتح فریق کی طرف سے بیان کی گئی ہے، آزادی کے لیے مرنے والوں نے پاکستانی فوج کا تاثر کسی خوفناک بلا جیسا بنا دیا ہے اور اس پر خوفناک الزامات عائد کیے ہیں جن کا کوئی بھی ثبوت نہیں۔ سب سے بڑا قتل تو یہ تھا کہ مکتی باہنی کی تمام تر قتل وغارت، آبرو ریزی اور لوٹ مار کو پاک فوج کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔چنانچہ اپنوں کی غداری اوردشمن کی مکاری سے 16دسمبر1971ء کومشرقی پاکستان ہم سے جداہوگیا۔
کیا کہوں کیسے سناؤں عجیب انوکھا سا حادثہ ہے
کھڑے کھڑے اپنے ہی وطن میں میرا وطن مجھ سے کھو گیا ہے
 
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 41168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.