28اکتوبر2016کی شب کرہ ارض کے کونے کونے
میں لٹتی پٹتی ‘زخموں سے چور اورغموں سے رنجور مسلم دنیانے سب سے بدترین
خبرسنی کہ یمنی حوثی باغیوں نے صوبہ صعدہ سے مکہ مکرمہ پرمیزائل
داغاہے۔حملے کے ساتھ ہی سعودی ذرائع ابلاغ نے فوجی ذرائع سے بتاناشروع کیا
کہ یہ بلیسٹک میزائل مکہ مکرمہ کی حدود سے65کلومیٹر دور تھاکہ اسے سعودی
فضائی دفاعی نظام نے دیکھ لیا اور پھر یہ نظام فوری حرکت میں آیا،میزائل
شکن سسٹم کی میزائل بیٹریوں سے جوابی پیڑیاٹ (Peteriot)میزائل فائر ہوا جس
نے حوثی باغیوں کے میزائل کو فضامیں ہی تباہ کردیا۔ اس سب کے بعد سعودی
فضائیہ نے سارے عمل کی ویڈیو جاری کردی۔ سعودی میڈیاکے ساتھ عرب اور افریقی
مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ سے اس خبر کاچرچا شروع ہوا،بیشترمسلم دنیا نے
شدید غم وغصے کااظہارشروع کیا تویمن کے حوثی باغیوں نے اپنے ترجمان
محمدالبخیتی کے توسط سے بادل نخواستہ بیان جاری کیا کہ ان کانشانہ بیت اﷲ
یامکہ مکرمہ نہیں تھا، انہوں نے تومکہ مکرمہ سے65 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع
جدہ کے شاہ عبدالعزیز ہوائی اڈے کونشانہ بنایاتھا۔
روئے زمین پر 1ارب 70کروڑ مسلمان اور مسلم دنیا کی تنظیم اوآئی سی کے
58ارکان کی موجودگی میں بھی کوئی ایسی دلفگاراورشنیع حرکت کرے گاکہ وہ یوں
مکہ مکرمہ میں بیت اﷲ پرمیزائل داغے اور اس کا وجود پھربھی دنیاپرموجود و
باقی رہے‘شاید یہ تواس سے پہلے سوچابھی نہیں جا سکتا تھا۔افسوس صدافسوس……!
کہ مسلم دنیااور اس کے پونے 2ارب ارکان اس قدربے حس و بے جان نکلے کہ
پاکستان کے محض دوٹی وی چینلز نے واقعہ کے بعد ٹِکرز (خبرکی
پٹیاں)چلاناشروع کیں لیکن تھوڑی ہی دیربعدوہ بھی غائب ہوگئیں، پھر وہ دن
اور آج کا دن…… کسی صحافی کی زبان سے اس بارے کوئی معمولی لفظ تک ادانہ
ہوا۔کیایہ سبھی لوگ مسلمان ہیں اور کیاان سب کا قبلہ وکعبہ وہی ہے جس کی
طرف میزائل داغا گیا ہے؟ حیرانی تو یہ ہے کہ اس حملے کی تصدیق آج کی اس
دنیا کے انسانوں کے مرکز واشنگٹن سے بھی ہوئی ۔پھربھی سب نے منہ میں
گھنگھنیاں ڈال رکھی ہیں۔پینٹاگون کی تصدیق کے بعد تو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ
کے ترجمان مارک ٹونرنے مذمتی بیان جاری کیا،البتہ اس امریکہ نے مسلم دنیا
اوراسلام وسعودی عرب کے ساتھ بغض و دشمنی میں اتنااضافہ ضرور کیاکہ’’ یمن
کامعاملہ جنگ نہیں ‘مذاکرات سے حل کیا جانا چاہئیے۔‘‘
کون نہیں جانتاکہ امریکہ سعودی عرب کے خلاف کیاکچھ کررہاہے۔ ورلڈٹریڈ سنٹر
کی تباہی کے 15سال بعدمقدمہ دائرکرنے اور کھربوں کے ہرجانے کی طلبی کے
قانون جاسٹاکی منظوری تازہ ترین مثال ہے امریکہ اب ہرطرح سے سعودی عرب کے
خلاف کھلے بندوں میدان میں اترا ہواہے ۔اس سب کے باوجود امریکہ اس میزائل
حملے کی تردید یا اس پرخاموشی اختیار کرنے کی بجائے اس کی مذمت
پرمجبورہوگیا۔اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ سعودی فضائی
دفاعی نظام نے جس پیٹریاٹ میزائل بیٹری‘ریڈار‘فضائی سیارے اور دیگرمشاہداتی
مشینری کے ذریعے حوثیوں کے میزائل کوتباہ کیاہے ‘وہ امریکہ سے ہی انتہائی
مہنگے داموں خریدا گیاہے اور اس کے تمام ترنقشے‘معلومات اورکام کی تفصیلات
کے ایک ایک حرف کا ریکارڈ امریکہ کے پاس ہوتاہے۔ جب امریکیوں نے اپنے اس
سسٹم سے نکلنے والے میزائل ‘اس کے نقشے اور دیگر تفصیلات کو سامنے رکھا
توانہیں بھی صاف دکھائی دیا کہ حوثیوں کے میزائل کااصل ہدف حرمِ مکی ہی
تھا۔سو امریکی اس سارے معاملے کی تردید کیاکرتے ‘ تصدیق کرنے اورساتھ ہی اس
کی مذمت پرمجبور ہوگئے کہ اب کوئی راستہ بچاہی نہیں تھا۔
امریکہ کے بعدیورپی ومغربی دنیا کے کسی ملک نے سوائے برطانیہ کے اس خبر کو
اس لیے اہمیت نہیں دی کہ ان کااس کے ساتھ کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا۔یہ وہی
امریکہ اور مغرب اور ان کا میڈیا ہے جو مکہ مکرمہ کے حوالے سے دلوں میں اس
قدرکینہ اور نفرت پالے ہوئے ہیں کہ انہوں نے آج تک سعودی عرب اورمسلم
دنیاکی جانب سے مکہ کے سپیلنگ Meccaکو Makkah کے ساتھ بدلنے کے اصرارکے
باوجود قطعی طورپر تبدیل نہیں کیا۔ کوئی30سال پہلے اوآئی سی نے مکہ کے لیے
انگریزی ہجےMeccaکو Makkah سے اس لیے تبدیل کیاتھاکہ اسی دنیانے اپنے ہاں
شراب خانوں اور بدکاری کے اڈوں کے نام Mecca رکھ لیے تھے اور یہ لفظ انہی
مقامات کے لیے آج بھی وہاں عام استعمال ہوتاہے۔سب کے سامنے ہے کہ دنیامیں
جہاں کہیں بھی کسی مقام کانام تبدیل کیاجاتاہے تو ساراعالم اسے فوری قبول
کرکے اس کو نئے نام اور سپیلنگ سے پکارناشروع کردیتا ہے۔ بھارت میں بمبئی
کو ممبئیاور بنگلور کو منگلورو بنانے تک وہاں مثالیں ہرروز سامنے آتی رہتی
ہیں ۔ بھارت میں مسلمانوں سے وابستہ نام خاص طورپر بدلے جاتے ہیں لیکن وہاں
کبھی کسی نے کوئی حیل وحجت نہیں کی۔ یہ تومسلم دنیاکے دشموں کی باتیں لیکن
حرم مکی پر میزائل حملے کے بعد جو بے حسی خود ہمارے ہاں دیکھنے کوملی‘اس نے
توزخموں پر نمک کاکرداراداکیا۔
2015کے ابتدامیں جب حوثی باغیوں نے یمنی دارالحکومت صنعاء کے بعد ساحلی شہر
عدن پربھی قبضہ کرکے وہاں سے بھی حکومت کو بھاگنے پرمجبور کردیا
تھاتوباغیوں نے کھل کر اعلان کیاتھا کہ وہ اگلے سال سعودی عرب پر قبضہ کرکے
حج بیت اﷲ سمیت تمام نظام اپنے قبضے میں لے لیں گے۔حوثی باغیوں کی یک لخت
ابھری طاقت اور بدمعاشی دیکھ کر ہی سعودی عرب نے یمن کی حکومت کو پہلے اپنے
ہاں جلاوطنی کی اجازت دی ‘وہیں عرب وافریقی مسلم ریاستیں ساتھ ملاکر عسکری
اتحاد تشکیل دیا۔اس کے بعد اقوام متحدہ سے منظوری لے کر جائز حکومت کی
درخواست پراس کی بحالی کے لیے فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔دنیاآج بھی حیران
ہے کہ یہ کیسی باغی تحریک تھی جس نے آناً فاناً ایک طاقتورحکومت کو شکست
فاش سے دوچار کردیا اور اس سے اس کاملک بھی چھین لیاتھا۔ یمن کی یہ حوثی
باغی تحریک توعرصہ دراز سے ملک کے پہاڑی علاقوں میں سرگرم تھی لیکن اس کی
طاقت اتنی کبھی نہیں رہی تھی کہ وہ پورے ملک توکجا‘کسی چھوٹے بڑے شہر
یاقصبے پر طاقت سے قبضہ جمالیتی۔ ان معمولی حیثیت کے باغیوں کو تومقامی
قبائل نے ہی اپنے طورپر کافی حدتک نتھ ڈال رکھی تھی۔عالمی تجزیہ کاراور
عسکری ماہرین حیران ہیں کہ حوثی باغی جن دورمار جدید ترین بلیسٹک میزائلوں
کا استعمال کررہے ہیں‘یہ میزائل تو یمن کی حکومت کے پاس بھی نہیں تھے کہ
باغیوں نے مرکزی حکومت پرقبضہ کے وقت انہیں بھی اپنے کنٹرول میں لے لیاہو
اور اب وہ انہیں استعمال کر رہے ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یمن کی حکومت کا
کوئی ایسادشمن ہی نہیں تھاجس کے لیے انہیں اس طرح کا اسلحہ اور سامان جنگ
درکارہوتا۔ مکہ مکرمہ پر حومیزائل حملہ سے پہلے حوثیوں نے بلیسٹک میزائل سے
ہی مکہ مکرمہ سے انتہائی نزدیک شہر طائف کے شاہ فہد ہوائی اڈے کونشانہ
بنایاتھا۔ اس میزائل حملے کی تصدیق بھی حوثیوں کے ساتھ سعودی عرب نے کی تھی
لیکن اس حملے پر سعودی عرب نے کسی خاص ردعمل کااظہارنہیں کیاتھا کیونکہ
نشانہ واقعی طائف کاہی تھا نہ کہ حرم مکی‘ حالانکہ طائف ہو یا جدہ یاوہ
علاقہ جہاں اس بار حوثیوں کے میزائل کوتباہ کیا گیا‘ سبھی اس مخصوص حدود
میقات میں آتے ہیں جہاں داخلے سے پہلے عازمین حج وعمرہ زمین پر ہوں یا
فضامیں‘احرام باندھ کے ہی آگے بڑھتے ہیں۔اسی میقات کی حدود میں واقع طائف
شہرپر حوثیوں نے پہلا میزائل داغا‘ ان کے اس حملے سے کوئی جانی نقصان یا
قابل ذکر تباہی نہ ہوئی کیونکہ میزائل ہدف سے تھوڑا ہی دور گراتھا۔
اس حملے پر سعودی عرب کی خاموشی سے فائدہ اٹھاکر اب کی بار حوثیوں نے روئے
زمین کے مرکز اور عالم اسلام کے قلب وجگر پر حملہ کردیا۔یہاں یہ بات بھی
قابل غور ہے کہ حوثی باغیوں نے اپنی وضاحت میں جس جدہ شہر اور اس کے شاہ
عبدالعزیز ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے اور نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ‘وہاں
سے بھی مکہ مکرمہ صرف 65 کلومیٹر دورہے اور میزائل کافضائی سفر ان کے دعوے
کے مطابق بھی مکہ مکرمہ کے قریب سے ہی گزرتا ہوا بنتا ہے۔ یعنی دستاویزی
ثبوتوں کے ساتھ ساتھ حوثیوں کی ہر تردید و وضاحت سے بھی یہ بات بخوبی عیاں
ہوتی ہے کہ ان کا اصل ہدف تومکہ مکرمہ ہی تھا جس کے بارے وہ مذموم ارادوں
کا کھلم کھلااظہار کرچکے ہیں۔
حوثی باغیوں نے خطے کی طاقتوں اور عالمی اسلام دشمن بدمعاشوں کی مدد و پشت
پناہی سے اب جنگ کو باقاعدہ طورپر سعودی عرب کی جانب دھکیلا ہے۔ سعودی عرب
پر بڑے بڑے سکڈ اور بلیسٹک میزائلوں سے حملے ہورہے ہیں اور سب خاموش
ہیں۔20نومبر2016ء کوسعودی عرب میں مسلم ممالک کی تنظیم اوآئی سی کااجلاس
منعقد ہوا جس میں ایک بارپھر اس قبیح ترین حرکت کی متفقہ مذمت کے ساتھ ساتھ
اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیاگیا۔ 70 سال سے مسلمانوں
کو ذبح کرنے کے قانونی جواز فراہم کرتی اقوام متحدہ کیاردعمل دکھاتی ہے‘
جلد ہی سامنے آجائے گا۔ |