وطن پاک کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں
کا کرادر انتہائی محدود رہا ہے۔ عمومی طور پر سیاسی جماعتیں بحالی جمہوریت
کی جدوجہد میں رہی ہیں یا اقتدار کیلئے کوشاں رہی ہیں۔ قومی تعمیر اور عوام
کی سیاسی تعلیم و تربیت سیاسی جماعتوں کا متمع نظر کبھی نہیں رہا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ پاکستان کی عوام ایک قوم نہیں بن سکی ہے۔ یعنی قومی مسلہ آج بھی
حل طلب ہے۔ لسانی اکائیوں کو قوم کے دائرے میں مدغم نہیں کیا جا سکا ہے۔
رابطے کی زبان اردو آج بھی ریاستی سرپرستی سے محروم ہے۔
باقی زبانیں جن میں چار بڑی صوبائی زبانیں پنجابی ، سندھی ، بلوچی اور پشتو
ہے کو قومی زبانیں قرار نہیں دیا گیا ہے۔ جس کے نتائج ہمیں لسانی عصبیت کی
شکل میں مل رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور دیگر قومی ادارے محض
ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہیں۔ کوئی ایک ادارہ ، کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی
نہیں ہے ۔ جو دوٹوک اور مضبوظ پالیسی اور پروگرام رکھتی ہے ۔ جس سے ریاستی
ڈھانچوں کی تشکیل نو ہو سکے اور پاکستان ایک مضبوط ریاست کے طور پر ابھر
سکے ۔ حل طلب مسائل کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی ۔ جیسے اردو کو قومی زبان
قرار دینا اور دفتری زبان بنانا، قومی مسلہ کا حل وغیرہ وغیرہ اور کہا گیا
تھا کہ ریاست وقت کے ساتھ ساتھ تمام مسائل پر قابو پائے گی۔ لیکن انتہائی
افسوس کا مقام ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج کے دن تک مسائل یوں کے توں
ہیں ۔ انگریزی آج بھی قابلیت کا معیار ہے ۔ پارلیمان اور ریاستی اداروں میں
انگریزی ہی پردھان ہے۔ غلامی کی تمام تر علامات کو وقار حاصل ہے۔ یہ ایک
معمولی سی جھلک ہے۔ ریاستوں کا قیام ، ریاستوں اور قوموں کی تعمیر خالصتاّ
سیاسی قوتوں کا کام ہے ۔ اگر پاکستان آج تک مسائل کا شکار ہے تو اس میں
سیاسی قوتوں کی ناکامی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سیاسی قوتوں کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا
ہے۔ آگے چلتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی واحد سیاسی قوت ہے ۔
جس کو ملک بھر سے عوامی اعتماد حاصل ہے۔ پی پی کے تنظیمی ڈھانچے کمزور سہی
لیکن ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی نے عوام اور ریاست کیلئے
نمایاں کام کیا ہے۔ مگر پاکستان کے حالات جس امر کا تقاضا کر تے ہیں ۔
پیپلزپارٹی سمیت کسی بھی جماعت کے پاس کوئی ایسا مربوط اور ٹھوس پروگرام
نہیں ہے۔جس سے بے روزگاری ، دہشت گردی ، قومی مسلہ جیسے مسائل کا ٹھوس حل
ممکن ہو۔ اصولی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ماہرین ،سائنسدان ،
ڈاکٹرز اور ماہر تعلیم کی اچھی ٹیم ہونی چاہیے جو ہر شعبہ میں بہتری لائے۔
جماعتی ڈھانچے سو فیصد ریاستی ڈھانچوں کا متبادل ہوں ۔ پارٹی کی شیڈو
کابینہ موجود ہو۔ اقتدار حاصل ہو تو پارٹی کا ہر کارکن ریاستی امور میں
اپنی صلاحیت کے مطابق خدمات انجام دے ۔ وارڈ کمیٹیوں سے لیکر پارٹی کے اعلیٰ
اداروں تک تعلیم یافتہ اور تربیت کارکن ریاست کا کاروبار چلائیں ۔ایسا تب
ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔ جب سیاسی جماعتوں کے اپنے ادارے مضبوط ہوں۔ اقتدار کی
دوڑ میں شامل جماعتوں کو سب سے پہلے جماعتی کارکنوں کی سیاسی تربیت کرنے کی
ضرورت ہے۔ اپنے سیاسی سکولوں کا انعقاد کریں۔ منشور اور پارٹی پروگرام کو
معروضی حالات کے مطابق مرتب کریں۔سب جانتے ہیں ۔ آج کی سیاسی جماعتوں کی
اندورنی صورتحال کیا ہے۔ پارٹیاں بدلنے کا رجحان ہے۔ چھوٹے چھوٹے مفادات پر
بڑے بڑے لیڈر فوری پارٹی تبدیل کرلیتے ہیں۔ نظریات ، پارٹی نظم مفقود ہے۔
سیاسی نعرے منافقت پر مبنی ہیں ۔ جس میں کوئی وعدہ ، کوئی پروگرام ، کوئی
امید نہیں پائی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی جو کبھی عوامی امید ہوا کرتی تھی ۔ وہ
بھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ چھوڑ کر روشن پاکستان کا راگ الاپ رہی ہے۔
ایک جانب تحریک انصاف ہے ۔ جو نیا پاکستان کی گردان کرتی ہے۔ جماعت اسلامی
کرپشن فری پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ کوئی لیڈر ،کوئی پارٹی بے روزگاری کے
خاتمہ ، عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور دہشت گردی کے خاتمہ کا نعرہ
کیوں نہیں دے رہی ہے۔صاف ظاہر ہے ۔ سیاسی جماعتیں بہت ساری کمزوریوں کا
شکار ہیں۔ پارٹی سربراہ کیلئے کارکنوں سمیت لیڈوں کو ساتھ جوڑ کے رکھنا
مشکل ہو رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی تو ریاست مضبوط ہو گی ۔ بہتر
ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپنے اپنے گربیانوں میں جھانکیں۔ |