جرمنی کے سابق وزیر خارجہ ہنسن ڈیٹرشن
گینشر جب اٹھارہ سال کے بعد 1992کے موسم بہار میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے
تو اس پر خا صی حیرت کا اظہار کیا گیا تھا لیکن ان کا یہ اقدام منطقی تھا
کیونکہ امن ،مفا ہمت ، اتحاد اور ہتھاروں پر کنٹرول کے متعلق ان کا مستند
نسخہ یورپ اور دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بے
معنی اور غیر موثر ہو چکا تھا 1990میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یورپی
عوام خاص طور سے موجودہ امن اور آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں امریکی صدر بش
بھی نئے عالمی نظام کی نوید دے چکے تھے۔
یورپ میں انقلابی تبدیلیوں کا عمل جاری تھا ۔خوشگوار حیرت کی بات یہ تھی کہ
یہ عمل کسی تنازعے کے بغیر پر امن طور پر آگے بڑھ رہا تھا ۔ اس کا اطلاق
خاص طور پر جرمنی پر ہوا ۔جس نے جرمنی کے دونوں حصوں کو دوبارہ متحد کرنے
کا مقصد حاصل کر لیا تھا ۔ اور اس سلسلے میں اسے اپنے پڑوسیوں اور پوری
عالمی برادری کا تعاون حاصل رہا ۔اتحاد کے بعد وسیع تر جرمنی ،حسب سابق
نیٹو اور یورپی برادری میں شامل رہا اور اس طرح اس نے نہ صرف اپنے مغربی
ساتھیوں بلکہ مشرقی یورپ کے پڑوسی ممالک کو بھی سیاسی تسلسل اور سلامتی کی
ضمانت مہیا کی ۔ اپریل 1990میں فرانس اور جرمنی نے مل کر سیاسی اتحاد کے
لیے مہم شروع کی (ایک دور بھی گزراتھا جب فرانس جرمنی کا سب سے بڑا دشمن
تھا )اور جرمن اتحاد کے خلاف روسیو ں کو اکساتا راہا اور کہتا رہا کہ دیوار
برلن توڑ کر غلطی نہ کی جائے ۔پھر جرمن اور فرانس کی مشترکہ کو ششو ں سے
دونوں ملکوں کے مشترکہ مفاد کی با وقار عکاسی ہوئی ۔ اس کے علاوہ جرمنی نے
سویت یونین سے 22معاہدوں کے سمجھتو توں کے ذریے اپنے اختلا فات دور کئے ۔
اور دونوں ملکوں کے درمیان مستحکم تعاون کے تعلقات کی بنیادرکھی ۔پولینڈ سے
اوڈر نیسی سرحدی تنازعہ نمٹایا۔ اس دوران وسطی اور مشرقی یورپ میں جمہوری
عمل پُر امن انداز میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ 9نومبر 1992میں سی ایس سی ای
یعنی یورپ میں سلامتی اور تعاون کی کانفرنس کے 34ملکوں کے سربراہان مملکت و
حکومت نے پریس منشورپر دستخط کئے ۔ یہ ایک عظم کام اور کامیابی کی علامت
سمجھاگیا ۔
جمہوری عمل کے لئے اپنی حمائت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ان 34ملکوں نے
دستاویز کے ذریئے اپنے مشترکہ عزم کا اظہار کیا کہ وہ انسانی اور بنیادی
حقوق کا احترام کرتے ہیں تاکہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر مبنی سماجی
نظام کو فروخ دیا جا سکے دستاویز میں کہا گیا کہ یہ دستاویز یورپ میں
پائیدار امن سیاسی نظام کی تعمیر کے لئے بنیادی حثیت رکھتی ہے اور یہ امن
سلامتی انصاف اور تعاون کی ضمانت مہیا کرتی ہے دستاویز میں اس بات سے اتفاق
کیا گیا کہ یورپ میں سلامتی تعاون کی کا نفرنس کے مقاصد کے حصول کے لئے
ادارے تشکیل دئے جائیں گے۔ یورپ میں امن اور سلامتی کے احکامات واضع ہونا
شروع ہو گئے اور آج یورپی ممالک آپس میں بجائے جنگ وجدل کے امن ترقی و
خوشحالی کی باتیں کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو عملی تعاون فراہم کرتے نظر آتے
ہیں ۔مشرق مغرب تنازعے پر جس کے بادل یورپ اور پوری دنیا پر چھائے رہے اب
ان پر قابوپایا جا چکا ہے۔آج جرمن کے روس امریکہ برطانیہ چین اور دیگر
ایشیائی ممالک سے گہرے تجارتی ،اخلاقی اور سیاسی اقتصادی تعلقات ہیں یورپی
اتحاد ،خوشحالی اور ترقی کے معاملات میں جرمنی پیش پیش ہے ۔نہ صرف ترقی
یافتہ بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ بھی مستحکم مراسم ہیں اور آج کے
دور میں جرمن سب سے آگے نظر آنے لگا ہے جرمن ایشیائی ممالک میں چھارہا ہے
اگر جرمن اس حد تک جا سکتا ہے جس کا عالمی جنگوں میں شیرازہ بکھر چکا تھا
۔ہر چیز زمین بوس ہو چکی تھی اخلاقی ، سیاسی معاشی طور پر برباد ہوچکا تھا
پڑوسی ممالک جرمن سے دور بھاگتے تھے فرانس کے صدر متراں نے جرمن کے خلاف
انتہائی منفی رویہ اپنا رکھا تھا اور وہ روس کو جرمن کے خلاف بھڑکاتا تھا
اب وہی جرمن ہر ملک کی آنکھ کا تارا ہے کیا پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش
اور افغانستان ایسا کردار ادا نہیں کرسکتے کیا وہ جرمن سے کچھ بھی نہیں
سیکھ پائے کیا وہ دہشت کے گر داب میں پھنس کر بربادی و تباہی کی علامت بنے
رہیں گے اگر جرمن جس نے پورے یورپ اور دنیا کو تباہی کی دلدل میں دھنسا
رکھا تھا آج پوری دنیا سے پیار اور محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے کیا ہم ایک
دوسرے کے دل میں گر نہیں کر سکتے کونسی ایسی بلائیں ، آفتیں اور چڑیلیں ہیں
جو ان ممالک کو امن سے رہنے نہیں دے رہیں تاریخ اپنے آپ کو بدلنا چاہتی ہے
لیکن ہم بدلنا نہیں چاہتے (سی پیک )کے منصوبے پر اگر اختلاف ہے تو بھارت
بڑا بھائی بن کر سب ممالک کو متحد کر کے تاریخ میں اپنا مقام بنائے یا پھر
چین کو بڑا بھائی سمجھ کر اسکی تقلید کرلیں یہ وقت بڑا اہم ہے اس موقعہ کو
گنوانے سے پرہیز کیا جائے جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا چین اس بات کو سمجھتا
ہے وہ چاہتا ہے کہ امن کے عمل کو کامیاب بنایا جائے اور مستقبل کو بہتر
بنانے کی تدابیر سوچی سمجھی جائیں جرمن جاپان جس نے دنیا کے امن کو پائمال
کیا تھا وہ تو سیدھے راستے پر لگ کر دنیا پر دوبارہ اقتصادی حکمرانی کرنے
لگے ہیں کیا ہمیں اپنے عوام کے بہتر اور خوشحال مستقبل کے لئے کچھ نہیں
کرنا ہے خدارا عقل کے ناخن لیں اس جدید دور میں امن کی بات کریں اﷲ کرے کہ
امریکہ کے نئے منتخب صدر رونلڈ ٹرمپ کو ہی غیرت آجائے کہ وہ حال کی کایا
پلٹ دے امن و آشتی اور خوشحالی کے لئے وہ ہی کچھ کر جائے۔ امریکیوں سے
اُمید تو نہیں جنہوں نے آج تک 5کڑور انسانوں کو قتل کیا ہے جس میں زیادہ تر
مسلمانوں کی تعداد بتائی جاتی ہے اُمید واثق ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ایسا
جمپ لگائیں گے کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے
کہ ٹرمپ کو سمجھنے میں وقت لگے گا لیکن وہ انتخابی مہم کے دوران جو نعرے
لگا چکے ہیں ان کو بھول کر انقلابی اقدامات اٹھا کے وہ مسلمانوں کے دل موہ
سکتے ہیں کشمیر اور فلسطین کو آزادی دلا کر ایسا کردیا تو ٹرمپ کو ہٹلر
کہنے والے دانتوں میں انگلیاں چبا لیں گے۔ |