ملکی ہی نہیں انسانی تاریخ کے سیاہ ترین دن
16 دسمبر 2014ء کا سورج طلوع ہوا ۔ کسے کیا خبر تھی کہ یہ دن ملک کی تاریخ
میں ایک اور سانحہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا ،یہ سورج طلوع ہوا تو اپنے
ساتھ ان گنت غم لے کر آیا، آرمی پبلک سکول پشاورپر دہشت گردوں کے حملے نے
پشاور کی سرزمین کے حساس دلوں ،معصوم پھولوں کو خون میں رنگ دیا تھا۔پشاور
کے آ رمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے 144 طلبہ
22اساتذہ اور پاک فوج کے تین جوانوں کی شہادت کا واقعہ آج بھی قوم کے ذہن
میں ہے اور اس کے زخم آج بھی اسی طرح تازہ ہیں۔ اس واقعہ کو دو سال ہو گئے
لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہو ۔
ہر صاحب دل پاکستانی 16دسمبرکو سانحہ مشرقی پاکستان کا سوچ کر اشکبار ہوتا
ہے ۔دوسال سے سانحہ پشاورکے ہونے سے دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ہوا یوں کہ
اس دن ساڑھے دس بجے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا ۔
دہشت گرد سکول کے پیچھے سے واقعہ قبرستان کے راستے سے دیواریں پھیلانگ کر
چھت کے ذریعے سے سکول میں داخل ہوئے تھے ۔دہشت گرد جس گاڑی پر آئے تھے
انہوں نے اس گاڑی کو آگ لگا دی تھی ۔انہوں نے سیکورٹی فورسزز کی وردیاں پہن
رکھی تھیں ،اور خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی اوروہ جدید اسلحہ سے بھی لیس تھے
۔یہ دہشت گرد جن کی تعداد سات بتائی گئی تھی ۔ان میں سے ایک دہشت گرد نے
ایک کلاس میں گھس کر خود کو دھماکہ سے اڑا لیا ۔جس سے بہت سے بچے ایک ساتھ
شہید ہو گئے ۔ سکول میں آٹھ سو سے زائد طلباء موجودتھے ۔
اس سانحہ کا علم ہونے پر تو سیکورٹی فورسزز نے فورا آپریشن شروع کر دیا ۔
آپریشن کے شروع ہوتے ہی دوسری جانب دہشت گرد وں نے معصوم بچو ں کو ایک ایک
کر کے گولیاں مارنی شروع کر دی ۔یہ سفاکی کی انتہا تھی ۔انسان اتنا درندہ
بھی بن سکتا ہے ۔تصور کریں تو لرز جائیں ۔اس واقعہ کو الفاظ میں بیان
کرناممکن نہیں ہے ۔
دہشت گردوں کے حملے کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔سارا
ملک سوگوار ہو گیا ۔ قوم سوگ میں ڈوب گئی، آنسوؤں سے روتی نظر آئی۔ گلی گلی
بچوں، بڑوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر
دیا ۔سکول پر دہشت گردوں کے حملے کاسن کر والدین سکول پہنچ گے۔ سارادن سکول
سے دھماکوں اورگولیاں چلنے کی آوازیں آتی رہیں ۔جس سے باہر کھڑے والدین
لرزتے رہے ۔اﷲ سے دعائیں کرتے رہے ۔ ہسپتالوں میں زخمی بچوں کو لایا جاتا
رہا۔ والدین اپنے بچوں کی تلاش میں روتے پھر رہے تھے۔ ان کو علم نہیں ہو
رہا تھا ان کے بچے کہاں ہیں۔ سکول میں ہیں یا ہسپتال ہیں۔ زندہ ہیں یا شہید
ہو گئے ہیں ۔ میرے پاس نا وہ زبان ہے ، نا ہی وہ الفاظ ہیں جن سے اس کرب کو
بیاں کیا جا سکے ۔ان سفاک درندوں کے لیے آرمی کے آ فیسر عاصم باجوہ نے
انسان دشمن ،اسلام دشمن اور پاکستان دشمن کا نام استعمال کیا تھا ۔
شہید پھولوں کی یہ داستان
سدا رہے گی علم ودانش کی پہچان
آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد ملک بھر کے اسکولوں کی سیکیورٹی کو
فول پروف بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں کی جانب سے انتہائی سخت انتظامات کیے
گئے ۔اور صرف ان اسکولوں کو (این او سی) جاری کئے گئے ،جنھوں نے سیکیورٹی
کے انتظامات مکمل کر لیے تھے ۔
آج بھی اسی طرح آرمی پبلک سکول میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے ۔اسکول کی
عمارت میں بہت ساری تبدیلیاں کرنے کے بعد سیکورٹی کے سخت انتظامات کر دئیے
گئے ہیں۔دہشت گردی کا نشانہ بننے والے آڈیٹوریم کی جگہ اسپورٹس کمپلیکس بنا
دیا گیا ہے ۔جبکہ اسکول میں شہید ہونے والے 144 طلبہ اور 22اساتذہ کی
تصاویر بھی یاد گا ر کے طور پر آویزاں کی گئی ہیں۔
ملکی ہی نہیں انسانی تاریخ کے سیاہ ترین دن 16 دسمبرکو گزرے دو سال ہو چکے
ہیں، یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ ان پیارے چھوٹے معصوم بچوں نے کیا کیا
تھا؟ آخر ان کا قصور کیا تھا؟اسلام کافروں کے بچوں کو مارنے کی بھی اجازت
نہیں دیتا ۔اور اس دن پورے دنیا نے پھول جیسے بچوں کے جنازے دیکھے جن کو بے
رحمی سے شہید کیا گیا ۔
شہدا ئے آرمی پبلک سکول کی یاد میں ملک بھر سرکاری وغیر سرکاری طور پر سکول
، کالج کے طلبہ اور اساتذہ شمعیں روشن کرتے ہیں اور خصوصی دعائیہ تقریبات
منعقد کی جاتی ہیں اور شہداء کے درجات کی بلندی اورمغفرت کی خصوصی دعائیں
کی جاتی ہیں اور شہداء کے خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
دو سال کا طویل عرصہ گزر گیا مگر ابھی تک شہید بچوں کے والدین کو انصاف نہ
مل سکا ۔ابھی تک اس سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاسکی؟
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ؟اور نا ہی جوڈیشل کمیشن تشکیل
دیا جاسکا ؟ان سوالوں کا جواب کس کے پاس ہے ؟کون دے انہیں انصاف ؟ کیا اسی
طرح ہر سال وہ پوری قوم سے اپنے پھول جیسے بچوں کے خون کا حساب مانگتے رہیں
گے ؟ آخر کب تک ؟آخر میں ہم سب شہدائے آرمی پبلک سکول کی عظمت کو سلام پیش
کرتے ہیں اور وطن عزیز کیلئے استحکام و سلامتی کے لئے دعا گو ہیں۔ |