ملکہ حسن اداکارہ رانی کی یاد میں !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
لاکھوں فلم بینوں کے دلوں کی دھڑکن اور سپنوں کی رانی
|
|
جن کی جاندار اداکاری سے سجی یادگار فلمیں
ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی !
رانی نے پاکستان کی بہترین کلاسک فلموں میں جاندار اداکاری کا مظاہرہ کرکے
دنیا بھرمیں پاکستان فلم انڈسٹری کانام روشن کیا
حتیٰ کہ بھارت میں بھی رانی کی کئی فلموں کا چربہ بنایا گیا!
تحریر : فرید اشر ف غازی
پاکستان فلم انڈسٹری میں اپنی شکل وصورت اور حسن وجمال کی وجہ سے مشہور
اورکامیاب ہونے والی فلمی ہیروئنز میں سب سے بڑا نام ملکہ حسن پری چہرہ
اداکارہ رانی کا ہے جنہوں نے اپنے حسن وجمال اور خداادا فنی صلاحیتوں کی
وجہ سے بہت کم وقت میں بڑا نام اور مقام پیدا کیا ۔حسن اور صلاحیت ایک جگہ
جمع ہوجائیں تو رنگ ونور کی دنیا جگمگا اٹھتی ہے اور ایسا ہی اداکارہ رانی
کے ساتھ بھی ہوا ،گوکہ رانی کو اپنے ابتدائی دور میں کامیابی اور شہرت حاصل
نہیں ہوئی اور شروع کی چند فلموں کی ناکامی کے بعد انہیں منحوس اداکارہ کا
خطاب بھی دیا گیا لیکن رانی نے ہمت نہیں ہاری اور فلموں میں اپنی جاندار
اداکاری اور عمدہ رقوص کی وجہ سے رفتہ رفتہ جگہ بناتی گئیں اور پھر وہ وقت
بھی آیا کہ رانی کا نام کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔
آغا حشر کاشمیری کی بیگم اوربرصغیر کی ممتاز اداکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور
رحمت کے لاہور میں واقع گھرمیں 8 دسمبر 1946 کوایک خوبصورت لڑکی نے جنم لیا
جس کا نام اس کے باپ نے’’ ناصرہ ‘‘رکھا ،نومولود بچی چونکہ بہت زیادہ
خوبصورت تھی لہذا مختار بیگم نے اپنے ڈرائیور سے ناصرہ کو گود لے لیا اور
پھر اس بچی کی تعلیم وتربیت اور پرورش کی ذمہ داری مختار بیگم نے خود
سنبھالی اور دنیاوی علوم کے ساتھ ناصرہ کو رقص کی بھی باقاعدہ تربیت دی
جانے لگی اور جب ناصرہ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو مختار بیگم نے اس
کا نام بدل کر ’’رانی ‘‘ رکھ دیا اور رقص کے ساتھ رانی کو اداکاری کے
اسرارورموز بھی سکھائے جانے لگے اور جب مختار بیگم نے دیکھا کہ رانی اب فن
اداکاری کے تمام ہتھیاروں سے لیس ہوگئی ہے تو انہوں نے رانی کو کامیاب فلم
میکر انورکمال پاشا سے ملوایا جنہوں نے رانی کے حسن وجمال اورفن اداکاری
میں دلچسپی اور مہارت کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنی فلم ’’محبوب‘‘ میں کاسٹ
کرلیا یہ فلم 1962 میں ریلیز ہوئی اور ہماری فلموں کو رانی کی شکل میں ایک
ایسی ماہر فن اداکارہ مل گئی جس نے آگے چل کر جو عروج اور شہرت حاصل کی وہ
بہت ہی کم فنکارو ں کو حاصل ہوتی ہے۔1962 پاکستان فلم انڈسٹری کے حوالے سے
وہ یادگار سال ہے جس کے دوران ہمیں اداکار وحیدمراد ،محمدعلی ،زیبا،مصطفی
قریشی اور رانی جیسے گوہر نایاب ملے جن کے فن کی روشنی سے آسمان فلم ایک
طویل عرصہ تک جگمگا تا رہا۔رانی کی پہلی فلم 1962 اور آخری فلم 1991 میں
ریلیز ہوئی یوں رانی کے حسن وفن کا سورج تقریباً31 سال تک اپنی روشنی سے
فلم انڈسٹری کو منور کرتا رہا۔رانی کے پہلے فلمی ہیرو آصف جاہ اور آخری
فلمی ہیرو غلام محی الدین تھے گوکہ اداکارہ رانی نے سب سے زیادہ اداکار
محمدعلی کے ساتھ کام کیا لیکن بطور ہیروئن انہیں سب سے زیادہ اداکار
وحیدمراد کے ساتھ پسند کیا گیا اور ان دونوں بے مثال فنکار وں کی کئی
مشترکہ فلموں نے کامیابی اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑے اور بڑی بڑی جوبلیاں
مناکر فلم میکرز کی تجوریوں کے منہ بھر دیئے ۔اس کے علاوہ اداکار شاہداور
ندیم کے ساتھ بھی رانی کی کئی فلموں نے شاندار کامیابی حاصل کی لیکن رانی
کو جو مثالی مقبولیت اور کامیابی وحیدمراد کی ہیروئن بن کر ملی کسی اور
فنکار کے ساتھ نہ مل سکی ۔
پاکستانی فلموں میں ایک بہترین ہیروئن کے طور پر عزت شہر ت اور دولت حاصل
کرنے والی پری چہرہ رانی نے اپنے آخری دور میں چند ٹی وی ڈراموں میں بھی
کام کیااور بڑی اسکرین کی طرح چھوٹی اسکرین پر بھی اپنی عمدہ کردارنگاری کی
وجہ سے بہت پسند کی گئیں ۔فنی زندگی میں ابتدائی ناکامی کے بعد بے انتہا
عروج حاصل کرنے والی ملکہ حسن اداکارہ رانی کی ازدواجی زندگی مسلسل اتار
چڑھاؤ کا شکار رہی انہوں نے تین شادیاں کیں لیکن سب ناکام ثابت ہوئیں
،فلمساز میاں جاوید قمر ،ہدایتکارحسن طارق اور کرکٹر سرفراز نواز کی منکوحہ
بننے کے باجودوہ ذہنی سکون حاصل نہ کرسکیں اور اپنے آخری دور میں بہت زیادہ
بیمار رہنے لگیں اور بالآخرکینسر جیسے موضی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے
27 مئی 1993 کو 47 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں اور یوں ہماری فلمی دنیا
ایک حسین و جمیل اور اعلی پائے کی فنکارہ سے محروم ہوگئی ،بہت سے لوگ ان کی
شاہکار فلمیں اور گانے دیکھ کرآج بھی ان کے فن کو داد دیتے ہوئے نظر آتے
ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لاکھوں فلم بینوں کی پسندیدہ ہیروئن اور سپنوں
کی رانی اداکارہ رانی نے اپنی شاہکار فلموں کی صورت میں فنکارانہ مہارت کے
وہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لیئے کافی
ہیں۔
ملکہ حسن اداکارہ رانی کی ازدواجی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ
بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ گھریلو معاملات خواہ کسی بھی نوعیت کے رہے
ہوں، انہیں فلمی دنیا میں جو عروج حاصل ہوا وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے
نامور ہدایتکار حسن طارق سے شادی کے بعد ہی ملا اور حسن طارق اور رانی ایک
دوسرے کے لیئے کافی خوش قسمت ثابت ہوئے یہی وجہ ہے کہ جس فلم کے ہدایتکار
حسن طارق اور ہیروئن رانی ہوتی وہ سپر ہٹ کامیابی حاصل کرتی تھی، ان دونو ں
کی مشترکہ سپر ہٹ فلموں میں خاص طور پر فلم ،دیور بھابھی ،انجمن،ناگ منی
،دیدار اورامراؤ جان اداوہ فلمیں ہیں جن کاشمار کلاسک فلموں میں کیا جاتا
ہے( واضح رہے کہ ان چار کلاسک فلموں میں سے تین فلموں کے ہیرو مقبول اداکار
وحیدمراد تھے) جبکہ ان فلموں کے علاوہ حسن طارق،رانی اور وحیدمراد کے مثلث
پر مشتمل تمام فلمیں بہت زیادہ پسند کی گئیں جن میں فلم دلربا،لیلیٰ
مجنوں،ناگ اور ناگن ،ثریا بھوپالی وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کاروباری طور پر
تو بہت زیادہ بزنس نہیں کیا لیکن لوگ ان فلموں کو آج بھی شوق سے دیکھتے
ہیں۔رانی نے اپنے 31 سالہ فلمی دور میں تقریباً175 فلموں میں اداکاری کی جن
میں سے بیشتر فلموں نے کامیابی حاصل کی۔رانی کی مشہور اور کامیاب فلموں کا
تذکرہ کیا جائے تواوپر کی سطو ر میں تحریر کردہ فلموں کے علاوہ فلم سیتا
مریم مارگریٹ،بہن بھائی (پرانی) ،آخری چٹان ،بہن بھائی (نئی)بہاروپھول
برساؤ،ایک تھی لڑکی ،شمع اور پروانہ،عورت راج ،ترانہ ،نذرانہ ،پرکھ ،وحشی
،تہذیب ،ایک گناہ اور سہی ،کالواور سونا چاندی جیسی ناقابل فراموش فلمیں
بھی شامل ہیں۔رانی کی پہلی کامیاب فلم شبنم تھی جبکہ ان کے آخری دور میں
کامیاب ہونے والی آخری فلم خون اور پانی تھی ۔
رانی نہ صرف اردوفلموں میں بہت کامیاب رہیں بلکہ انہوں نے پنجابی زبان کی
بھی کئی کامیاب فلموں میں بطور ہیروئن کام کرکے خود کو منوایا اور پھر آخری
زمانے میں انہوں نے ٹی وی کا رخ کیا تو یہاں بھی ڈراموں میں مرکزی نوعیت کے
کردار اداکرکے قدردانوں سے بھرپور داد حاصل کی ۔اداکارہ رانی کی فلموں کا
تزکرہ کیا جائے تو ان کے ساتھ وحیدمراد کانام خود ہی سامنے آجاتا ہے کہ ان
دونوں کی فلمی جوڑی کی کامیاب اور مشہور فلموں کی فہرست کافی طویل ہے جبکہ
ان دونوں فنکاروں میں بہت زیادہ میوچل انڈراسٹینڈنگ بھی تھی یہی وجہ تھی کہ
جب یہ دونوں خوبصورت اور پرکشش فنکار کسی فلم میں رومانس لڑاتے ہوئے نظر
آتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ حقیقت میں رومانس کررہے ہیں۔رانی اور
وحیدمراد کی مشترکہ فلموں میں ایک کامیاب فلم پرکھ بھی تھی جس کے ہدایتکار
جان محمد جمن تھے اس فلم میں وحیدمراد اور رانی کی اداکاری دیکھنے سے تعلق
رکھتی ہے۔فلم پرکھ کاایک گانا کراچی کے چڑیا گھرمیں بنے ہوئے شالیمار گارڈن
میں فلمایا گیا تھا جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ
ہدایتکار جان محمد جمن اپنی فلم پرکھ کے ایک گانے کی شوٹنگ کے لیئے سیٹ پر
اداکارہ رانی اور وحیدمراد کا بہت دیر سے انتظار کررہے ہیں لیکن وہ نہیں
آتے جس پر ہدایتکار کا موڈ خراب ہے کہ اچانک فلم پرکھ کی کہانی کے مطابق
فلم کے کردارجو کہ رانی اور وحیدمراد نے ہی ادا کیے تھے ،پولیس سے بچتے
بچاتے کراچی کے چڑیا گھر میں اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں جان محمد جمن حقیقی
وحیدمراد اور رانی کا انتظار کررہے ہوتے ہیں تو جیسے ہی فلمی کردار پولیس
سے چھپتے ہوئے یہاں آتے ہیں تو ہدایتکار انہیں سچ مچ کے اداکار وحیدمراد
اور رانی سمجھ کر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب آئے ہیں آپ چلیں اب
جلدی سے گانافلمایا میں کب سے آپ دونوں کا انتظار کررہا تھا اور یہ سنتے
ہیں وہ دونو ں غیر اختیاری طور پر گانے کے لیئے بنائی گئی سچویشن میں پر
داخل ہوجاتے ہیں اور میوزک اور گانا اسٹارٹ ہوتے ہیں اس پر اونگے بونگے
انداز میں ایکٹنگ کرنا شروع کردیتے ہیں جس پر ڈائریکٹر کافی حیران ہوتا ہے
کہ آج وحیدمراد اور رانی کو کیا ہوگیا ہے ۔ لیکن اس گانے کی سب سے خاص بات
ہی یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ فلم پرکھ کی کہانی کے مطابق وحیدمراد اور رانی
نے اناڑی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس اندا ز میں یہ گانا’’رانی او رانی
سپنوں کی رانی ‘‘ پکچرائز کروایا ہے وہ شاید یہ دونوں ہی فلمبند کرواسکتے
تھے یہی وجہ ہے کہ یہ فلمی گانا آج بھی زبان زد عام ہے اور بہت شوق سے سنا
اور دیکھا جاتا ہے۔
ملکہ حسن رانی مرحومہ کی کس کس خوبی کا تذکرہ کیا جائے کہ وہ فن اداکاری کا
ایک چلتا پھرتا انسٹی ٹیوٹ تھیں جنہوں نے پاکستان کی بہترین کلاسک فلموں
میں اپنی جاندار اداکاری سے چار چاند لگا کر ساری دنیا میں پاکستان فلم
انڈسٹری کانام روشن کیا حتیٰ کہ بھارت میں بھی رانی کی کئی فلموں کا چربہ
بنایا گیا اور ایک فلم امراؤ جان ادا میں رانی والا کردار بھارت کی نامور
اداکارہ ریکھا نے ادا کیا لیکن وہ رانی جیسی فطری اداکاری کرنے میں ناکام
نظر آئی ۔رانی کاشمار ہماری فلم انڈسٹری کی ان فنکاراؤں میں کیا جاتا ہے
جنہیں ہم بڑے فخر کے ساتھ کسی بھی ملک کی کسی بھی اعلیٰ پائے کی فنکارہ کے
مقابلے میں پیش کرسکتے تھے کہ فلمی کردار فن کی رانی اداکارہ رانی کے آگے
ہاتھ باندھے نظر آتے تھے اور وہ اس خوبی سے ہرطرح کے کردار نہایت آسانی سے
اداکیا کرتی تھیں کہ دیکھنے والے بے اختیار داد دینے پر مجبور ہوجاتے
تھے۔رانی کا تلفظ ،ڈائیلاگ ڈلیوی اورکردار کے لحاظ سے نشست وبرخاست سب کچھ
بہت پرفیکٹ تھا اور پھر سونے پر سہاگہ کے مصداق ان کو رقص پر بھی مکمل عبور
حاصل تھا جس کی وجہ سے وہ فلمی گانوں کی فلمبندی بھی بہت عمدہ انداز میں
کروایا کرتی تھیں، ان کے فن کی اسی انفرادیت کی بنا پرن کا نام اور کام آج
ان کے مرنے کے 23 سال بعد بھی زندہ ہے اور جب تک فن اور فنکار زندہ رہیں گے
رانی کانام ان کی شاہکار فلموں ،رقوص اور گانوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں
اور فلمی تاریخ کے صفحات میں زندہ رہے گا کہ رانی جیسی ہمہ صفت اور
باصلاحیت اداکارہ صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ،رانی کی شخصیت اور فنی کارکردگی
اتنی ہمہ جہت اور ہمہ صفت ہے کہ ان پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن
یہاں راقم نے نہایت اختصار کے ساتھ ان کے فن اور شخصیت کا احاطہ کرنے کی
کوشش کی ہے ۔آج جبکہ ان کو ہم سے جدا ہوئے ایک طویل عرصہ بیت گیا ہے لیکن
کوئی بھی دوسری اداکارہ ان کی جگہ نہیں لے سکی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ
رانی کا فن یکتا اور ناقابل فراموش تھا اور ان کے اس دار فانی سے کوچ
کرجانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ اب شاید کبھی پر نہیں ہوسکے گا۔آخر میں
ہم دعاگو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ رانی مرحومہ کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کے درجات
بلند فرمائے ۔(آمین) |
|