ماضی کی مقبول اداکارہ آسیہ(مرحومہ) کی یاد میں !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
جنہوں نے اپنے 10 سالہ فلمی دور میں28 اردو اور150 پنجابی فلموں میں تمام سپر اسٹارز کے ساتھ کام کیا اور 2 نگار ایوارڈ حاصل کیئے !
|
|
پاکستانی فلموں میں بہت کم ہیروئنز ایسی
گزری ہیں جنہوں نے اردو اور پنجابی زبان کی فلوں میں یکساں شہرت اور
کامیابی حاصل کی ہو ،ماضی کی مقبول اداکارہ آسیہ کاشمار بھی ایسی ہی
اداکاراؤں میں ہوتا ہے، انہوں نے فلموں میں آنے کے بعد اپنی فنکارانہ
صلاحیتوں کی وجہ سے بہت کم وقت میں اپنے مداحوں کا ایک وسیع حلقہ بنایااور
کئی سال تک اردو اور پنجابی فلموں کی کامیاب ہیروئن بنی رہیں۔آسیہ 1951 میں
بھارتی پنجاب میں پیدا ہوئی، بعد ازاں ان کاخاندان ہجرت کرکے پاکستان میں
آکر آباد ہوگیا۔آسیہ کا بچپن کراچی میں گزراان کو فلموں میں کام کرنے کا
شوق اسکول کے زمانے سے ہی تھا ا ور اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیئے وہ اکثر
ممتاز فلمی صحافی الیاس رشیدی کے پاس آ کر ان سے فلموں میں متعارف کروانے
کا کہتی رہتی تھی چنانچہ آسیہ کو پاکستانی فلموں میں بابائے فلمی صحافت
الیاس رشید ی مرحوم کی سفارش پر 1970 کے اوائل میں فلموں میں کاسٹ کیا گیا،
اداکارہ آسیہ کا اصلی نام فردوس تھا،ان کو سب سے پہلے انقلابی ہدایتکار
ریاض شاہدنے اپنی فلم’’غرناط‘‘ میں’’آسیہ ‘‘ کا فلمی نام دے کر ایک اداکارہ
کے طور پر متعارف کروایااور ابھی فلم غرناطہ بن ہی رہی تھی کہ معروف
ہدایتکار شباب کیرانوی نے آسیہ کو اپنی زیر تکمیل فلم ’’انسان اور آدمی ‘‘
میں محمد علی اور زیبا جیسے منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ کاسٹ کرلیا
فلم’’انسان اور آدمی ‘‘ میں آسیہ سے بہت اچھا کام لیاگیایہ ایک گولڈن جوبلی
ہٹ فلم تھیجس کی کامیابی کے بعد انہوں نے لولی ووڈ کی متعدد فلموں میں
لازوال کردار نبھائے ۔آسیہ کی پہلی فلم گوکہ غرناط تھی لیکن فلم انسان اور
آدمی ،غر ناطہ سے پہلے ریلیز ہوگئی ۔آسیہ کواپنے فلمی کیرئر میں دو فلموں
میں نگار ایوارڈ ملا اور سوئے اتفاق سے ان دونوں فلموں کے ہدایتکار حسن
عسکری تھے۔انہیں 1977 میں ہدایتکار حسن عسکری کی سپر ہٹ فلم’’قانون‘‘
اور1979 میں بھی ہدایتکار حسن عسکری کی فلم’’ آگ‘‘ میں عمدہ اداکاری کرنے
پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیاجبکہ آسیہ کے کریڈٹ پر بہت سی یادگار اور
شاندارکامیاب فلمیں موجود ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر
آسیہ شادی کے بعد فلمی دنیا کو چھوڑ کر نہ جاتی تو اس کی فلموں اور ایوارڈز
کی تعداد میں اچھا خاصہ اضافہ ہوجاتا لیکن چونکہ آسیہ نے اپنے عروج کے دور
میں ایک بزنس مین سے اچانک شادی کرکے شوبز کی دنیا کو خیرباد کہ دیا تھا
اور وہ پاکستان سے باہر جاکرکینڈا میں مقیم ہوگئی تھیں،جہاں وہ اپنے شو ہر
اور چار بچوں کے ہمراہ خوش وخرم ازدواجی زندگی گزار رہی تھیں اورکینڈا جانے
کے بعد انہوں نے لولی ووڈ سے اپنا رابط ہی ختم ہی کردیا تھا جس کی وجہ سے
فلم بین ایک پرکشش اور ماہر فن فلمی ہیروئن سے محروم ہوگئے تھے لیکن وہ
پرامید تھے کہ ایک دن آسیہ دوبارہ پاکستان واپس آکر فلموں میں کام شروع
کریں گی لیکن یہ امید اس وقت دم توڑگئی جب ان کی بیماری کی خبریں آنا شروع
ہوئیں ۔وہ انتقال سے چندسال قبل اپنے علاج کے لیئے پاکستان آئی تھیں اور
کچھ دنوں آغا خان ہسپتال میں زیرعلاج رہ کر خاموشی کے ساتھ واپس کینڈا چلی
گئی تھیں انہوں نے شادی کے بعد پھر کبھی شوبز کی دنیا میں واپس آنے کی کوشش
نہیں کی بلکہ انہوں نے لولی ووڈ سے اپنا رابط ہی منقطع کرلیا تھا۔ پاکستانی
فلموں میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے والی یہ خوش شکل اور اسمارٹ اداکارہ
بیماری سے مقابلہ نہ کرسکی اور بالآخر 9 مارچ 2013 کو62 سال کی عمر میں
کینڈا میں انتقال کرگئی۔انالﷲ وناالیہ راجعون۔۔۔
کینڈا میں اداکارہ آسیہ کے انتقال کرجانے کی افسوسناک خبر جب پاکستان پہنچی
تویہاں کے فلمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی کہ لولی ووڈ کی ایک اور مقبول
اور کامیاب اداکارہ بالکل غیرمتوقع طور پر اچانک داغ مفارقت دے کر اس جہان
فانی سے کوچ کرگئی اور یوں فن کی دنیا کا ایک اور ستارہ آسمان فلم سے ہمیشہ
کے لیئے غائب ہوگیاجس کی جگہ پھر کوئی دوسری فنکارہ نہیں لے سکی ،فلمی
حلقوں ،فلم بینوں اور خاص طور پر آسیہ کے مداحوں میں آج بھی اس کی کمی شدت
کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے اسی مناسبت سے راقم نے پرکشش اور باصلاحیت فنکارہ
آسیہ کے فن اور شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیئے یہ خصوصی آرٹیکل
تحریر کیا ہے تاکہ ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے ساتھ ان کے بارے میں اہم
معلومات قارئین تک پہنچائی جاسکیں کہ جولوگ آسیہ کے بارے میں زیادہ نہیں
جانتے انہیں بھی اس بے مثال فنکارہ کی فنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا علم
ہوسکے۔
آسیہ نے اپنے 10 سالہ فلمی کیرئر میں 28 ،اردو فلموں اورتقریباً 150 پنجابی
فلموں میں کام کیاجن میں سے اکثرفلمیں شاندار کامیابی سے ہمکنار
ہوئیں۔چونکہ ان کی پنجابی فلموں کی تعداد اردو فلموں سے زیادہ ہے اس لیئے
ان کو پنجابی فلموں کی ہیروئن ہی قراردیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اردو فلموں
میں وحیدمراد اور محمدعلی جیسے بڑے سپر اسٹارز کے ساتھ بھی بطور ہیروئن
سپرہٹ فلمیں دی ہیں جن میں خاص طور پر ہدایتکار اسلم ڈار کی کامیاب فلم
’’وعدہ‘‘ میں وحیدمراد کی ہیروئن بن کر اور ہدایتکار ایم اے رشید کی
شاہکارگولڈن جوبلی فلم’’ تم سلامت رہو‘‘ جس میں وحیدمراد اور محمدعلی دونوں
ہی ہیرو تھے، آسیہ نے اپنے وقت کے ان دو نوں کامیاب سپراسٹارز کی ہیروئن بن
کر جس شاندار پرفارمنس کا مظاہر ہ کیا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا
جاسکتا۔اداکارہ آسیہ کی آخری اردو فلم’’حسینہ مان جائے گی ‘‘ تھی جو1980
میں ریلیز ہوئی اس فلم کے ہدایتکار نذرالاسلام تھے جبکہ اداکارہ آسیہ کی
آخری پنجابی فلم ’’چن میرے ‘‘ تھی جو1991 میں ریلیز ہوئی۔
آسیہ کی مشہور اردوفلموں میں فلم’’وعدہ‘‘،تم سلامت رہو،محبوب میرا مستانہ
،پیار ہی پیار،انسان اور آدمی،سہرے کے پھول،دل اور دنیا ،روڈ ٹو سوات
،ایماندار،بڑے میاں دیوانے،پازیب ،میں بھی تو انسان ہوں اور بہت خوب جیسی
معیاری فلمیں شامل ہیں جبکہ آسیہ کی مشہور پنجابی فلموں میں فلم
’’جیرابلیڈ‘‘، جوگی، مولاجٹ، طوفان،شوکن میلے دی،چارخون دے پیاسے ،سستا خون
مہنگا پانی،وحشی گجر،وحشی جٹ،دورنگیلے،بدتمیز،نوکر ووہٹی دا،حشر نشر،بے
گناہ،ہاشو خان،سکندرا،یارمستانے،شہنشاہ،چترا تے شیرا،شیدا پستول،باغی تے
فرنگی،اج دابدمعاش،کلب ڈانسر،جگاگجر،ٹرک ڈرائیور،جوڑ توڑ دا بادشاہ،پتھر تے
موتی،جانوکپتی،لاہوری بادشاہ،چالان،پتر پھنے خان دا،ہمت ،مقابلہ ،شیر
ببر،جشن،گوگا،دودوست،موت کھیڈ جواناں دی،غلام ،نواب زادہ،رستم،غنڈہ
ایکٹ،للکارہ،خون تے قنون،جٹ ان لندن اور ہتکھڑی اور چن میرے جیسی مقبول
فلمیں شامل ہیں جن میں خوش شکل اداکارہ آسیہ نے پنجابی فلموں میں ہیرو آنے
والے تقریباًً تمام مشہور اداکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں سلطان
راہی،مصطفی قریشی، یوسف خان ،اسدبخاری ،وحیدمراد،منور ظریف،رنگیلا،اقبال
حسن ،کیفی،ندیم ،شاہد اورکئی دیگر فنکار شامل ہیں ۔اداکارہ آسیہ نے 1974
میں ایک فلم’’پیار ہی پیار‘‘ بطور فلمساز بنائی جس میں انہوں نے اپنے ساتھ
ہیرو کے کردار کے لیئے اپنے پسندیدہ اداکار وحیدمراد کا انتخاب کیا۔1970
سے1980 کا دور ان کے عروج کا دورتھا اس زمانے میں بننے والی ہر دوسری فلم
کی کاسٹ میں آسیہ کانام شامل ہوتا تھا۔آسیہ نے اپنے فلمی کیرئرمیں کل179
فلموں میں کام کیاجن میں سے بیشتر فلمیں کامیاب رہیں۔پنجابی فلموں میں ان
کی فلمی جوڑی کو سب سے زیادہ سلطان راہی کے ساتھ پسند کیا گیا اور ان دونوں
کی بیشتر مشترکہ فلموں نے شاندار کامیابی حاصل کی جبکہ اردو فلموں میں ان
کو سب سے زیادہ اداکار وحیدمراد کے ساتھ پسند کیا گیا ان دونوں کی مشترکہ
فلموں کی تعداد 5 ہے جن میں ایک پنجابی اور چار اردو فلمیں شامل ہیں۔آسیہ
پر اردو اور پنجابی فلموں میں جو گانے پکچرائز کیئے گئے ان میں سے اکثر بے
پناہ مقبول ہوئے جن میں میڈم نورجہاں اور مہ ناز کے گائے ہوئے گیت آج بھی
زبان زد عام ہیں اور بہت شوق سے سنے جاتے ہیں جن میں خاص طور پر فلم
’’وعدہ‘‘ کا گانا ’’ایک لڑکا دیوانہ بن کر میرا پروانہ ‘‘اور فلم ’’دل اور
دنیا‘‘ کا گانا ’’چمپا یہ چنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی‘‘وہ ناقابل فراموش
گانے ہیں جو آج برسوں بعد بھی اسی طرح مقبول ہیں کہ ہر گلی کوچے میں سنے
جاتے ہیں اور سدا بہاراسٹریٹ سونگز کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔
آسیہ نے کئی سال قبل اپنے عروج کے دور میں ایک بزنس مین سے اچانک شادی کرکے
شوبز کی دنیا چھوڑ دی تھی اور وہ پاکستان سے باہر جاکرکینڈا میں مقیم ہوگئی
تھیں جہاں وہ اپنے شو ہر اور چار بچوں کے ہمراہ خوش وخرم ازدواجی زندگی
گزار رہی تھیں کہ گزشتہ دنوں ان کی بیماری کی خبریں آنا شروع ہوئیں ۔وہ
تقریباًً 2 سال قبل اپنے علاج کے لیئے پاکستان آئی تھیں اور کچھ دنوں آغا
خان ہسپتال میں زیرعلاج رہ کر خاموشی کے ساتھ واپس کینڈا چلی تھی تھیں
انہوں نے شادی کے بعد پھر کبھی شوبز کی دنیا میں واپس آنے کی کوشش نہیں کی
بلکہ انہوں نے لولی ووڈ سے اپنا رابط ہی منقطع کرلیا تھا۔ پاکستانی فلموں
میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے والی یہ خوش شکل اور اسمارٹ اداکارہ بیماری
سے مقابلہ نہ کرسکی اور بالآخر 9 مارچ 2013 کو62 سال کی عمر میں کینڈا میں
انتقال کرگئی۔انالﷲ وناالیہ راجعون۔۔۔کینڈا میں اداکارہ آسیہ کے انتقال
کرجانے کی افسوسناک خبر جب پاکستان پہنچی تویہاں کے فلمی حلقوں میں صف ماتم
بچھ گئی کہ لولی ووڈ کی ایک اور مقبول اور کامیاب اداکارہ بالکل غیرمتوقع
طور پر اچانک داغ مفارقت دے کر اس جہان فانی سے کوچ کرگئی اور یوں فن کی
دنیا کا ایک اور ستارہ آسمان فلم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے غائب ہوگیا۔
فلمی دنیا کے مشہور ہدایتکاروں اور فنکاروں نے اداکارہ آسیہ کے اچانک
انتقال کرجانے پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے جن شاندار الفاظ میں اس
بے مثال فنکارہ کی فنی صلاحیتوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ ادکارہ آسیہ
کے فن و شخصیت کی ہردلعزیزی اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جنہیں
قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کے پیش نظر ذیل میں درج کیا جارہا
ہے۔
ہدایتکار اسلم ڈار نے کہا کہ:’’مجھے آسیہ کے انتقال کا بہت افسوس ہوا وہ
ایک وقت کی پابند اداکارہ تھی جس نے اپنے فلمی کیرئیر کے دوران کبھی کسی
ہدایتکار کو شکایت کا موقع نہیں دیا اور سلطان راہی کی طرح اداکارہ آسیہ
بھی ایک انتھک اداکارہ تھی وہ جب تک فلم انڈسٹری میں رہی اس نے اپنی
فنکارانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہر ہ کیا اور بہت سے فلمی کرداروں میں اپنی
اداکاری سے جان ڈالی وہ ایک بہترین اداکارہ تھی جس نے میری بھی کئی فلموں
میں کام کیا جن میں فلم’’انوکھا داج‘‘،بڑے میاں دیوانے اور گوگا شامل
ہیں‘‘۔
ہدایتکار حسن عسکری نے کہا کہ:’’آسیہ بہت حساس فنکارہ تھی اس کی کوشش ہوتی
تھی کہ اس کی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچے میری بھی ایک دوفلموں میں آسیہ
نے کام کیااور میں نے اس کو اپنے کام سے مخلص پایا،جن دنوں آسیہ نے فلم
انڈسٹری چھوڑی ان دنوں میری اس کے ساتھ ایک فلم’’آگ‘‘ زیرتکمیل تھی جس میں
اس کا کچھ کام باقی رہ گیا تھا جسے اس نے خاص طور پر وطن واپس آکر مکمل
کروایااور مجھے نقصان سے بچا لیا‘‘۔
ہدایتکار الطاف حسین نے کہا کہ:’’آسیہ ایک بہت محنتی اداکارہ تھی جو ہمیشہ
اپنے ہدایتکاروں کی توققات پر پورا اترتی تھی اس نے میری بھی کئی فلموں میں
کام کیاجن میں فلم’’چارخون دے پیاسے،دس نمبری اور اتھرا پتر شامل ہیں جن
میں آسیہ نے عمدہ کردار نگاری کی ہے‘‘۔
ہدایتکار و مصنف پرویز کلیم نے کہا کہ:’’اداکارہ آسیہ نے پاکستان فلم
انڈسٹری کی مقبولیت اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بطور ہیروئن
کئی فلموں میں ایساعمدہ کام کیا کہ اس کی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کی
جاسکتی ‘‘۔
ہدایتکارہ و اداکارہ سنگیتا نے کہا کہ:’’میری اداکارہ آسیہ سے بہت اچھی
دوستی تھی لیکن ہم دونوں نے ایک ساتھ بہت کم کام کیا مگر اسٹوڈیو کی چہار
دیواری میں ہم لوگ اکٹھے ہی ہوا کرتے تھے ،وہ بہت سلجھی ہوئی،ملنسار اور
وقت کی پابند اداکارہ تھی۔شادی کے بعد وہ امریکہ چلی گئی تھی جہاں میری بہن
کویتا کے گھر کے قریب ہی اس کا گھر تھا میں جب امریکہ گئی تو اس کے گھر بھی
گئی تھی جہاں آسیہ نے مجھے دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا تھا۔پھر کچھ عرصہ
بعد مجھے اپنی بہن کویتا کے ذریعے ہی پتہ چلا کہ اسے کینسر ہوگیا ہے اور
پھر 9 مارچ 2013 میں اس کے انتقال کی خبر آگئی اﷲ اس کو غریق رحمت کرے‘‘۔
ہدایتکار جاوید سجاد نے کہا کہ:’’آسیہ بلاشبہ ایک بڑی فنکار ہ تھی او رجب
وہ رنگیلا پروڈکشن میں کام کرتے تھے تو انہیں فلمساز،ہدایتکار اور اداکار
رنگیلا کی فلم’’دل اور دنیا‘‘کی شوٹنگ کے دوران آسیہ کے ساتھ کام کرنے کا
موقع ملااور میں نے دیکھا کہ وہ اپنے کام کے ساتھ مخلص اور وقت کی پابند
اداکارہ تھی‘‘۔
مشہور اداکار مصطفی قریشی نے کہا کہ:’’آسیہ نے جب فلموں میں قدم رکھا تو وہ
پاکستان فلم انڈسٹری کا سنہرا دورتھا اور ہماری فلمیں اس زمانے میں بہت
اچھا بزنس کرتی تھیں ،آسیہ آئی اور چھا گئی ،اور چونکہ وہ ایک خوش شکل اور
اسمارٹ اداکارہ تھی اس لیئے جب وہ کامیاب ہوئی تو وہ نئی اداکاراؤں کی
آئیڈیل بن گئی اور بعد میں آنے والی کئی نئی اداکاراؤں نے اس کے اسٹائل کو
اپنایا،میں یہ سمجھتا ہوں کہ آسیہ ایک خوش قسمت اداکارہ تھی جس نے فلم
انڈسٹری کے عروج کے زمانے میں اداکاری کا پیشہ اپنایا،میں نے کئی فلموں میں
آسیہ کے ساتھ کام کیا وہ بہت بااخلاق اور باصلاحیت اداکارہ تھی جس کی فلم
’’مولاجٹ‘‘ ایک شاہکار فلم تھی۔ایک اعلیٰ ہیروئن میں جو اوصاف ہونے چاہیں
وہ سب ان کے اندر موجود تھے‘‘۔
ماضی کی مقبول اداکارہ بابرہ شریف نے کہاکہ:’’مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا
کہ ہماری فلمی دنیا کی ایک بہترین اداکارہ آسیہ اچانک انتقال کرگئی ہے، وہ
اپنے فن میں یکتا ایک بے مثل اداکارہ تھی جس کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے
گی‘‘۔
ماضی کی مشہور اداکارہ بہار نے کہا کہ:’’آسیہ بڑی اچھی اداکارہ تھی اس نے
ہمارے ساتھ ایک عرصہ گزارامیں نے اسے ہمیشہ باادب پایا وہ بڑوں کا احترام
کرنا جانتی تھی،آسیہ اپنے زمانے کی کامیاب اور مقبول ہیروئن تھی لیکن اس
میں غرور و تکبرنام کی کوئی چیز نہیں تھی اس نے بہت عروج حاصل کیا لیکن وہ
اپنے سے سینئرفنکاروں کا ہمیشہ احترام کرتی تھی‘‘۔
مشہور اداکارہ انجمن نے کہا کہ:’’وہ پاکستانی فلموں کی پہلی ہیروئن تھی جس
نے فلم ’’مولاجٹ‘‘ میں پنجابی جٹی کا کردار اس مہارت سے ادا کیا کہ ہر
پنجابی فلم کی جٹی آسیہ کے اسٹائل کو ہی Follow کرنے لگی ۔پنجابی فلموں کی
چوہدرانی اور جٹی کے کرداروں کے لیئے آسیہ سے زیادہ موزوں اور کوئی اداکارہ
نہیں تھی اس طرح کے کردار اس پر خوب جچتے تھے۔وہ میری بہت اچھی دوست بھی
تھی اور اکثر لوگ ہم دونو ں کو دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ ہم دونوں آپس
میں بہنوں جیسی دکھتی ہیں۔اس کی یادیں بھلانا آسان نہیں‘‘۔
ماضی کی مقبول اداکارہ آسیہ کا انتقال کرجانا فلمی حلقوں کے لیئے کتنی بری
خبر تھی اس کا اندازہ نامور فنکاروں کے آسیہ کے بارے میں تاثرات سے بہ خوبی
لگایا جاسکتا ہے۔ آسیہ جیسی خوبصورت اور باصلاحیت فنکارہ کے انتقال سے جہاں
فن کی دنیا سونی اور سوگوار ہوئی وہاں فلم بین بھی ایک بہترین اداکارہ سے
محروم ہوگئے ۔ راقم کی دعا ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ آسیہ مرحومہ کی مغفرت کرتے
ہوئے انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے (آمین) |
|