سیاسی زلزلے

سال۲۰۱۶ء میں جہاں ہمیں دنیامیں بہت سے صدمات دیکھنے کوملے ہیں وہاں اسی سال اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ڈرامائی انتخابی مشقیں بھی ان کے حصے میں آئی ہیں۔ اول بریگزٹ: ریفرنڈم جس میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا اور اب امریکا کے صدارتی انتخابات میں امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو قصرسفیدمیں پہنچا دیاجس کی کسی کوقطعاتوقع نہ تھی۔جون۲۰۱۶ء میں منعقدہ بریگزٹ ووٹ کے مضمرات وعواقب ابھی تک غیرواضح ہیں اورٹرمپ کی جیت کے جائزے میں برسوں نہیں تومہینوں ضرورلگیں گے۔ ان دوصورتوں کااگرزیادہ باریک بینی سے جائزہ لیاجاتا ہے تو ان کے مضمرات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ بہت سے لوگ ان دونوں زلزلوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ ابھی محض ایک کوشش ہی ہے۔سیاسی ریکٹر اسکیل پر یہ دونوں ایسے زلزلے تھے جن سے ووٹ ڈالنے والوں کی سبکی ہوئی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دونوں مزاحمتی مہمات ایک حقیقی سیاسی منصوبے کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ یہ دراصل موجودہ سیاسی آرڈر کا بڑے پیمانے پر استرداد ہے، جہاں مہارت اور حقائق کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی ہے اور انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ امید کی ایک کرن یہ ہے کہ ان دونوں انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی اکثریت نے ووٹ نہیں دیا ہے اور یہ کوئی نوجوانوں کا انقلاب نہیں تھا۔

البتہ قابل تشویش پہلویہ ہے کہ ان دونوں مہموں نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ دونوں قومیں کس قدر منقسم اور بٹی ہوئی ہیں۔ اس معاملے میں یہ دونوں ممالک اکیلے نہیں ہیں۔ آئندہ ماہ آسٹریا کے صدر کے انتخاب کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت فریڈم پارٹی کے نوربرٹ ہوفر شاید جیت جائیں گے۔ آئندہ سال فرانس کے صدارتی انتخابات میں میرین لی پین کی جیت کے امکان کوکون مسترد کرسکتا ہے؟ یورپ کے جمہوری کلچر کو ایک تاریخی چیلنج درپیش ہوگا۔دونوں انتخابات میں مضحکہ خیز نعرے لگائے گئے تھے۔ مثلا کنٹرول واپس لیں اور امریکیوں کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنائیں۔ ٹرمپ نے بذاتِ خود بریگزٹ سے آگے بڑھنے کا غلغلہ بلند کیا اور وہ بریگزٹ پلس، پلس، پلس کے نعرے بلند کرتے رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں مایوس ووٹروں نے منفی راستے کاانتخاب کیا،موجودہ نظام کومستردکیااورانھوں نے یہ سب کچھ مکمل طورپرایک غیرواضح راستے کے حق میں کیا۔

طبقہ اشرافیہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ بریگزٹ کے صف اوّل کے حمایتی بورس جانسن بھی شاید مشکل ہی سے جانتے ہوں گے کہ اس کامطلب کیاہے۔ برطانوی حکومت ابھی تک اس سے آگاہ نہیں۔ ٹرمپ کے پالیسی بیانات عام طورپرایک سو چالیس الفاظ یا اس سے بھی کم پرمشتمل ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک اہم عہدوں کے سوا یقین سے کوئی نہیں جانتا کہ صدر ٹرمپ کیا کریں گے۔ بالکل ہماری طرح کوئی نہیں جانتا کہ بریگزٹ برطانیہ کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہوگا۔تعصب، نفرت اور نسل پرستی ان دونوں مہمات اور خاص طور پر ٹرمپ کی مہم میں ایک ایندھن کے طور پر کام کررہے تھے۔ اب نسل پرستی ایک انتخابی اثاثہ ٹھہرا ہے۔ برطانیہ میں اگرچہ بریگزٹ مہم نے مہاجرین، تارکین وطن اور مسلم مخالف جذبات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس نے ٹرمپ کی ریلیوں کی گیرائی اور گہرائی کو سمجھنے کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔ٹرمپ نے جان بوجھ کر اور کھلے عام منافرت، نسل پرستی اور صنفی فاشسٹ پر مبنی مہم چلائی اور ایسی مہم تو شاید ہی کسی جمہوری قوم نے دیکھی ہوگی اگرچہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں اور انھوں نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ نفرت اور تقسیم کی بنیاد پر افسوسناک انداز میں انتخابات تو جیت سکتے ہیں لیکن وہ اتفاق رائے اور اتحاد کے ساتھ ہی ملک کا نظم ونسق چلا سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ہر جگہ دائیں بازو کے انتہا پسند ڈیوڈ ڈیوک سے گیرٹ وائیلڈرز، نیجل فراج اور وکٹر اوربن تک ٹرمپ کی جیت پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ اس سے لبرل اقدار اور انسانی حقوق کے دور کا آغاز ہوگا۔ بہت سے لبرلز نے نسل پرستی اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے جو تاریخی جدوجہد کی تھی، وہ اب عشروں پیچھے چلی گئی ہے۔اس سے امریکا، برطانیہ اور جن دوسرے ممالک میں دائیں بازو کے احیا ء کا تجربہ ہورہا ہے، ان کے معاشروں میں عدم تفاوت اور تفریق بھی نمایاں ہو گئی ہے۔ ان اختلافات کا باآسانی ازالہ نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹرمپ کو منتخب ہونے کے لیے ان اختلافات کو منظرعام پر لانے کی ضرورت تھی لیکن اب انہیں ملک چلانے کے لیے ان میں سے بعض کا ازالہ کرنا ہوگا۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا ایک طویل المیعاد فیصلے کا نتیجہ تھا۔ اس کے ذریعے اس نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات پر مکمل طور پر نظرثانی کی ہے۔ اس سے برطانیہ بھی بکھر سکتا تھا۔ جن لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا ہے، ان کے لیے امکان یہ ہے کہ وہ آئندہ چار سال کے دوران انھیں اقتدار سے نکال باہر بھی کرسکتے ہیں۔

تقسیم اور نفرت بہت گہری ہے۔ بریگزٹ والوں نے یورپی یونین کو مسترد کردیا تھا لیکن ان سب نے یہ دعوے کیے تھے کہ وہ پوری دنیا کے لیے اپنے در وا کرنا چاہتے ہیں اور نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ آزاد تجارت کے مخالف ہونے کے دعوے دار ہیں(حالانکہ وہ ایک طویل عرصے تک اس سے مستفید ہوتے رہے ہیں)۔ وہ اب امریکا کے مختلف تجارتی معاہدوں کو ختم کردیں گے۔بریگزٹ ایک مبہم مہم تھی اوراس نے ہلیری کلنٹن کی غیرجاذب اور کسی وژن کے بغیر کوشش کی طرح مشکل سے ہی متاثر کیا تھا۔ تاہم ٹرمپ ہجوم ے کھیل رہے تھے اور ایک رومن شہنشاہ کی طرح لوگوں کی تفریح طبع کا سامان کررہے تھے۔ ان کی مہم توانا تھی، اس سے لوگ محظوظ ہورہے تھے اور یہ کبھی شہ سرخیوں سے غائب نہیں رہی تھی۔ ان کے جارحانہ انداز نے مہم کو اور مہمیز دی تھی۔ اب اس بات کا کم امکان ہے کہ وہ اسی انداز میں حکومت بھی کریں ۔

بہرکیف، ان دونوں منصوبوں کو مکمل یا جزوی طور پر ناکام ہوتے ہوئے دیکھنا مشکل ہوگا۔ بریگزٹ سے پورے یورپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، صرف یورپی یونین ہی کو نہیں۔ عشروں تک وہ مسائل حل نہیں ہوں گے جن کی برطانیہ میں بہت سے لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے حوالے سے بہت کم لب کشائی کی ہے،اس لیے یہ یقین کرنامشکل ہے کہ وہ اپنی موٹی چھوٹی انگلیوں سے کوئی کرتب کردکھائیں گے اوران کے ذریعے ایک ہیٹ سے خرگوش نکال باہر کریں گے۔ترقی پسندوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ عالمگیریت کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں اور انہیں اپنی شناخت کے کھو جانے کا بھی خطرہ لاحق ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک میں آبادی کی بڑی اکثریت تبدیلی پر خوشی سے نہال ہے۔ تاہم اس کے لیے تازہ وژن اور ایک ایسی قیادت درکار ہے، جو حقیقی اور پائیدار تبدیلی لا سکے جو یقینا ًبریگزٹ اورٹرمپ کی ناکامی کی منتظرہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.