لاہور (نمائندہ خصوصی) لاہور میں دو بچوں
کے باپ نے میٹرو بس کا ٹکٹ نہ ملنے پر خودکشی کرلی۔٭ قصور (نمائندہ خصوصی)
قصور میں میٹرو بس سروس شروع نہ کرنے پر ماں نے پانچ کمسن بچوں سمیت زہر
کھاکر خودکشی کرلی۔ لاہور (نمائندہ جنگ) ایک ہی گھرانے کے پانچ افراد نے
اُن کے گھر کے سامنے سے اورنج ٹرین کا روٹ نہ لانے پر خود کو آگ لگا کر
ہلاک کردیا۔ ٭ ملتان (نمائندہ آواز) پانچ بچے بروقت ٹیکسی نہ ملنے کی وجہ
سے سیر کرنے کیلئے نہ جاسکے اور موقع پر ہلاک ہوگئے۔ ٭گوجرانوالہ (نمائندہ)
لیپ ٹاپ نہ ملنے کی وجہ سے 5 افراد نے خودکشی کرلی۔
یہ خبریں شاید آپ کیلئے بہت انہونی ہونگی اور آپ صرف یہ سوچ سوچ کر پریشان
ہورہے ہونگے کہ ایسی کون سی وجوہات تھیں جن کی بناء پر ان لوگوں نے خودکشی
کرلی۔ ایسی کون سی زندگی کی بنیادی ضرورت تھی جو ان لوگوں سے چھین لی گئی
تھی جس کی وجہ سے یہ لوگ خودکشی پر مجبور ہوئے۔ لیکن حکومت کی ترجیحات کو
اگر دیکھا جائے تو یقینا یہی لگتا ہے کہ عوام کی بنیادی ضرورت زندگی صرف
یہی ہے اور اس کے بغیر عوام کا ایک پل بھی گزارہ نہیں ہے۔ جتنی مرضی
بیروزگاری ہوجائے، مہنگائی ہوجائے، کرپشن ہوجائے، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ
ہوجائے، پینے کا صاف نہ ملے، ہسپتالوں میں سستا اور اچھا علاج نہ ملے، اس
سے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ عوام کی ضروریات زندگی نہیں ہے۔
عوام کی ضروریات زندگی تو میٹرو بس ہے، لیپ ٹاپ ہے، ٹیکسی ہے، اورنج ٹرین
ہے۔
حکومت کی ترحیجات کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ Rescue1122
جو کہ ہزاروں لوگوں کی زندگی بچانے والی سروس ہے اس کیلئے تو حکومت کے پاس
فنڈز نہیں ہے اور Rescue1122 کو اخبارات میں اپنے ادارے کو چلانے کیلئے
زکوٰۃ اور چندہ لینے کیلئے اشتہارات دینے پڑتے ہیں لیکن عیاشی اور اُس سے
بھی زیادہ کمیشن کیلئے کروڑوں روپے کی ٹیکسیاں باہر سے منگوا لی گئیں ہیں۔
لوگوں کو مزید مرنے کیلئے صحت کے فنڈز اورپینے کے صاف پانی کے منصوبوں میں
سے تین ارب روپے نکال کر اورنج ٹرین کیلئے مختص کردیئے گئے ہیں تاکہ گندا
پانی پی کر ہیپاٹائٹس ہونے اور علاج نہ ہونے سے مرنے والے لوگوں کی لاشیں
بھی اورنج ٹرین کی سیر کرسکیں۔ حکومت کے عیاشی کے منصوبوں پر اس سے زیادہ
رونا اور کیا رویا جاسکتا ہے کہ اگر یہ منصوبے قومی وسائل سے پورے کئے جاتے
تو تب بھی شاید شاید قابل برداشت ہوتے۔ لیکن رونا تو اس چیز کا ہے کہ یہ
سارے منصوبے غیر ملکی قرضے لیکر پورے کئے جارہے ہیں اور محض اور محض عیاشی
کیلئے کھربوں روپے ایک منصوبے پر لگا دیئے گئے ہیں اور عوام کو مزید قرضوں
کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ لوگوں کی اربوں روپے کی جائیداد کو کوڑیوں کے
بھاؤ خریدا گیا اور ہزاروں ر لوگوں کے کاروبار کو تباہ و برباد کردیا
گیا۔اگر قرض لیکر ملک چلانا ہی تھا اور کوئی منصوبہ شروع کرنا ہی تھا تو
بجلی، گیس ، صاف پانی کا منصوبہ شروع کیا جاتا کوئی کارخانے لگائے جاتے،
کوئی روزگار کے مواقع پیدا کئے جاتے، عوام کو بنیادی چیزوں پر سبسڈی دے کر
ریلیف دیا جاتا تو عوام ان قرضوں کے بوجھ کو بھی برداشت کرلیتے۔ لیکن مسئلہ
تو یہ ہے کہ پھر کمیشن کہاں سے آنا تھا، پھر کمائی کہاں سے آنی تھی، پھر
لوٹ مار کیسے ہونی تھی۔ لیکن پھر بھی ہماری عوام بیوقوف ہی رہی گی اور
ہمیشہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ اور ’’شیر اک واری فیر‘‘ اور ’’تبدیلی
آنہیں رہی آگئی ہے‘‘ کے نعرے لگاتی رہے گی۔ |