بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے چور چور کے نعرے
لگائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے اس وقت ایوان میں شور شرابہ شروع
کیا کہ جب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان
کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے سے روک دیا۔ اس سے قبل اپوزیشن لیڈر سید خورشید
شاہ نے پوائنٹ آف آرڈر پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف سخت ترین
زبان استعمال کرتے ہوئے انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔خورشید شاہ کے خطاب
کے بعد اسپیکر نے خواجہ سعد ر فیق کو بولنے کا موقع دیا۔ جس پر پی ٹی آئی
کے ارکان نے شور شرابہ کیا ۔ اس دوران اسپیکر ایاز صادق مسلسل یہ کہتے رہے
کہ آپ جو مرضی کہیں لیکن اگر اپوزنشن لیڈر نے پوانٹ آف آرڈر پر بات کی ہے
تو پھر میں حکومتی رکن کو بھی پوانٹ آف آرڈر پر بولنے کا موقع ضرور دوں گا۔
یہ سن کر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے قومی اسمبلی نے اجلاس کے ایجنڈے
کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں اور اسپیکر ایاز صادق کی ڈائس کا
گھراؤ کیا جبکہ اسی دوران پی ٹی آئی کے ارکان نے گلی گلی میں شور ہے نواز
شریف چور ہے کے نعرے لگاتے رہے۔ کافی دیر تک یہ نعرے ایوان میں گونجتے رہے
تو پھر جواب میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے بھی گلی گلی میں شور ہے
عمران خان چور ہے کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ یہ نعرے نہ صرف پاکستان بلکہ
ساری دنیا میں براہ راست نشر ہوئے۔ یہ پی ٹی وی کی نشریات تھیں کہ جس نے
پہلے نواز شریف چور ہے کے نعرے ساری دنیا میں نشر کئے اور اس کے بعد عمران
خان چور ہے کے نعرے ساری دنیا میں دکھائے اور سنوائے ۔ صورت حال جب بہت
زیادہ کشیدہ ہوئی تو پی ٹی وی نے نشریات معطل کردیں لیکن اس وقت تک پانی
سروں پر سے گزر چکا تھا۔ ساری دنیا نے پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف چور چور
کے نعرے سنے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی یہ روایت ہے کہ نواز شریف کو چور اور
جھوٹے کے نام ہی سے پکارتے ہیں لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ
نعرے سرکاری ٹی وی سے نشر ہوئے ہوں۔ قبل ازیں بدھ کو قومی اسمبلی میں
پیپلزپارٹی کی طرف پانامہ لیکس کے حوالے سے تحریک استحقاق پیش کرنے کوشش کی
گئی تو اسپیکر ایاز صادق نے تحریک پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ کہہ کر
تحریک پیش کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے
لہذا اس حوالے سے ایوان میں کوئی تحریک پیش نہیں کی جا سکتی ۔ بدھ کو ایوان
میں جو کچھ ہوا اس میں اسپیکر ایاز صادق کے غیر جانبدار رویے پر بھی بہت سے
سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اسپیکر کے رویے میں بہت کم غیر جانبداری نظر آئی۔ جب
حالات قابو سے بارہ ہو گئے تو اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ یہ درست ہے کہ
اسپیکر صاحب کا تعلق حکمراں مسلم لیگ ن سے ہے لیکن انھیں اپنے منصب کے
تقاضوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور اپنے رویے اور عمل سے ثابت کرنا چاہیے کہ
اسپیکر کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ اپنی پوزیشن کو اس طرح بنا لیاہے کہ وہ
اپوزیشن اور حکمراں جماعت کے لئے وہ برابر قابل قبول ہیں۔ پی ٹی آئی
پارلیمنٹ کے بائیکاٹ اوراس پر عدم اعتماد کے بعد کافی عرصے بعد اسمبلی میں
آئی تھی۔ اسے عمران خان کا ایک نیا یو ٹرن بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ بعد میں
میڈیا ٹاک کے دوران دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خوب لتے لئے۔
خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی پر مختلف الزامات لگائے تاہم اس میں سب سے اہم
بات انھوں نے یہ کہی کہ پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ نے تنخواہیں لینے کے
لئے آج طویل عرصے بعد اجلاس میں شرکت کی ہے کہ ان کی تنخواہیں نہ ماری
جائیں۔ بدھ کی صورت حال دیکھ کر بار بار یہ سوال ہزاروں لاکھوں ذہنوں میں
اٹھتا رہا کہ کیا اقتدار اس قدر اہم اور ناگزیر ہوتا ہے کہ کسی وزیراعظم
کواپنے آپ کو چور کہلوانے میں بھی کوئی آر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سرکاری
میڈیا وزیراعظم کو چور چور نشر کر رہا تھا۔ دنیا بھر میں اخلاقیات کی بہت
اہمیت ہے۔ مغرب میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ وہ اخلاقیات کو بہت اہمیت دیتے
ہیں ۔ پانامالیکس میں جب بہت سے مغربی ممالک کے وزراء اعظم اور دیگر اہم
عہدیداروں کے کرپشن میں ملوث ہونے کی خبریں منظر عام پر آئیں توان میں سے
بیشتر مستعفی ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا لیکن
پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے کہ جس کے حکمراں اور افسران کرسی سے چمٹے
بیٹھے ہیں ۔ سارے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں وزیراعظم نواز شریف کے لئے
چور چور کے نعرے گونج رہے ہیں لیکن ان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ دوسرے طرف
عمران خان کے خلاف بھی اسی قسم کے نعرے ہیں مگر۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں نا’’شرم تو
آنی جانی چیز ہے بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے‘‘۔ |