حلب جل رہا ہے، عالم اسلام کہاں ہے؟
(عابد محمود عزام, Lahore)
شام میں 2011 سیجاری درندگی و سفاکیت کے
تناظر میں بارہا لگ بھگ پانچ درجن ممالک پر مشتمل ’’عالم اسلام‘‘ کا خیال
آیا۔’’ مجاہدین سوشل میڈیا‘‘ عالم اسلام کی بے حسی کی نشاندہی کرتے ہوئے
مسلسل بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اس کو بیدار کرنے میں مگن ہیں اور سینے میں
دل رکھنے والا ہر مسلمان عالم اسلام کو بیداری، اتحاد اور جرات کی تلقین
کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ’’شام کے عوام کو سفاک قاتلوں کے پنجے سے آزاد
کرانا عالم اسلام کی اولین ذمے داری ہے۔ مظلوم شامی مائیں، بہنیں اور
بیٹیاں عالم اسلام کی جانب دیکھ رہی ہیں کہ شاید وہ بیدار ہوکر ہم پر مظالم
کے پہاڑ توڑنے والے درندوں کو روک دے، شاید عالم اسلام ہماری بستیوں کو
ملیامیٹ کر کے ہمیں لاشوں کے تحفے دینے والے سفاک قاتلوں کا حساب چکتا کردے۔‘‘
اس سب کچھ کے باوجود نہ تو ابھی تک ہمیں کہیں دور دور ہی سہی، عالم اسلام
کے عملی اقدامات دکھائی دیے اور نہ ہی عالم اسلام کی بیداری کے آثار نظر
آئے۔ عالم اسلام سے عملی اقدامات کی اپیلوں کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے،
بلکہ بچپن سے ہم اسی طرح سنتے چلے آئے ہیں۔ پہلی کلاس سے ماسٹر تک
بلامبالغہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار ضرور مسلمانوں کو عالم اسلام سے عملی
اقدامات کی اپیل کرتے سنا ہوگا۔ دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے کہیں کوئی
معاملہ پیش آتا تو لوگوں سے سنتے کہ عالم اسلام کو اس معاملے میں اپنا
کردار ادا کرنا چاہیے، اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے، اس معاملے کو سنجیدگی
سے لینا چاہیے، عالم اسلام کو ہر حال میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم رکوانا
چاہیے اور اس کے ساتھ اکثر و بیشتر یہ بھی سنتے کہ موجودہ حالات کا مقابلہ
کرنے کے لیے عالم اسلام کا بیدار ہونا ضروری ہے۔
بچپن میں تو معلوم نہیں تھا کہ یہ عالم اسلام ہے کیا شے، بار بار جس کا
تذکرہ کیا جاتا ہے، اس لیے خود ہی اندازہ لگاتے کہ عالم اسلام ضرور کوئی
پہلوان قسم کا بندہ ہوگا،جس سے سب ڈرتے ہوں گے، تبھی تو بار بار عالم اسلام
سے نوٹس لینے کی فریاد کی جاتی ہے۔ عالم اسلام کے حوالے سے ہمارے تمام
اندازے تو اسی وقت غلط ثابت ہوئے جب ایک بار خود ہی استاد صاحب نے عالم
اسلام کی وضاحت کی، لیکن بعد میں بڑی کلاسوں میں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی
عالم اسلام بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔ دنیا میں عالم اسلام کی آبادی 1.62 ارب
کے لگ بھگ ہے، جو پوری دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے اور اس کے
ساتھ دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ عالم اسلام کے پاس ہے۔ عالم اسلام
کے ممالک کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہے، جن میں ترکی، سعودی عرب، ایران،
انڈونیشیا، قطر، عمان، ملائیشیا، پاکستان، برونائی دارالسلام اور کویت جیسے
بے بہا وسائل سے مالامال ممالک شامل ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے عالم اسلام کو بے
شمار نعمتوں، بے پناہ قدرتی وسائل اور متنوع انسانی وسائل سے نوازا ہے۔
عالم اسلام کی نمایندہ تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے
بڑی اور نمایندہ تنظیم ہے، لیکن میں جب کئی سال سے شام میں جاری درندگی پر
تمام وسائل، افواج اور قوت و طاقت کے باوجود عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی
اور بے حسی کو دیکھتا ہوں تو شدید دکھ اور افسوس ہوتا ہے، کیونکہ پانچ درجن
مسلم ممالک میں بستے ڈیڑھ ارب سے زاید مسلمان شام میں درندہ صفت سرکاری
فورسز کے ہاتھوں اپنے شامی مسلمان بھائیوں، بہنوں، ماؤں، بچوں اور بزرگوں
کو چھٹکارا نہیں دلا سکتے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ دنیا
کے تمام مسلمان ایک انسانی جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف
ہو تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح دنیا میں کسی مسلمان کو تکلیف
پہنچنے سے تمام عالم اسلام کو بے چین ہوجانا چاہیے، لیکن عالم اسلام کی بے
حسی کو دیکھ کر یوم محسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام کسی کا دکھ محسوس کرنے
والی حس سے ہی محروم ہوچکا ہے، جس کو اپنے مسلمان بھائیوں پر ڈھائے جانے
والے مظالم کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔
شام 2011سے مقتل بنا ہوا ہے۔شام میں 2011 سے جاری قتل عام میں ہر ملک اپنے
مفاد کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔ اس خانہ جنگی میں تمام بیرونی قوتیں شامیوں کو
استعمال کررہی ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر روس، چین، امریکا، اسرائیل، ایران
اور عرب ممالک، بشار الاسد، حزب اﷲ، داعش، القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں
نے شام کو بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ شام میں جاری قتل عام میں ہر
ملک اپنے مفاد کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔ کسی ملک نے اس خانہ جنگی کو رکوانے
کی کوئی سبیل نکالنے کی کوشش تک نہیں کی۔ شام میں جاری کشیدگی کے باعث
بشارالاسد، ایران، داعش اور دیگر مسلح ملیشیاکے ہاتھوں اڑھائی لاکھ افراد
مارے جاچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔بیرون ملک ہجرت کرنے
والوں کی تعداد 40 لاکھ اور اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد 70لاکھ
سے متجاوز کرچکی ہے۔ ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار افراد قتل کیے جارہے ہیں۔
شام میں ایک بار پھر بھرپور قوت کے ساتھ درندگی کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
تازہ کاروائیوں میں اسدی افواج، حزب اﷲ اور ایران کی معاونت سے شام میں
مظالم کی نئی تاریخ رقم کررہی ہیں۔ شام کے شہر حلب میں سرکاری فوج نے گزشتہ
روز وحشیانہ کارروائیوں کے دوران فائرنگ کرکے بچوں اور خواتین سمیت 200 بے
گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق حلب میں زمینی
پیش قدمی کے دوران سرکاری فوج نے سامنے آنے والے ہر عام شہری کو گولیوں کا
نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسدی فوج کے گماشتوں نے حزب اﷲ
جنگجوؤں کی معاونت سے حلب میں ایک ہسپتال کے پورے عملے کو یرغمال بنانے کے
بعد انہیں ایک ایک کر کے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ انسانی حقوق کے کارکنان
کا کہنا ہے کہ حزب اﷲ اور شامی فوج مل کر شہریوں کے اجتماعی قتل عام کے
مرتکب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو قریب سے گولیاں مار
کر قتل کردیا گیا۔ مقتولین میں اکثریت بچوں اور خواتین کی بتائی جاتی ہے جن
کا جنگ سے کوئی دور دور کا تعلق بھی نہیں ہے، جبکہ اسدی فوج اور اس کی
معاون مذہبی ملیشیا کے عسکریت پسندوں نے نو بچوں اور خواتین کو بھی زندہ
جلا ڈالا ہے۔ حلب میں موجود مظلوم شامی باشندوں کی حالت ناقابل بیان ہے۔
عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا جارہا ہے، جس کے
خوف سے بعض خواتین اپنی پاکدامنی کے سامنے اﷲ کے حضور حاضر ہونے کے لیے خود
سے ہی اپنی زندگی ختم کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق حلب کے مشرقی حصے میں باغیوں کے قبضے والے چھوٹے سے
علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں نے گزشتہ روز جذباتی انداز کے آخری پیغامات
بھیجے اور شامی فوج کی گولہ باری بمباری کے درمیان ان لوگوں نے بین
الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی۔ گزشتہ رات ایک رضاکار لینا شامی نے
ٹویٹ کیا: ’’پوری دنیا کے لوگوں، سوئیں نہیں۔ آپ کچھ کر سکتے ہیں، مظاہرے
کریں اور اس قتل عام کو رکوائیں۔‘‘ اپنے ویڈیو پیغام میں لینا شامی نے کہا:
’’ہر کوئی جو مجھے سن سکتا ہو! محصور افراد کا حلب میں قتل عام ہو رہا ہے۔
یہ میرا آخری ویڈیو ہو سکتا ہے۔ آمر اسد کے خلاف بغاوت کرنے والے 50 ہزار
سے زیادہ لوگوں کے قتل عام کا خطرہ ہے۔ لوگ بمباری میں مارے جا رہے ہیں۔ ہم
جس علاقے میں پھنسے ہوئے ہے یہ دو مربع میل سے بھی چھوٹا ہے۔ یہاں گرنے
والا ہر بم قتل عام ہے۔ حلب کو بچاؤ انسانیت کو بچاؤ۔‘‘ حلب سے آنے والے
باقی پیغامات میں لوگوں کی امید ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک
شخص کہہ رہا ہے: ’’ہم بات چیت سے تھک گئے ہیں، تقریروں سے تھک گئے ہیں۔
کوئی ہماری نہیں سن رہا ہے۔ کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔ وہ دیکھو بیرل بم گر
رہا ہے۔‘‘ یہ ویڈیو بم گرنے کی آواز کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ مشرقی حلب میں
کام کرنے والے شامی ریلیف گروپ وائٹ ہلمٹس نے لکھا: ’’جہنم کا منظر ہے۔
تمام سڑکیں اور منہدم عمارتیں لاشوں سے پٹی پڑی ہیں۔‘‘ مشرقی حلب سے ٹویٹ
کرنے والے استاد عبد لکافی الحمدہ نے اسے ’’قیامت کے دن‘‘ سے تعبیر کیا۔ ان
کا کہنا تھا: ’’ہر طرف بم گر رہے ہیں۔ لوگ بھاگ رہے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں کہ
کہاں جا رہے ہیں، صرف بھاگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ان
کی مدد کے لیے نہیں جا پا رہا ہے۔ کچھ لوگ ملبے میں دبے ہیں۔ کوئی ان کی
مدد نہیں کر پا رہا ہے۔ انھیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ گھر ہی ان
کی قبر ہے۔ اب اقوام متحدہ پر اعتماد مت کرو۔ بین الاقوامی برادری پر
انحصار مت کرو۔ یہ نہ سوچو کہ انھیں نہیں معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ ہم مارے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم عہد نو کی تاریخ
کے سب سے شدید قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘ حلب میں موجودہ مظالم کی نئی
صورتحال دیکھ کر دل خون کے آنسو رورہا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا
کیا جائے؟ عالمی برادری کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حلب میں کیا ہورہا
ہے، بلکہ اس کی زبانیں گنگ، آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہوچکے ہیں۔اس قدر
نقصان کے باوجود نہ تو بیرونی قوتوں نے اپنی پالیسیاں نہیں بدلیں، بلکہ وہ
پوری طرح ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور نہ ہی مسلم
ممالک نے اپنی بند آنکھیں کھولی ہیں، بلکہ بعض مسلم ممالک بھی شام میں
درندگی وسفاکیت کی آگ کو مزید بڑھکا رہے ہیں۔ ان حالات میں سب سے افسوسناک
کردار 57اسلامی ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا ہے، دنیا
میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو او آئی سی ہاتھ
پہ ہاتھ دھرے خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس
صرف 27 ممالک پر مشتمل یورپین یونین ہر موڑ پر اپنے ممالک کا مکمل ساتھ
دیتی ہے۔اگر اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی چاہے تو شام میں جاری
درندگی رک سکتی ہے۔ شام میں جاری سفاکیت کو ختم کرانا اور وہاں امن کا قیام
عالم اسلام اور اوآئی سی کی ذمہ داری ہے، کیونکہ یہ تمام مسلم ممالک کی
نمائندہ تنظیم ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے او آئی سی میں بعض طاقتور مسلم
ممالک خود حلب اور شام کو جلانے والوں میں شامل ہیں، جن کے نزدیک صرف اپنے
مفادات عزیز ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ شام میں کتنے بے گناہ لوگ
قتل ہورہے ہیں، لیکن ہم لوگ ان مسلمان ممالک کے خلاف بھی نہیں بول سکتے،
کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کی تمام تر ہمدردیاں صرف اسی ملک کے ساتھ ہیں، جو
ہمارے مسلک کے قریب تر ہے، چاہے وہ جتنا بھی ظلم و ستم کرلے، لیکن ہم میں
سے کوئی اس کے خلاف بولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
|
|