اَج آکھاں وارث شاہ نُوں
(Shakeel Ahmed Shaheen, Lahore)
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس
نوزائیدہ مملکت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ان میں سے مہاجرین کی
آبادکاری اور کشمیر میں بھارت کی دراندازی ایسے مسائل تھے جھنوں نے
قائداعظم کی صحت کو بری طرح متاثر کیااو ر وہ آخری وقت تک کشمیر کا ذکر
کرتے رہے ۔قدرت اللہ شہاب نے اپنے افسانے “یا خدا” میں مہاجرین کے مسائل کی
جس درد بھر ے انداز میں منظر کشی کی ہے اس کو پڑھ کر ہر ذی شعور انسان کی
آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں ۔میں نے جب اس افسانے کو پڑھنا شروع کیا تو
گھنٹہ بھر میں پڑھ ڈالا اور کیونکہ پنجاب یونیورسٹی کی مین لائبریری میں
محو مطالعہ تھا اس لیے کوشش کررہا تھا کہ ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے
پھربھی میرا دل پسیج گیا اور پلکوںکا حلقہ توڑ کر آنسو چھلک پڑے۔افسانہ ایک
مسلمان عورت دل شاد کی کہانی ہے کہ وہ کن مصائب سے گزر کر پاکستان پہنچی
اور پاکستان آنے کے بعد اسے کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ قیام
پاکستان کے موضوع پہ لکھے جانے والے ادب میں مہاجرین پر ہندوو ¿ں اور سکھوں
کے مظالم کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے لیکن بہت کم لوگوں نے پاکستان آنے کے
بعد مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والے نازیبا سلوک پہ قلم اٹھایا ہے۔ “یا خدا”
کا موضوع یہی مصائب ہیں جن سے مہاجرین گزرے۔ جس پاکستان کو وہ مدینہ منور
جیسی اسلامی فلاحی ریاست سمجھ کر ہجرت کرکے آئے تھے وہاں انہیں سر چھپانے
کے لئے ٹھکانے بھی دستیاب نہیں تھے۔ جن پاکستانیوں کو وہ انصار سمجھتے تھے
وہ ان کی عزت اور دولت کے لٹیرے نکلے۔
کہانی کا موضوع بے حد تلخ ہے اور یہ کتاب ایک عرصے تک پاکستان میں بین
رہی۔اب ذرا ان لوگوں کے کرب کا تصور کیجئے جو اس آگ اور خون کے دریا کو
عبور کر کے پاکستان پہہچے اورمسلمانوں کے ساتھ خون ک جو ہولی کھیلی گئی وہ
اس کے چشم دید گواہ ہیں ۔پنجابی زبان کی مشہور شاعرہ امر تا پریتم نے تقسیم
ہند کے وقت پنجاب میں جو قتل عام ہوا اس پر وارث شاہ کو مخاطب کر کے کہا
تھا کہ اپنی قبر میں سے نکل کر دیکھو کہ تمہارے دیس پنجاب کا کیا حال ہے
۔ان کی اس پنجابی نظم نے بڑی شہرت حاصل کی ۔جس کے بول کچھ یوں ہیں ۔
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں ، َکتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی، توں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ درد منداں دیا دردیا، اٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں ، وچ مزاراں رون
اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اِک ہور
تقسیم ہند کے وقت جو قیامت صغری برپا کی گئی اس نے امرتا پریتم سمیت درد دل
رکھنے والے ہر شخص کو متاثر کیا اور اس موضوع پر بہت سی کتابیںضابطہ تحریر
میں لائیں گئیں ۔آج میں آپ کو ایک ایسی معمر خاتون سے ملاقات کا احوال
سناتا ہوں جو قیام پاکستان کے وقت نہ صر ف جوان تھیں بلکہ دو بچوں کی ماں
تھیں اور بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان پہچیںتھیں
۔میں نے باتوں ہی باتوںمیں ان سے پوچھاکہ اماں جی پاکستان بننے کی آپ کو
کتنی خوشی تھی ؟ان کا جواب تھا کہ ہم لوگ بہت خوش تھے کہ شاید پاکستان میں
جا کر ہماری قسمت بدل جائے گی اور خوشحالی اور فارغ البالی کا آفتاب طلوع
ہو کر تمام نحوستوں کا سینہ چیر کر رکھ دے گااور فلاکت زدہ انسان امن
وعافیت کے گہوارے میں خوشی کے نغمے گاتے ہوئے زندگی کا سفر طے کریں گے۔
لیکن ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ اپنی قسمت بدلنے کیلئے ہمیں اپنے پیاروں
کی قربانی دینی پڑے گی۔مذکورہ ماں جی کے ایک رشتہ دار کو سکھوں نے درخت کے
ساتھ لٹکا کر اس کی کھال اتار دی تھی۔ جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ ہچکیاں بھر
کر رونے لگیں ۔پھرلمحہ بھر کیلئے خاموش ہوگئیں اور کچھ سوچنے کے بعد گویا
ہوئیں ۔پتر! کیا ضرورت تھی پاکستان بنانے کی ؟ہم سب ہندوؤں اور سکھوں کے
ساتھ بڑی ہسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔ہم کبھی آپس میں نہیں جھگڑے بلکہ وہ
ایک سردار جی کا نا م لے کر بتا رہی تھیں جس نے مسلمانوں کیلئے ایک مسجد
تعمیر کر کے دی تھی ۔مجھے ا حمد مشتاق صاحب کا ایک خوبصورت شعر یاد آ گیاجو
ماں جی کی گفتگو کی ترجمانی کرتا ہے ۔
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ تقسیم کے وقت مسلمانوںکا قتل عام سکھوں اور ہندو ¿ں نے
ری ایکشن میں آ کر کیا تھا، ہمارے درمیان کوئی ذاتی عناد نہیں تھی ۔لیکن
یہاں یہ سوال بھی سر اٹھاتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں مختلف مذاہب اور
رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے اتنا پر امن کیسے ہوسکتا ہے ؟میں
یہ سمجھتا ہوں ایسے متنوع معاشرے کو پرامن رکھنے کیلئے صوفیاءکرام نے کلیدی
کردار ادا کیا ۔جھنوں نے ہمیشہ پیار،محبت ،امن اور رواداری کا درس دیا لیکن
کبھی کسی فرقے ،مذہب ،رنگ اورنسل کی مذمت نہیں بلکہ ہمیشہ احترام آدمیت کا
درس دیا اوراپنے کردار وعمل سے سینکڑوں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا ۔
پاکستان بن گیا یہ کوئی آسان کام نہ تھا لیکن تقسیم کے بعدسے لے کر آج تک
دونوں ملکوں میں عام آدمی کے طرزِ زندگی میں بہتری نہیں آئی اور دونوں
فلاکت زدہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں ۔1947سے لے کر2016تک کے حالات کا جائزہ
لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب تک دونوں ممالک دو بڑی جنگیں لڑ چکیں ہیں جب کہ
ان کے اندورنی اور بیرونی خلفشار اس کے علاوہ ہیں ۔بھارت میں 41.6فیصد
آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی روزانہ
آمدنی سوا ڈالر یعنی 125سے بھی کم ہے ۔پاکستان کی حالت زار بھی اس سے کچھ
مختلف نہیں ۔دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود انرجی بحران کا شکار
ہیں ۔بھوک و افلاس کے علاوہ کرپشن کا بول بالا ہے اور دہشت گردی نے دونوں
ممالک کے عوام کو دہشت زدہ کیا ہوا ہے ۔لیکن ہم اپنے مشترکہ دشمن
غربت،بےروزگاری،کرپشن ،تعلیمی پستی اور دہشت گردی جیسے دیگر مسائل سے لڑنے
کی بجائے ایک دوسرے کا ناحق خون بہا رہے ہیں ۔اگر ایسے ہی بھوک اور افلاس
سے مرنا تھا تو ماں جی کے بقول کیا ضرورت تھی پاکستان بنانے کی ۔افسوس کہ
پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کاخواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ |
|