’لہو لہاں ہے حلب ہمارا ‘

حلب جل رہا ہے، چیخیں بلند ہورہی ہیں،نوجوان شہید ہورہے ہیں،بہنوں نے اپنی عصمت بچانے کیلئے خود کشی کو قبول کرلیا ہے، مائیں سسکیاں لے رہی ہیں،باپ اپنے معصوم بچہ کی لاشیںکندھوں پر اٹھا کر دفنانے کیلئے جگہ کے متلاشی ہیں،بھائی اپنی بہنوں کیلئے دیوار آہنی بنے ہوئے ہیں، موت پر بیعت ہورہی ہے، چہار جانب سے دشمنان اسلام ٹوٹ پڑے ہیں،دنیا کے بہترین جنگی آلات نہتوں اور کمزوروں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں، انسانیت دم توڑ چکی ہے، انسان خونی درندہ بن چکا ہے، بشار اور اس کے حواریوں کی خونخواری کے بعد شیاطین کے عمل بھی چھوٹے نظر آرہے ہیں اور یہ سب کچھ اکیسویں صدی میں ہورہا ہے، جس کا دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ اکیسویں صدی ترقی یافتہ صدی ہے۔ انسانوں کے احترام کی صدی ہے۔ یوم خواتین ویوم اطفال منانے والی صدی ہے ،عورتوں کی عزت کرنے والی صدی ہے بوڑھوں پر رحم کرنے والی صدی ہے، لیکن حلب میں امن عالم کے دعوے داروں اور اقوام متحدہ کے ٹھیکیداروں نے حلبی مائوں اور بہنوں کی عصمتوں سے کھلواڑ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ صدی مسلمانوں کو تہہ و تیغ کرنے والی صدی ہے۔ اگر مسلمان اسلام پر عمل پیرا ہے تو وہ دہشت گرد ہیں، انہیں مٹانے والی صدی ہے۔ حلب میں انسانی خون کی ارزانی پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،اقوام متحدہ (ابلیس کی مجلس شوریٰ) اور عرب لیگ (ابلیس کے ایجنٹ) خاموش ہیں،کہیں اس خونریزی پر شادیانے بجا ئے جارہے ہیں تو کچھ کفن کیلئے کپڑا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں،اور یہ سب کچھ اس مبارک ، بابرکت اور انبیاء کی سرزمین پر ہورہا ہے جس کے بارے میں قرآن واحادیث میںبہت ساری فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور جس کے اطراف مالدار، زرخیز، شاداب،اسلامی ممالک آباد ہیں، جن کے امراء عیاش و غافل ، بے حس و لاپرواہ اور دشمن کے پٹھو و ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔
حلب جل رہا ہے، چیخیں بلند ہورہی ہیں،نوجوان شہید ہورہے ہیں،بہنوں نے اپنی عصمت بچانے کیلئے خود کشی کو قبول کرلیا ہے، مائیں سسکیاں لے رہی ہیں،باپ اپنے معصوم بچہ کی لاشیںکندھوں پر اٹھا کر دفنانے کیلئے جگہ کے متلاشی ہیں،بھائی اپنی بہنوں کیلئے دیوار آہنی بنے ہوئے ہیں، موت پر بیعت ہورہی ہے، چہار جانب سے دشمنان اسلام ٹوٹ پڑے ہیں،دنیا کے بہترین جنگی آلات نہتوں اور کمزوروں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں، انسانیت دم توڑ چکی ہے، انسان خونی درندہ بن چکا ہے، بشار اور اس کے حواریوں کی خونخواری کے بعد شیاطین کے عمل بھی چھوٹے نظر آرہے ہیں اور یہ سب کچھ اکیسویں صدی میں ہورہا ہے، جس کا دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ اکیسویں صدی ترقی یافتہ صدی ہے۔ انسانوں کے احترام کی صدی ہے۔ یوم خواتین ویوم اطفال منانے والی صدی ہے ،عورتوں کی عزت کرنے والی صدی ہے بوڑھوں پر رحم کرنے والی صدی ہے، لیکن حلب میں امن عالم کے دعوے داروں اور اقوام متحدہ کے ٹھیکیداروں نے حلبی مائوں اور بہنوں کی عصمتوں سے کھلواڑ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ صدی مسلمانوں کو تہہ و تیغ کرنے والی صدی ہے۔ اگر مسلمان اسلام پر عمل پیرا ہے تو وہ دہشت گرد ہیں، انہیں مٹانے والی صدی ہے۔ حلب میں انسانی خون کی ارزانی پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،اقوام متحدہ (ابلیس کی مجلس شوریٰ) اور عرب لیگ (ابلیس کے ایجنٹ) خاموش ہیں،کہیں اس خونریزی پر شادیانے بجا ئے جارہے ہیں تو کچھ کفن کیلئے کپڑا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں،اور یہ سب کچھ اس مبارک ، بابرکت اور انبیاء کی سرزمین پر ہورہا ہے جس کے بارے میں قرآن واحادیث میں بہت ساری فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور جس کے اطراف مالدار، زرخیز، شاداب،اسلامی ممالک آباد ہیں، جن کے امراء عیاش و غافل ، بے حس و لاپرواہ اور دشمن کے پٹھو و ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔

شام کی داستان الم بہت تاریک اور انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے،جو لوگ ملک شام کے ابتدائی حالات سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ حکمراں جماعت (بشارالاسد) کو جب یقین ہوچلا کہ اب کچھ نہیں بچے گا تب اسلام کا سب سے ازلی دشمن اور مجوسی النسل فارسی نے وہ کام انجام دیا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے،شام کی صورت حال کا اندازہ جو بھی آج دنیا کے پاس ہے وہ محض سوشل میڈیا کے ذریعہ سے موصول ہوئی خبریں ہیں، ورنہ تو دنیا کو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کب شام میں شام زندگی ڈھل چکی ہے۔ ملک شام کی موجودہ صورت حال جو بھی ہو لیکن ایک بات تو طے ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول یہیں ہوگا اور اس بات کو تمام اسلام دشمن طاقتیں بہت اچھے طریقے سے جانتی ہیں،لیکن شاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ خدا کا فرمان ان کے آلات جنگ و حرب سے ماوراء ہے، جن جنگی آلات کے ذریعہ آج معصوموں کو قتل کیا جارہا ہے، سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ لیکن افسوس ہوتا ہے ان نام نہاد اسلامی ممالک پر جو مجرمانہ طور پر چپی سادھے بیٹھے ہیں،ایک طرف مسلمان قتل کئے جارہے ہیں اور دوسری طرف ان دشمنان اسلام سے معاہدہ ہورہا ہے۔ کہاں گئی وہ غیرت اسلامی ؟ جب ایک لڑکی کے خط کے بدلے حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی معیت میں ایک لشکر روانہ کردیا تھا وہ بھی تو مسلمانوں کی ہی جماعت تھی،لیکن آج پڑوس میں ہورہے مظالم پر مسلمان تماشا دیکھ رہا ہے۔ آج حلب کی ہزاروں مائیں، بہنیں چیخ رہی ہیں ، اسلام کی دہائی دے رہی ہیں اپنی عصمت کو بچانے کی خاطر خودکشی نوٹ کے ذریعے بے حس حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرناچاہ رہی ہیں لیکن افسوس صد افسوس اتنے سارے اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے بھی کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔ کوئی بھی ان کی دادرسی کرنے والا نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی عصمت کی حفاظت کے لئے خودکشی کوترجیح دی۔ جوان مدد کی آس میں فدائین حملے انجام دے کر رافضیوں کو جہنم رسید کررہے ہیں لیکن ایٹمی طاقتوں سے لیس مسلم ممالک کے حکمرانوں پر جوں تک نہ رینگیں۔ سلام اے شیر دل حلبی مجاہدو! …تمہاری شہادت رائیگاں نہ جائے گی…تمہارے فدائین حملوں کے ذریعے…کسری ٰفارس کے رافضیوں کو…جہنم رسید کرنے پر… مبارک باد دیتے ہیں …تمہاری شہادت سنہرے لفظوں میں لکھی جائے گی… تمہاری موت پر بیعت پر ہمیں فخر ہے…سلام اے شیر دل حلبی مجاہدو! …تم نے کتے اسدیوں کی مرتے مرتے ناک میں دم کر رکھا … وہ بزدل ہیں تم بہادر ہو … سلام اے حلب کی عفت نشیں ماوئں بہنوں!…تم نے بھی وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے … جس پر ہم عجمی صرف فخر اور دعا کرسکتے ہیں…اللہ تمہاری اور تمہارے نوجوان بھائیوں،بیٹوں ،بوڑھوں ،شیر خوار بچوں کی شہادت قبول کرے … بہنوں ہم بے بس ہیں حکمراں بے حس ہیں… ہم شرمندہ ہیں کہ تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکے … لیکن بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں…اللہ تمہیں بلند مقام سے سرفراز کرے…تم نے مرتے وقت اپنی سسکیوں اور آہوں کو بھی…روک لیا تاکہ عیش و عشرت میں پڑے … نام نہاد مسلم حکمرانوں کی…نیندوں میں خلل نہ پڑے…تمہاری عصمت و عفت کی قسم … تم کامیاب ہوگئیں تم کامیاب ہوگئیں…سلام اے حلبی مجاہدو…سلام اے حلبی مائوں اوربہنوں۔اتنا یاد رکھیں کوئی ماں کے پیٹ سے ہی ایوبی و محمدابن قاسم نہیں پیدا ہوا کرتے بلکہ اسی سینہ گیتی پر فلسطین میں ہورہے مظالم کے خلاف باطل قوتوں سے ٹکراکر مائوںو بہنوں کی عفت و ناموس کی خاطر میدان جنگ میں کود پڑنے والے کو صلاح الدین اور ایک فاطمہ پر ظلم ہونے کی وجہ سے راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجادینے والے کومحمد بن قاسم کہتے ہیں۔ ہماری قوم میں ہر فرد محمدبن قاسم ؒبن سکتا ہے، صلاح الدین ؒبن سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ باطل قوتوں سے مرعوب نہ ہوکر ان سے ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ موجودہ مسلم حکمراں اور نام نہاد امن عالم کے ٹھیکیدار سبھی دوغلے ہیں، انہیں عیش و عشرت سے فرصت نہیں یہ ہماری سرپرستی نہیں کرسکتے اور یہ بھی یاد رکھیں! انقلاب حکمراں نہیں بلکہ ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والی بے کس عوام مجبور ہوکر جو حتمی اقدام اٹھاتی ہے وہ لاتی ہے…! ہم اس موقع پر حلب کے بے سروسامانی کے عالم میں پڑے ہوئے مسلمانوں سے معافی مانگتے ہیں اور شرمندہ ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر پارہے ہیں لیکن دعا کر رہے ہیں اور پر امید ہیں کہ مرکز اسلام کا قلعہ شام ان شاء اللہ جلد ہی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوگا اور جلد ہی ان چیتھڑ زدہ لاشوں کا وارث اپنی عصمت کھوچکی مائوں اور بہنوں کا لاڈلا بشار رافضی ،اس کے روسی حواری ، فارس کے مجوسیوں اور داعش کے دہشت گردوں کو جہنم واصل کرے گا…! ان شاء اللہ العزیز…!
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 68883 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.