آہ اے حلب!
(Balighuzzaman Shamimi, Howrah,India)
حلب میں ہوے ظلم پر مختصر تحریر |
|
حلب لہو !لہو !ہے
گزشتہ دنوں شام کے تاریخ ساز شہر حلب کے خونی منظر نے ہلاکو و چنگیز سے
لیکر ہٹلر و مسولونی کے ادوار میں انسانی لہو سے کھیلی گئی ہولییوں کی یاد
یں تازہ کر دیے۔ضمیر اقرار کرنے کو تیار ہی نہیں کہ یہ اکیسویں صدی کا
سولہواں سال ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے ادبیات و اخلاقیات کا درس دینے والے
کہتے ہیں کہ یہ وہ دور ہے جس میں انسان ادب و اخلاق کے سب سے اعلی منازل طے
کر رہا ہے۔کہاں ہیں امن و انسانیت کا درس دینے والے؟ کہاں ہیں نفرتوں کے
خاتمے کا نعرہ بلند کرنے والے؟سب کی زبانیں کیوں گنگ ہیں؟کیا اقوام متحدہ
فقط نام کے لحاظ سے متحدہ ہے ؟کیا کسی خاص طبقے کے انسانوں کا خون ہی خون
ہے اور بقیہ انسانوں کا خون پانی سے بھی کمتر؟یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے
جواب کا ہر انسانیت کا درد رکھنے والے کو انتظار ہے۔آہ اے حلب!یہ کیا
ہوا؟تیری گود میں پروان چڑھنے والے ان بچوں کو جس بے دردی سے زمین دوز کیا
گیایقیناًزمین بھی کانپ اٹھی ہوگی۔جب کہ ابھی جہاں ماؤں کی کوکھ سے جگنؤں
اور تتلیوں کو جنم لینا تھا جنہیں اونچی اڑان بھرنا تھی انھیں اذن تخلیق سے
پہلے ہی رحم مادر کو چھید کرتی ہوئی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ساری دنیا
خاموش ہے اور وہ حلب کی گلیاں جہاں سے بیت المقدس کو فتح کرنے کا مقدس
پیغام دنیائے اسلام کی کانوں سے ٹکرایا تھا آج اسی تاریخی سرزمین کی گلیاں
خون کی ندیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔حلب کی مقدس زمین پر کشت و خون کا ننگا
ناچ دکھانے والے رافضی، انسانیت کے درس سے بھی کور ہیں ۔وہ آج جن یہودیوں
اور عیسایوں کے پٹھو بن کر مسلمانوں کا خون کر رہے ہیں اور اسلام کا مذاق
اڑا رہے ہیں کل انھیں خود منھ کی کھانا پڑے گی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام
دشمن طاقتیں کبھی سعودیہ کے ہاتھوں اسلامی ریاست یمن پر حملہ کرواتی ہیں تو
کبھی لیبیا جیسے پر امن ملک میں انتشار پیدا کرکے وہاں کے حکمرانوں کو قتل
کرواتی ہیں۔آج لیبییا کا کوئی پرسان حال نہیں وہاں کی معیشت تباہ ہو چکی ہے
ایسا ہی کچھ حال ملک شام کا ہے جہاں ہر لمحہ ایک زندگی درندگی کے ہتھے چڑھ
رہی ہے ، مقدس مقامات کی حرمتوں کی پامالی کا دل خراش منظر آج پھر کسی صلاح
الدین ایوبی کو آواز دے رہا ہے۔ارے او انسانیت کے ٹھیکہ دارو!تمہاری تہذیب
کہاں حرام کاری کرتی ہے؟تمہارا انصاف کہاں منھ کالا کرتا ہے؟جب ننھے بچوں
کو آگ کے بھڑکتے شعلوں میں ڈالا جاتا ہے،جب بوڑھے والدین کے سامنے بچیوں کی
عصمتوں سے کھیلا جاتا ہے،جب پر امید عورتوں کا شکم چیرا جاتا ہے،جب نوجوان
بچوں پر ٹینک چڑھا دیا جاتا ہے۔تم تو کہتے ہو کہ یہ مہذب و معراج انسانیت
کی دنیا ہے ۔سفاکیت،چنگیزیت اور وحشت کے سیاہ دور کو ختم کرنے والی دنیا۔کہ
جہاں انسانوں کا خون پی جانے والے جانوروں،وحشت ناک پرندوں،خوں خوار درندوں
اور ناپاک سوروں ،غلیظ کیڑوں کے لیے تو حقوق ہیں لیکن انسان سسک رہا ہے ،
مجھے بتاؤ کیا یہی معراج انسانیت ہے؟کیوں لب خاموش ہیں؟کیا جو ہمارے نزدیک
انسان ہیں وہ تمہارے نزدیک انسان نہیں؟ |
|