شام کا المیہ

حکومت چاہے آمرانہ ہو،بادشاہی طرز کی ہو یاجمہوری طرز کی اگر اس کا پورے ملک پر کنٹرول ہواور امن قائم کئے ہوئے ہوتوا س کے خلاف بغاوت کرنے یا اسے ختم کرکے کوئی متبادل نظام کی کوششیں اکثر ناکام ہوئی ہیں۔عراق اور شام کا انجام ہمارے سامنے ہے۔عراق کی بربادی میں تو واضح طورپر امریکہ اور برطانیہ شریک تھے۔خطرناک ہتھیاروں کا جھوٹا الزام۔اور ایک ایسی حکومت اور ساتھ ہی ریاست بھی ختم کردی گئی جو عوام کے لئے امن فراہم کئے ہوئے تھی۔عراقی سیکیورٹی ادارے بھی ساتھ ہی برباد ہوگئے اور اب کئی سال گزرنے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود عراق میں امن نہیں آسکا۔اس کا امکان مستقبل قریب میں بھی نظر نہیں آتا۔شام میں بشارالاسد کی حکومت بھی کافی عرصے سے قائم تھی۔یہ درست ہے کہ حکومت ایک خاص مسلک والوں کی تھی۔عرب بہار کے بعد مارچ2011ء میں دیرا شہر سے حکومت مخالف تحریک شروع ہوئی۔شروع میں حکومت مخالف گروہوں کو کافی کامیابی حاصل ہوئی۔حلب شہر سے سرکاری افواج کو نکال دیاگیا۔پھر لبنان سے حزب اﷲ شامی حکومت کی حمایت میں آگئی اور شامی حکومت کو ایرانی سے بھی مدد مل گئی۔یو ں پورا شام خانہ جنگی کی زد میں آگیا۔اب یہاں بے شمار گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں پورا شام کئی گروہوں کے قبضہ میں ہے۔کبھی حکومتی افواج آگے بڑھ کر کسی شہر پر قبضہ کرلیتی ہیں اور کبھی حکومت مخالف گروہ کامیابی کا اظہار کرتے ہیں۔اس طرح ایک خوبصورت ملک مکمل طورپر تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔کچھ علاقہ ISISکے پاس ہے۔کرد بھی کچھ علاقے پر اپنا کنڑول جمائے ہوئے ہیں۔النصرہ اور دوسرے سنی گروہ بھی کہیں کہیں کنٹرول کئے نظر آتے ہیں۔سرکاری افواج کے پاس آخری اطلاعات کے مطابق کافی بڑا علاقہ ہے۔اور انکی پیش قدمی جاری ہے۔حلب جودوسرا بڑا شہر ہے۔وہاں بھی سرکاری افواج نے گولہ باری کرکے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔اب تک60فیصد شہر کھنڈر بن چکا ہے۔بے شمار سول آبادی لقمہ اجل بن گئی ہے۔میڈیا پر لاشیں دیکھ کر خوف آتا ہے۔مرنے والے اور مارنے والے دونوں فریق کم ازکم بنیادی اسلامی کلمہ پر اتفاق کرتے ہیں۔پورا مشرق وسطیٰ فرقہ وارانہ لڑائیوں کی آماجگاہ بنانظر آتا ہے۔آدھی آبادی شام سے باہر پنا ہ لینے پر مجبور ہوگئی۔مہاجرین کی کشتیاں بحیرہ روم عبور کرتے ڈوب چکی ہیں۔یورپین بھی Moorsکو گلے لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔باقی آبادی اپنے ہی ملک میں محفوظ جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہے۔اب تک کی اطلاع کے مطابق3لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔لوگ خوراک اور پانی تک کو ترس گئے ہیں۔ریڈکراس کہیں کہیں کام کرتی نظر آتی ہے۔لیکن کروڑوں لوگوں کو ان کی تمام ضروریات پہنچانا ممکن ہی نہیں ہے۔صدر بشارالاسد حکومتی رٹ برقرار رکھنے کے لئے قتل عام کرنے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ایسے سفاک حکمرانوں کا ذکر تاریخ میں کہیں کہیں ہم پڑھتے تھے۔لیکن اب مہذب زمانے میں یہ تمام ہمارے سامنے ہورہا ہے۔اسے صرف علاقہ چاہیئے۔آبادی چاہے ساری ختم ہوجائے۔اب اسے بڑے ملک روس کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔روس نے30ستمبر2015ء کو اپنی افواج شام میں اتاریں۔جدید ترین ہوائی جہاز بھی پہنچا دیئے ہیں۔حکومت مخالف گروہوں پر تابڑ توڑ حملے کئے جارہے ہیں۔شامی حکومت کا پرانا اتحادی خوب ساتھ نبھا رہا ہے۔مذہبی یکجہتی کو سامنے رکھتے ہوئے ایران اور حزب اﷲ بھی بشار الاسد کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔امریکہ اس جنگ میں صرف اپنا اسلحہ حکومت مخالف گروہوں کو فروخت کررہا ہے۔ISISنے یہاں اپنی علیحدہ ریاست بنائی ہوئی ہے۔شام کی صورت حال کو Paradox ہی کہا جاسکتا ہے۔OICکہیں نظر نہیں آتی۔بیچارے شامی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔اسرائیل اور امریکہ خوش ہیں کہ عراق اور شام جو کبھی کبھی اسرائیل کو دھمکی دیتے تھے۔اب دنیا کے نقشے سے مٹ چکے ہیں۔وہ چاہیں گے کہ اس علاقے کے تمام مسلمان یوں ہی لڑتے لڑتے مکمل طورپر ختم ہوجائیں۔U.N.Oنے اب تک صرف قرار دادیں پاس کیں۔لیکن بشارالاسد کے خلاف کوئی قرار داد بھی روس پاس نہیں ہونے دیتا۔حکومت چاہے جبراً قائم ہوئی ہو یا عوام کی مرضی سے اگر اس نے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرلیا ہو۔اسے چلنے دینا چاہئے۔بغاوت اور اکھاڑ بچھاڑ کبھی بھی اچھے نتائج نہیں دیتی۔ہمارے بڑے بڑے آئمہ نے بھی حکومتوں کے خلاف خروج یا بغاوت کو جائز قرار نہیں دیا۔اگر کہیں جواز کا فتویٰ ہے ۔تو انتہائی کڑی شرائط لگائی ہیں۔ورنہ اکثرحکومتوں کی اطاعت کا ہی سبق دیاگیا ہے۔شام کا مسٔلہ اب انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ISISوالے کہتے ہیں کہ ہماری حکومت آسمانی حکم سے قائم ہے۔اس کو ختم کرنے کے لئے آجکل عراقی افواج موصل (عراق) کی طرف پیش قدمی کررہی ہیں۔تباہی دونوں طرف مسلمانوں کی۔شامی افواج اور النصرہ کی لڑائیاں تباہی مسلمانوں کی۔ایسے ہی باقی گروہوں کا حال ہے۔جس لڑائی میں روس اور امریکہ بھی حصہ لے رہے ہوں وہاں U.N.O کچھ بھی نہیں کرسکتی۔بڑے مسلم ممالک کو مل بیٹھنا چاہئے۔اور کوئی نہ کوئی حل نکالنا چاہئے۔میری مراد ترکی۔ایران،سعودی عرب،پاکستان اور انڈونیشیاء سے ہے۔یہ ملک کئی لہاظ سے مسلمانوں کے بڑے شمار ہوتے ہیں۔ایران اور سعودی عرب تو لڑائی میں شامل نظر آتے ہیں۔ترکی اب کسی حد تک مداخلت کرتا نظر آتا ہے۔لیکن ان5۔کو اکٹھا ضرور ہونا چاہئے۔کچھ مزید ممالک کو شامل کیاجا سکتا ہے۔کسی حد تک مدد ماثر مسلم دانشوروں سے بھی لی جاسکتی ہے۔مسلمانوں کے مستقبل کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لئے کسی کو تو آگے آناچاہئے۔امریکہ اور روس تو لڑائی کو مزید پھیلائیں گے تاکہ اس علاقے میں کوئی بھی ملک طاقتور نہ بن سکے۔بڑے اور ماثر مسلم ممالک کو آگے آنا چاہئے۔اور یہ خانہ جنگی ختم کرانی چاہئے۔حلب پر بلاناغہ بمباری ہورہی ہے۔یہاں کے لوگ مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔آخری ویڈیوبنا کر نیٹ پر ڈال رہے ہیں۔ان کو پتہ ہے کہ موت سامنے نظر آرہی ہے۔بچوں کی لاشیں قطاروں میں پڑی ہوئی ہیں۔قاتل بشارالاسد کو روکنے کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔بے بسی قابل افسوس ہے۔ترکی،ایران،پاکستان،سعودی عرب اور انڈونیشیاء کومل کر بیٹھ کر کوئی حل نکالنا چاہئے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.