8نومبر 2016ء سے ہندستان کے عوام کو جن
پریسانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، ان کے خاتمے کا سرا نظر نہیں آرہا،
اوّل تو پچاس دن کی میعاد میں بہت کم وقت رہ جانے کے باوجود عوام کے مسائل
اب تک پوری طرح حل نہیں ہو پائے ہیں، دوسرے آگے بھی ان کے لیے اس طرح کی
پریشانیوں کا خدشہ بنا ہوا ہے ۔ پردھان سیوک نے پانچ سو اور ایک ہزار کے
نوٹوں پر ایمرجنسی بریک لگا کر عوام کی جو حالت کی ہے ، اس سے ابھی وہ ابھر
بھی نہیں پائے تھے کہ بعض خبریں اس طرح کی موصول ہونے لگیں کہ بہت جلد دو
ہزار کے نوٹ بھی بند کر دیے جائیں گے ، اور کمال یہ ہے کہ بینک والے دو
ہزار کے علاوہ کوئی دوسرا نوٹ دکھانے تک کو تیار نہیں۔ ان خبروں کی مکمل
تصدیق تو نہیں ہو پائی، لیکن کہا جا رہا ہے کہ 2017ء کے جون میں اور بعض
موصولہ اطلاعات کے مطابق جنوری ہی میں سرکار ان نوٹوں کو اچانک بند کرنے
والی ہے ، تاکہ جن لوگوں نے نوٹ تبدیل کر بڑی مقدار میں جمع کر لیے ہیں،
انھیں دھر دبوچا جا سکے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دو ہزار کے نوٹ بند ہونے
پر انھیں بینک میں جمع کروانے کے لیے فقط دس دنوں کا موقع دیا جائے گا اور
ایک فرد کے اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپئے کی رقم جمع کروائی
جا سکے گی۔ان خبروں کی تصدیق نہ ہونے پانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ فی الوقت
افواہوں کا بازار بھی گرم ہے ،ممکن ہے یہ ایک افواہ ہی ہو، لیکن یہ بھی
ممکن ہے کہ کالے دھن کے نام پر ایک بار پھر غریب عوام کو بینکوں کی لائن
میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا جائے ۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ اس طرح کالے دھن پر روک لگے گی اور یہ یقین دہانی
کروائی جائے کہ اس کا یقینی فایدہ غریب عوام کو ہوگا، تب بھی ہمیں لگتا ہے
کہ یہ میعاد اور رقم کا تناسب ملک کے عوام کی تعداد اور اور مہنگائی کے
اعتبار سے غیر مناسب ہے ۔اگر ایسا ہوا تو سوا سو کروڑ شہریوں کے لیے دس دن
کی میعاد اور فقط پچاس ہزار کا تناسب حالات کو مزید بگاڑنے کا کام کرے
گا۔صحیح بات تو یہ ہے ملک کے عوام میں ایک بار پھر اس طرح کی کسی بھی
ایمرجنسی کو برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی، اس لیے جو بھی اقدام کیا
جائے اس میں ملک کے غریب عوام کا پورا خیال رکھا جانا چاہیے ، ویسے بھی ان
دنوں انھیں بینک کے بابوؤں اور باہر کھڑے حوال داروں کی طرف سے جس برے سلوک
کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، اس کی حقیقت وہی جانتا ہے ‘جس پر گزر رہی ہے۔
ہمیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب آپ کے بیان کے مطابق ان نئے نوٹوں میں
کوئی خفیہ چِپ یا تَرنگوں سے سگنل ملنے کا پورا انتظام کر دیا گیا ہے ، تو
پھر ان نئے نوٹوں کو بند کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ‘ جہاں حد سے زیادہ نوٹ
جمع ہوں، انھیں جاکر دھر دبوچیے ۔اتنے دنوں میں اپوذیشن نے نوٹ بندی کی
مخالفت میں جو کچھ کیا‘ اس کا بھی کوئی ثمر نظر نہیں آیا نیز ہم جیسے صحافی
گویا ان حالات کی منظر کشی کرتے کرتے تھک گئے ، لیکن عوام کا درد سمجھنے کے
لیے کوئی تیار نہیں،دلی تمنّا یہی ہے کہ کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی!
حالات کا جائزہ لینے پر یوں لگتا ہے کہ مسائل کو سلجھانے کے بہ جاے مزید
الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،اور بلا سوچے سمجھے ، ہواؤں میں کیش لیس
سماج کا تانا بانا بنا جا رہا ہے ، اس لیے کہ اطلاعات کے مطابق ڈیجیٹل
ادایگی کو فروغ دینے اور معیشت میں شفافیت لانے کے لیے حکومت جلد ہی ایسے
اعلانات کرنے والی ہے جس سے نقد ادایگی ڈیجیٹل ادایگی سے مہنگی پڑے
گی۔پالیسی کمیشن کے ایک سینیئر افسر کے بیان کے مطابق حکومت نے اس کے لیے
بلیو پرنٹ تیار کر لیا ہے اور جلد ہی اس کا اعلان کیا جا سکتا ہے ،گو اب تک
یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ کس طرح کیا جائے گا،اس میں نقد ادایگی پر اضافی
ٹیکس اور فیس کا بندوبست کریں گے یا ڈیجیٹل ادایگی پر اضافی راحت کے
اعلانات کیے جائیں گے ، اتنا ہی نہیں نیتی آیوگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر
امیتابھ کانت جیسوں کا کہنا ہے کہ جب تک معیشت میں نقد رقم کا استعمال ہو
رہا ہے ، تب تک کالا دھن بھی رہے گا اور اسی لیے حکومت نقدی سے پاک معیشت
بنانے کے لیے زور شور سے کام کر رہی ہے ،جب کہ ان کے علم میں یہ بات بھی ہے
کہ ملک میں 86 فی صد ٹرانزیکشن نقد میں ہوتا ہے ، جسے وہ صرف یہ کہہ کر نظر
انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مکمل طور پر نقدی سے پاک معیشت تیار کرنے
میں وقت لگے گا، لیکن حکومت کی کوشش کم از کم کم نقد والی معیشت کی جانب
بڑھنا ہے ۔حکومت نے ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دینے کے لیے کرسمس کے دن 25
دسمبر 2016ء سے صارفین کے لیے لکی کسٹمراسکیم اور ڈیجی منی ٹریڈرس اسکیم
شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ، جس کے تحت ڈیجیٹل ادایگی پر نقد انعامات
دیے جائیں گے ۔نیتی آیوگ کے سی ای اونے ان اسکیموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا
کہ ان اسکیموں میں تمام طرح کے ڈیجیٹل لین دین شامل ہوں گے ، اور یہ دونوں
اسکیمیں کرسمس سے شروع ہوں گی او رڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی یوم پیدائش 14
اپریل کو ختم ہوں گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں زمینی حقائق سے صَرفِ
نظر کرنے کا نتیجہ ہیں،اس لیے کہ ملک میں پوری طرح کیش لیس سوسائٹی کا تصور
تو آنے والی دہائیوں میں بھی مشکل لگتا ہے ، اور یوں اچانک اس کے لیے سوا
سو کروڑ کے عوام کو مجبور کرنا تو اکثر عوام کو پریشانیوں میں مبتلا کر دے
گا، اس لیے کہ ہندستان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے ، جنھیں اس نظام سے ایک
خوف سا لگتا ہے ، اور ان کا یہ خوف بلا وجہ بھی نہیں کہ آئے دن اس طرح کے
فراڈ سامنے آتے رہتے ہیں کہ اکاؤنٹ سے پوری کی پوری رقم صاف ہو جاتی ہے ۔پھر
آپ یہ تناسب بھی نکال لیں کہ کتنے خاندان و افراد ایسے ہیں جو اس نظام کو
بہ آسانی سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں‘ اس جانب پیش رفت کرنے سے پیش تر کیش لیس
نظام کو تھوپنا غریب عوام کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہوگا۔پھر ایسا بھی
تو نہیں کہ ہندوستان میں کیش لیس نظام کو بالکل نہیں اپنایا جا رہا، بلکہ
اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ پڑھے لکھے افراد خود ہی دھیرے دھیرے اس
نظام کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، پھر اس طرح مکمل یش لیس
نظام تھوپنا چہ معنی دارد! |