پاکستان۔ امن کی زبان کیوں نہیں سمجھتا۔؟
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
یوں تو آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان اور
پاکستان کے درمیان تلخیوں کا آغاز ہوچکا تھا ۔ کشمیر کا مسئلہ اور پھر
مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کی پاکستان سے علحدگی کے بعد سے ہندو پاک کے
درمیان جس قسم کے حالات ہوئے اس کا علم ہندو پاک کے عوام کو بخوبی ہے۔ آج
بھی ہندو پاک کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ہو کہ بلوچستان کی علحدگی کا مسئلہ۔
پاکستان جس طرح ہندوستانی کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر لیجانا چاہتا ہے
وہیں موجودہ ہندوستانی حکومت بلوچستان کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا
چاہتی ہے ۔ کشمیر کے مسئلہ کا حل شائد صدیوں جاری رہیگا کیونکہ ہندو پاک کی
حکومتیں کبھی نہیں چائیں گی کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے۔ ان حکمرانوں کو
اقتدار پر فائز رہنے کے لئے کشمیر ایک ایسی ڈھال ہے کہ جب کبھی ہندو پاک کی
مرکزی حکومتیں متزلزل ہونے لگتی ہیں تو کشمیر کا حل طلب مسئلہ انہیں یاد
آجاتا ہے۔ ہندو پاک کے عوام بھی اپنے حکمرانوں کی س پالیسی سے واقف ہونے کے
باوجودکچھ کرنہیں سکتے۔ گذشتہ دنوں ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے
جموں و کشمیر کے کتھوا ضلع میں یوم شہیداں کے موقع پر خطاب کے دوران
پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان مذہبی خطوط پر ہندوستان کی تقسیم
کرنے کی سازش کررہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس
سے باز آجائے ورنہ پاکستان دس ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ انہو ں نے کہا کہ
1947ء میں ہم مذہبی بنیادوں پر تقسیم کئے گئے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی آزاد ی پر کہتے ہوئے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ
نے کہا کہ ہندوستان ایک ایسا واحد ملک ہے جہاں اسلام کے 72فرقے پرامن زندگی
گزار رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ ہندوستانی حکومت ملک کے تمام
شہریوں کو ایک ساتھ لے کر ترقی کے راستہ پر پیشرفت کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے
پاکستان میں دہشت گرد ی کے خاتمہ کے لئے ہندوستانی تعاون کا پیشکش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ پاکستان کے ساتھ پرامن رہنا چاہتا ہے لیکن
پاکستان دوسروں کی جانب سے لڑی جانے والی بالواسطہ جنگ میں ملوث ہورہا ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے مزید کہا کہ ہندوستان کا ہر ایک وزیر اعظم پاکستان کے
ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی لیکن پاکستان امن کی زبان نہیں سمجھ
سکتا، پاکستان نے جب کبھی ہندوستان پر حملہ کیا ہندوستان نے منہ توڑ جواب
دیا اب بالآخر پاکستان سمجھ چکا ہے کہ وہ کسی جنگ میں ہندوستان کو شکست
نہیں دے سکتا۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ دہشت گردی کسی بہادر کا نہیں بلکہ
کمزور کا ہتھیار ہے ۔ ہندوستانی وزیر داخلہ کے اس خطاب پر اپوزیشن کانگریسی
قائد راہول گاندھی نے ان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتفاق کرتے ہیں کہ
پاکستان اگرچہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر منقسم کرنے کی سازش کررہا ہے
لیکن وزیر داخلہ اور انکے ’’باس‘‘ وزیر اعظم نریندر مودی بھی تو یہی کررہے
ہیں ۔ ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی جانب سے پاکستان پر ہندوستان
میں مذہبی بنیادوں پر ٹکڑے کرنے کی سازش کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وفاقی
وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ ہندوستان خود تقسیم کا شکار ہے اور اسے
کسی دوسرے ملک نے نہیں بلکہ خود اس کی اپنی پالیسیوں نے تقسیم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہوتے ہوئے کسی اور کو
ہندوستان میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہی نہیں
ہے انکا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان میں کیسے وہ جماعت اور حکومت پاکستان پر
الزام لگاسکتی ہے جن کی اپنی بنیادیں مذہبی انتہا پسندی ، تقسیم کرنے کی
پالیسی ، نفرت اور تشدد پر مبنی ہوں۔ چودھری نثار نے بی جے پی حکومت پر
الزام عائد کیا کہ بی جے پی کے ہاتھ بے گناہ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے
ہیں۔ہندوستان میں اقلیتوں کے لئے زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے اور نریندر مودی
کی حکومت میں اقلیتیں کئی خطرات اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔یہ تو ہندوستان
اور پاکستان کے وزراء داخلہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہوئے ملک کی
تقسیم کی بات کررہے ہیں لیکن کیا واقعی ہندوستان اور پاکستان کے عوام
خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں اس سلسلہ میں حکومت، فوج اور میڈیا کے مطابق
جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کچھ کمی
دکھائی دے رہی ہے پاکستانی فوج اور پاکستان کی نواز شریف حکومت کا دعوی ہے
کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے جو کارروائیاں کی گئیں اس میں
انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردانہ کاررائیاں ہی نہیں
بلکہ ڈکیتی، قتل و غارت گیری،لوٹ مار، ڈاکا زنی کے واقعات میں بھی کمی
بتائی جارہی ہے ۔ادھر ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ مرکز میں بی جے پی
حکومت قائم ہونے کے بعد سے ہندودہشت گردوں نے ظالمانہ کاررئیاں انجام دیتے
ہوئے مختلف الزامات کے تحت کئی مسلم نوجوانوں اور بے قصور افراد کو قتل کیا۔
سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کے کئی علاقوں میں مسلم
افراد کوگائے کشی کے نام پر خطرناک سزائیں دے کر ہلاک کیا گیا یہی نہیں
بلکہ بعض مقامات پر گائے کا گوبر کھانے اور اسکا پیشاب پینے پر مجبور کیا
گیا۔ اس کے باوجود ہندوستانی مرکزی حکومت ہوکہ دیگر ریاستی حکومتیں ان ظالم
ہندودہشت گردوں کو کھلے عام زندگی گزارنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ہونا تو یوں
چاہئے تھا کہ ان ظالم بدمعاش ہندوؤں کو جنہوں نے بے گناہ ، معصوم مسلمانوں
کو جس اذیت ناک سزائیں دیں یا غلاظت کھانے اور پینے پر مجبور کیا انہیں
ایسی سخت اور دردناک سزا دینا چاہیے تھا تاکہ ملک میں آئندہ کوئی بھی شخص
تعصب پرستی کی بنیاد پر اس قسم کی کارروائی کرنے سے خوف کھائے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی ، ظالموں کو جس طرح بڑھاوا دیتی
ہے وہیں مظلوموں کو بھی احساس کمزوری کا شکار بنادیتی ہے۔ ہندوستان ایک
جمہوری ملک ہونے کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ تعصب پرست رویہ ہر موڑپر، ہر
محکمہ و دفتر ہی نہیں بلکہ ہر میدانِ عمل و کاروبار میں محسوس کیا جاسکتا
ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض شہروں اور علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا
تناسب بہتر ہے وہاں مسلمانوں کیلئے کچھ تحفظ نظر آتا ہے البتہ ایسے شہروں
میں بھی مسلمانوں کو کئی مسائل و مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔ ترقیاتی کام سست
روی کا شکار ہوتے ہیں ۔ مرکزی و ریاستی حکومت کی اسکیمیں تعلیم و روزگار
کیلئے موجود ہے لیکن بعض تعصب پرست ہندو عہدیدار مسلمانوں کو آگے بڑھنے
نہیں دیتے اور مختلف طریقوں سے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرکزی وزیر
داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بیان کے مطابق اگر ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی
حکومتیں مسلمانوں کے ساتھ واقعی دیگر ابنائے وطن کی طرح پیش آنے لگیں تو وہ
دن دور نہیں جب ملک میں ہر طرف خوشحال زندگی کی بہاریں لوٹ آئیں گی۔ملک کے
ہر شہری کو لے کر چلنے کی بات ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کی
اور وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ بھی کرتے ہیں لیکن کیا واقعی بی جے پی پالیسی
انہیں اس کی اجازت دے سکتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زبان سے کہہ دینا
اور بات ہے اور کردکھانا اور بات ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں جب کبھی حکمرانوں یا فوجی سربراہوں کی تبدیلی
ہوتی ہے تومیڈیا خصوصاً الکٹرانک میڈیا کی خصوصی دلچسپی اور اس پر تبصروں
کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ تبدیلیاں انکے اپنے ملک میں
ہوئی ہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان کے خفیہ ادارے (آئی ایس آئی)کے سربراہ کی
تبدیلی عمل میں آئی۔ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کور کمانڈر کراچی کو ڈی جی
آئی ایس آئی مقرر کیا گیا ہے جبکہ لیفیننٹ جنرل بلال اکبر کو چیف آف جنرل
اسٹاف تعینات کیا گیا ۔ کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں سابق
کور کمانڈر نوید مختار اور ڈائرکٹر جنرل رینجرز بلال اکبر کی پارٹنرشپ
بتائی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق کہا جارہا ہے کہ کراچی میں ان دونوں
کے درمیان کورآرڈینیشن کارآمد ثابت ہوا اور اب کہا جارہا ہے کہ ان دونوں کی
ان عہدوں پر تعیناتی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ مستقبل میں ملک کی اندرونی
سیکوریٹی کو اولیت حاصل ہوگی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نوید مختار کے تعلق سے
یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ افغانستان کو کافی اہمیت دیتے ہیں نوید مختار
اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کا ماضی، حال اور مستقبل
افغانستان سے وابستہ ہے ، ایک متحد و مستحکم افغانستان ، پاکستان کی
سیکیوریٹی اور پالیسی کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ انکے مطابق پاکستان کو
چاہیے کہ افغانستان میں ایک اور مخاصمانہ محاذ روکنے کی کوشش کرے۔ انکے
مطابق افغانستان ، ہندوستان کی پراکسی وار بن سکتا ہے۔ پاکستان ، افغانستان
میں ہندوستان کے اثرو رسوخ بڑھنے کو قریب سے دیکھے گا اور اس کی روک تھام
کے لئے سخت اقدامات لے سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق گذشتہ دنوں ہندوستان
کے شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے بعد نئے آئی ایس
آئی سربراہ کے خدشات سچ ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ہندوستان نے جس
طرح افغانستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بات کی ہے اور افغانستان و
ہندوستان نے جس طرح پاکستان کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لئے ذمہ دار
ٹھہرایا ہے اس کے بعد پاکستانی حکومت، فوج اور خفیہ ادارہ آئی ایس آئی
افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کیلئے نئی راہیں تلاش کرے گا۔ |
|