چند ماہ قبل جب سردار غلام عباس مسلم لیگ
(ن) میں شامل ہوئے تو ان دنوں میں نے اُن کی شخصیت پر ایک کالم تحریر کیا
تھا اور اس میں ایک عربی ضرب المثل کوٹ کی تھی ’’ایک عربی نے اپنے خیمے میں
ایک اونٹ کو تھوڑی سی جگہ دی اور پھر اونٹ خیمے کے اندر تھا اور عربی
بیچارا باہر‘‘۔ اس مثل کو لوگوں نے بہت سراہا تھا اور آج تو لوگ مجھے اکثر
وہ بات یاد کراتے ہیں کہ آپ نے اُس وقت کتنی زبردست مثال دی تھی۔ ان دنوں
مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ سردار غلام
عباس کے پاس اپنا ذاتی ووٹ بنک ضرور موجود ہے اور اُن کی شخصیت کی ایک خاص
بات یہ ہے کہ وہ جس جگہ بھی ہوں وہاں نمایاں نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن
کی شخصیت میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ وہ اپنی بات منوانے کا فن جانتے ہیں اور اگر
کوئی نہ مانے تو اپنی الگ ’’ڈھوک‘‘ لگا لیتے ہیں۔ ابھی جب کئی بار کی
کوششوں کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تو اُس وقت کہا تھا کہ میں مسلم
لیگ (ن) میں بلامشروط شامل ہوا ہوں مگر چند دن کے بعد کسی کو پتہ ہی نہ چلا
اور وہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے آگئے۔ اسی دوران میاں
حمزہ شہباز اور میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات کر لی پرانے مسلم لیگی
ملاقات کے لئے لائنوں میں لگے رہے۔ سردار غلام عباس نے اپنا آپ دکھانا شروع
کر دیا۔ میرے وسوسے اور خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ اب جب ضلع چیئرمین کے
لئے نام سامنے آنے لگے تو سردار غلام عباس اچانک کود کر میدان میں آگئے اور
توقع سے زیادہ متحرک ہو گئے۔ سردار غلام عباس اور ملک سلیم اقبال کے حمایت
یافتہ ملک طارق ڈھلی اور وائس چیئرمین کے لئے چوہدری خورشید بیگ کا نام دیا
گیا اور اسی گروپ کو شیر کا نشان بھی مل گیا جبکہ ان کی مخالفت مسلم لیگ
(ن) کے باغی گروپ ملک نعیم اصغر اعوان اور پاکستان تحریک انصاف کے راجہ
طارق کالس کریں گے۔ ملک نعیم اصغر اعوان کو گلدان کا انتخابی نشان ملا ہے۔
سردار غلام عباس کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی
کارکن اور ایسے کارکن کہ جنہوں نے مشرف دور میں جیل کی سلاخیں برداشت کیں،
انتظامیہ کی سختیاں اور جعلی پرچے برداشت کئے جن کے لئے مشرف کا دور بدترین
دور تھا اور یاد رہے کہ اُس وقت ضلعی ناظم سردار غلام عباس تھے اور یہ تمام
تر سختیاں اور جعلی مقدمات اُسی دور میں بنائے گئے لیکن ان نظریاتی کارکنوں
کو ان کی قربانیوں کا بہت زبردست صلہ دیا گیا اور ان پر ایک بار پھر سردار
غلام عباس کو مسلط کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو صرف اور صرف ووٹ
بنک سے پیار ہے، اُن کو اس بات سے قطعی سروکار نہیں کہ آیا اس ووٹ بنک
رکھنے والے نے ماضی میں کیا گل کھلائے ہیں۔ ان کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت
پر بھی میں نے لکھا تھا کہ چوہدری لیاقت اور ملک تنویر اسلم کی رضا مندی کے
بغیر وہ کبھی بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل نہیں ہو سکتے تھے اور ابھی بھی وہ
جو جو عمل کر رہے ہیں اس میں چوہدری لیاقت اور ملک تنویر اسلم کی شہ شامل
ہے۔ میرے خیال میں چوہدری لیاقت اور ملک تنویر اسلم اب جنرل گروپ سے کنارہ
کشی چاہتے ہیں یا پھر کھڈے لائن لگانا چاہتے ہیں مگر ایم این اے میجر (ر)
طاہر اقبال، ملک نعیم اصغر اعوان، ایم این اے سردار ممتاز ٹمن، ایم پی اے
سردار ذوالفقار دُلہہ، چوہدری خالق منوال اور چوہدری ضمیر ڈھاب نے ایک بار
پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ کلمہ حق کہنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ملک نعیم اصغر
جیتیں یا ہاریں مگر اُنہوں نے کم از کم جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ
دیا ہے۔ انہوں نے اقتدار کو اہمیت نہیں دی بلکہ اپنے کارکنوں کے جذبات کا
خیال رکھا ہے اور ان کا یہ عمل ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا۔
سردار غلام عباس نے اپنی جگہ بنانے کے لئے باقی سینئر ارکان پارلیمنٹ کو
بائی پاس کرنے سے گریز نہیں کریں گے اور یاد رکھیں کہ سردار غلام عباس نہ
بے نظیر بھٹو کا بنا، نہ وٹو، نہ شجاعت، نہ پرویز الٰہی، نہ مشرف، نہ عمران
خان اور نہ ہی اب میاں نواز شریف کا بنے گا۔ سردار غلام عباس صرف اپنی ذات
کا ہے اور رہے گا۔ ابھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو کر بھی اپنے گروپ سردار
گروپ کو نمایاں رکھا ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس تمام چھ سیٹیں موجود ہیں۔
سردار غلام عباس کے آنے سے بھی چھ سیٹیں آٹھ نہیں ہو سکتیں مگر جس طرح
ڈسٹرکٹ چیئرمین کے معاملے میں ٹکٹ کی تقسیم کی گئی ہے اور جس طرح نظریاتی
مسلم لیگی کارکنوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے اس کی کسی کو توقع نہ
تھی۔ میرے خیال میں چوہدری لیاقت اور ملک تنویر اسلم کو اپنا مثبت کردار
ادا کرنا چاہئے تھا۔ اگر ٹکٹ سردار غلام عباس، ملک سلیم اقبال کی صوابدید
پر ہی دینا تھا تو پھر کم از کم ایم این اے میجر (ر) طاہر اقبال، ملک نعیم
اصغر، ایم این اے سردار ممتاز ٹمن، ایم پی اے سردار ذوالفقار دُلہہ کو بھی
اعتماد میں لینا چاہئے تھا اور یہاں پر ایسے چیئرمین حضرات جو ظاہری مفاد
دیکھ کر اپنی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں اُن کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔
اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ سردار غلام عباس نے چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا
بھائی کہا اور اُن کے وزیر اعلیٰ کے دور میں خوب مزے لئے۔ جنرل مشرف سے بھی
ایسے ہی ملتے تھے جیسے ابھی میاں برادران سے مل رہے ہیں مگر جب اُن کی کشتی
ڈوبتی دیکھی تو پھر اپنی الگ منزل تلاش کر لی۔ اب دیکھیں کہ مسلم لیگ (ن)
کے ساتھ ان کا ساتھ کب تک چلتا ہے اور جہاں مشرف دور میں دو بار ناظم اعلیٰ
چکوال کے مزے لوٹے تو کیا وہ مسلم لیگ (ن) کے بھی مزے لوٹیں گے اور اس عربی
اونٹ کی مثال کی طرح ہو گا کہ اونٹ خیمے کے اندر اور پرانے مسلم لیگی حضرات
خیمے کے باہر۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کی صوبائی
قیادت مسلم لیگ (ن) چکوال کو انتشار اور پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ سے بچانے میں
کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا
سردار عباس مسلم لیگ (ن) کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں یا پھر کئی پرانے
مسلم لیگیوں کی سیاسی موت بن کر سامنے آتے ہیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں
سردار عباس اپنے ووٹ بنک کا فائدہ اُٹھائیں گے اور یقینا اگلے الیکشن تک
اپنی پوزیشن پارٹی میں بہتر کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بات ان کے علم میں
ہے کہ چوہدری لیاقت اور ملک تنویر اسلم ان کے لئے زیادہ مسائل پیدا نہیں
کریں گے۔ جو لوگ مسائل پیدا کرنے والے ہیں وہ یا تو پارٹی سے الگ ہو جائیں
گے یا پھر پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے اور یہ بھی امکان ہے کہ ضلع
چیئرمین کے الیکشن کے بعد صوبائی قیادت اس تمام تر صورت حال میں اپنا
بھرپور کردار ادا کر کے ان تمام ارکان پارلیمنٹ اور سردار عباس کو ’’قومی
اور عوامی مفاد‘‘ کی خاطر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اس وقتی
ڈرامے کا ڈراپ سین ہو جائے۔ چونکہ اس وقت مسلم لیگ (ن) میں جو لوگ سردار
غلام عباس کی مخالفت کر رہے ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر کدھر جائیں گے
اور میرے خیال میں ان کو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہئے مسلم لیگ (ن) میں
مہمان کی حیثیت سردار غلام عباس کی ہے گھر تو پرانے مسلم لیگیوں کا ہے۔ اگر
کسی کے گھر میں کوئی مہمان آئے تو وہ اپنے گھر سے دُوسرے گھر میں نہیں چلا
جاتا۔ مجھے اُمید ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو میرا اشارہ سمجھ آگیا ہو گا۔ اﷲ
تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |