ملک ِ شام :تباہی کے دہانے پر
(Maemuna Sadaf, Rawalpindi)
ملک ِ شام چند مضبوط ممالک جن میں لبنان ،
ترکی ، عراق ، اردن اور اسرائیل جیسے ممالک کے درمیان واقع ہے ۔ صدر بشار
الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ ملک جہاں زندگی خوبصورتی کے ساتھ رواں
دواں تھی ، ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا وہاں اندرونی خلفشار اور بیرونی
قوتوں کی دراندازی کی وجہ سے آج شہر کے شہر کھنڈرات کا نمونہ پیش کرتے ہیں
۔ بشار الاسد کی کرد باغیوں کے خلاف فوجی کاروائیوں ، سنی شعیہ فسادات ،
اور ملک میں خانہ جنگی نے کئی خاندانوں کو زندگیوں سے دور کر دیا ہے جبکہ
کئی خاندان اپنا گھر بار چھوڑکر ملک سے ہجرت کر جانے پر مجبور ہیں ۔ ملک
شام 2011ء سے خانہ جنگی کا شکار ہے ۔چند روز پہلے شام کے صدر بشار الاسد نے
حلب شہر کی فتح کا اعلان کیا ۔ اس شہر کو فتح کرنے کی خاطر صدر بشار الاسد
نے انسانی لاشوں کے انبار لگا دئے ۔روسی بمباری اور صدر بشار الاسد کی جانب
سے بھاری اسلحہ اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے حلب شہر کو کھنڈر بنا
دیا ہے ۔ تاریخی مسجد امیہ سمیت شہر کی مختلف مساجدکو بھی شہید کر دیا گیا
۔ کئی گھر ، عمارتیں ، سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں ۔خواتین اور بچوں سمیت بے
گناہ شہریوں کا قتل ِ عام کیا گیا، شہر میں شہید ہونے والے پچاس ہزار افراد
نے دنیا کو دل دہلا دینے والا پیغام دیا کہ ہم جا رہے ہیں یہاں تک کہ شام
میں مقیم مسلمان بہنوں ، بیٹیوں نے اہل ِسنت علماء کو خطوط لکھے ہیں کہ
بشار الاسد کی فوج کی جانب سے ہونے والے مظالم اور عصمت دری سے بچنے کے لیے
خود کشی جائز ہے یا نہیں ؟ شام کی سرزمین اس طویل خانہ جنگی کی وجہ سے
مسلمانوں ہی کے خون سے تر ہو چکی ہے ۔عالمی ضمیر چاہے وہ عرب ممالک کی
تنظمیں ہو ں یا اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل یا پھر انسانی حقوق کے عالمی
ادارے تمام ہی طاقت اور کیمیائی ہتھیاروں کے اس بدترین استعمال پر خاموش
تماشائی بن کر صرف اور صرف مذمت کے بیانات تک محدود ہیں ۔مسلمان مائیں ،
بہنیں آج شام میں بھر سے بپا کربلا میں کسی حجاج بن یوسف کو پکارتی ہیں جو
ان کی عزتو ں اور بڑی تعداد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کو بچانے کے لیے
آئے ۔
فرانس اور ایمنسٹی انٹر نیشل نے 14 دسمبر 2006ء انسانی تاریخ کا شرمناک
ترین دن قرار دیا ۔اہل ِ شام کی اس تعداد میں نسل کشی تاریخ عالم میں ہونے
والی دہشت ناک واقعات میں سے ایک ہے ۔
اب آئیے اہل ِ شام کی تاریخی حیثیت پر ۔شام کا علاقہ عرب ممالک اور اسرائیل
کے درمیان ایک پل کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔ شام کی مضبوطی پورے عرب کی مضبوطی
ہے جبکہ شام کی تباہی پورے عرب کے لیے تباہی کا پیغام ہے ۔
رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ جب اہل ِ شام تباہی و بربادی کا شکار ہو جائیں تو
پھر تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی اور میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت
رہے گی جسے اﷲتعالی ٰ کی مدد و نصرت حاصل ہو گی اور اسے نیچا دکھانے والے
قیامت تک اس جماعت کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ (سنن ترمذی :۲۱۹۲ باب
ماجاء فی الشام :حدیث صحیح )
موجودجغرافیائی تقسیم کے مطابق اہل شام سے مراد فلسطیں ، شام ، اردن اور
لبنان کے باشندے مراد ہیں ۔فلسطینی باشندے تو طویل عرصے سے اسرائیلی جارحیت
اور بربریت کا شکار ہوکر اپنی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ لبنان کے
باشندے بھی خانہ جنگی کا شکار ہو کر ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے ہیں ۔اب
شام میں ہر گزرنے والا دن تباہی اور بربادی کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے
۔ شام کے لیے آبزویٹری برائے انسانی حقوق کے اعداد و شمار کے مطابق بشار
الاسد ، ایران ، حزب اﷲ،داعش اور دیگر مسلح ملیشیا کے ہاتھو ں 2011ء سے اب
تک دو لاکھ پندرہ ہزار سے زائد شامی مسلمان ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عام
شہریوں ، عورتوں اور بچوں کی ہے جبکہ بیرونِ ملک ہجرت کرنے والوں کی تعداد
چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اندرون ِملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد چھہتر
لاکھ سے متجاوز کر چکی ہے ۔ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی کسی ہمسایہ ملک میں
کھلے ہاتھوں نہیں لیا گیا ۔ بنا چھتوں کے مہاجر کیمپوں میں مقیم یہ مہاجرین
زندگی کی ناگفتہ بہ صورتحال اور نامسائد حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور
ہیں ۔موسم کی سختی ہویا بے سرو سامانی کا عالم ہو ان مہاجرین کا کوئی پرسان
ِ حال نہیں ۔ مہاجرین میں سے اکثر ان سختیوں کے آگے اپنی زندگیاں ہار جاتے
ہیں ۔ یہاں پنیپنے والے بچوں کے لیے نہ تو تعلیم ہے اور نہ کھانا ۔ ملک میں
کسی کی بھی حکومت ہو ، کوئی بھی فرقہ ملک میں طاقت حاصل کرے ان سسکتے بچوں
اور بے امان بیٹیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے انھیں غرض ہے تو صرف اور صرف
اپنی نسل کی حفاظت کی ۔
طاغوتی طاقتیں دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر شام کی شہر ی آباد ی پر آگ و
بارود برسا رہی ہیں ۔سرزمینِ شام پر ماضی قریب اور ماضی بعید کے مختلف
ادوار میں سنگین حالات سے گزرتی رہی ہے لیکن حال ہی میں ہونے والی تباہی
اور بربادی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ۔سب سے بڑھ کر پریشان کن حالات
یہ ہیں کہ امت ِ مسلمہ ابھی تک بے حسی اور غفلت کا شکار ہو چکی ہے ۔ مسلمان
تنظیمیں بھی اس تعداد میں مرنے والے مسلمانوں کی خاطر کوئی خاطر خواہ اقدام
نہیں کر رہی ۔ مسلم امہ اس وقت مشترکہ لائحہ عمل اختیا ر کرنے کی بجائے
ٹکڑیوں میں بٹ چکے ہیں ۔ ترکی ایک مضبوط اسلامی ریاست ہے جو کہ شام کے
بالکل قریب ہے وہ بھی شامی مسلمانوں( بلکہ یہاں شام کے بسنے والے انسانوں
کا لفظ زیادہ بہتر رہے گا ) کے قتل ِ عام کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر نہ
صرف بالکل خاموش ہے بلکہ کرد باغیوں پر قابو پانے کے نام پر شام کے شمالی
علاقہ پر بمباری بھی کر رہا ہے ۔ دوسری جانب پاکستان ہے جو کہ ایک ایٹمی
ریاست ہوتے ہوئے بھی اقوام ِ عالم میں بالکل تنہا ہو چکا ہے ۔عرب ممالک ہیں
تو وہ خاموش تماشائی کی حیثیت سے شام کی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں ۔
مسلم امت کا یوں ٹکڑوں میں بٹ جانا ہی دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمانو ں
پر ہونے والے مظالم کا ذمہ دار ہے ۔ تما م عالم میں کئی ایسے علاقے ہیں
جہاں مسلمان نہ صرف کمپسری کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ مسلمان ممالک یا تو
جنگ و جدل ، مذہبی فرقہ پرستی کا شکار ہیں یا پھر دوسری اقوام کے ہاتھوں
ظلم اور بربریت کا ۔ انتہا تو یہ ہے کہ اﷲ کے نام لیوا اپنے ہی ہم مذہبوں
کو قتل کر نے میں مصروفِ عمل ہیں ۔
یہاں یہ بات واضع کرتی چلوں کہ مسلمانوں کی اس حالت ِ زار ، دنیا میں
رسوائی مسلمانوں کا مقدر نہیں بلکہ خود مسلمانوں کی ایسی سنگین غلطیاں ہیں
جن کے نتیجہ میں مسلمانوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مسلمانوں کی
اس فرقہ پرستی کا فائدہ مسلمانوں کے دشمن اٹھاتے ہیں ۔ مسلمان ممالک کا یہ
حال ہے کہ ہر ملک صرف اور صرف اپنے ہی مفا د کوسو چ کر خاموش تماشائی بنا
ہو اہے چاہے دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمان ( وہ اقلیت ہوں یا اکثریت )
قتل ہوتے رہیں ۔ اس کا موازنہ کیجئے مغربی ممالک سے فرانس میں ہونے والے
دہشت گردی کے حملے کے بعد جو اتحاد ان ممالک میں نظر آیا مسلمان ممالک میں
اس کا عشر ِ عشیر بھی مل جائے تو دنیا میں مسلمان پھر سے عزت و آبرو کے
ساتھ زندگی گزارنے لگیں ۔ اقوامِ عالم میں مسلمانوں کی حیثیت کا تعین ہو
سکے ۔ عرب ممالک اگر اپنی قوت سے آگاہ ہوجائیں تو تمام عالم ان کے زیر ِ
نگیں ہو جائے لیکن افسوس صد افسوس مسلمان خود مسلمانوں کا گلا کاٹنے میں
مصروف ہیں ۔ ایسے حالات میں مسلم امہ کو کسی دوسرے دشمن کی ضرورت باقی نہیں
رہتی ۔اہل تشیع ہوں یا اہل ِ سنت اسلام ہی کے حصے ہیں ۔ دین کو اپنی طاقت
بنانا چاہے نہ کہ کمزوری ۔ |
|