تمہید میں بھی اس بات کی تمہید باندھنے کی
قطعا ضرورت نہیں کہ ہم جس ارضِ وطن کے باسی ہیں وہ کن بے مثال و بے نظیرو
لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔آج کی ہنستی کھیلتی ماوں کو یہ بتانے کی ضرورت
نہیں کہ تب تحریکِ پاکستان میں ماوں نے کس جگر سے اپنے لعلوں کو نیزوں پر
لٹکتے دیکھ کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔آج کی بہنوں کویہ جتانے
کی ضرورت نہیں کہ کس صبر سے وہ اپنے بھائیوں کے چھلنی جسموں کو گود میں
لٹائیچھلکتی آنکھوں سے پکارتی تھیں کہ
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لا الہ الااﷲ
مختصر یہ کہ یہ ریاست اس قوم کو خیرات یا کوڑیوں کے بھاو میں نہیں ملی۔ آج
ہم جس فضاء میں سانس لے رہے ہیں اس آزادی بھری فضاء کے لئے ہمارے آباء و
اجداد نے بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔وہ قیمتیں چکانا ان کا فرض نہ تھا بلکہ قرض
تھا ہم پر کہ آج اس ریاست میں زندگی کے مزے ہم لوٹ رہے ہیں۔ہمیں اس ریاست
کوکا مضبوط قلعہ بنانا تھا۔اسلام کا مضبوط قلعہ جس میں انسانوں کی پہچان
مذہب،فرقے یا پارتیز سے نا ہو بلکہ اس مضبوط قلعہ میں بسنے والوں انسانوں
کی پہچان انسانیت ہو۔ہم پر فرض تھا کہ اسلام کے اس قلعہ میں اسلام کے ساتھ
ساتھ دنیا کا ہر مذہب پھلتا پھولتا ہو۔ہم پر فرض تھا کہ غربت سے مجبور ہو
کر چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے اسے با عزت روزگار مہیا کیا
جائے۔یہ ہمارا فرض تھاکہ اپنے بڑوں کی قربانیوں کو سنبھالتے ہوئے یوں کرتے
کہ کسی غریب کے دہشت گرد بننے سے پہلے اس غریب کو ہمدردی اور انسانیت کے
رشتہ میں لپیٹ کر اسے غیرت و وقار کی زندگی کی راہ دکھاتے۔ہمارا کردار یہ
ہوتا کہ اس سے بیشتر کہ کسی کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے بے ایمانی یا ناپ تول
میں کمی کرنے کی ضرورت پیش آتی ہم اس کے گزر اوقات میں اس کے معاون ثابت
ہوتے۔یہ ہمارا ہی فرض تھا کہ ہماری پولیس حقیقتا لوگوں کے محافظ ہی کہلواتی
اور یہ ہمارا ہی حسنِ عمل ہونا چاہئے تھا کہ ہماری فوج صرف سرحدوں کی حفاظت
پر ہی معمور ہوتی۔اور ان سب سے بڑھ کرہمارا کردار،حسنِِ عمل،اورفرضِ عین یہ
ہونا چاہئیے تھا کہ اس لاڈلی ارض پاک کو ہم جن حکمرانوں کے سپرد کر رہے ہیں
وہ اس اہل بھی ہوں کہ اور اس ارض وطن کو پھولوں سے بھریں نا کہ اس ارض وطن
میں بسنے والوں کو خون میں نہلائیں۔ ''ہم'' اس ملک میں بسنے والے اس ملک کے
لئے کتنے مفید ثابت ہوئے اورکتنے نقصان دہ۔۔۔ یہ دو الگ باتیں ہیں اورسیر
حاصل بحث طلب ہیں۔مزید اک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے انفرادی و اجتماعی
رویوں نے اقوامِ عالم میں پاکستان کی کیا شکل و صورت پیش کی ہے اور ان کے
نزدیک ہماری وقعت کیا ہے؟ْْْآئے روز تذلیل ،آئے روز بھارتی جارحیت۔۔۔کبھی
گولہ باری کی صورت میں اور کبھی آبی دہشتگردی کی صورت میں۔۔
یہ کہتے تو ہمارے منہ نہیں تھکتے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔پاکستان کی
بری،بحری،فضائیہ تمام افواج کا دنیا کی کسی فوج سے کوئی مقابلہ
نہیں،انٹیلیجنس اتنی مضبوط کہ غیر ملکی تربیت لینا اپنے لئے اعزاز سمجھتے
ہیں مگر یہ کیاکہ یہاں سابقہ وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ بھی ہو جاتا ہے۔کرکٹ
ٹیم تک کی حفاظت کا پلان ہے نہیں ہمارے پاس،پاکستان میں موجود مشہور شہروں
کے نام یوں چاہے یاد بھی نہ ہوں مگر سانحات کے ساتھ سب کو ازبر ہوں گے۔
سانحہ پشاور سے لیکر سانحہ کراچی تک سب شہر اس میں شامل ہیں،باقی حفاظتیں
تو اک طرف دنیا کی اعلٰی فوج کے زیرِ نگرانی چلنے والے سکول تک کو تو چھوڑا
نہیں ہمارے دشمنوں نے۔۔۔یقینا ہمارا دفاع مضبوط ہونا چاہیئے مگر دفاع کریں
بھی تو کس کا؟؟؟ ہم پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی اپنے اور اس ملک کے سب سے بد
ترین حکمرانوں کے حوالے کر بیٹھتے ہیں اور باقی کی چھوٹی چوٹیوں پر حفاظتی
پہرے بٹھانے کا ناٹک رچاتے ہیں یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ وہ جو سر پر چڑھے
بیٹھے ہیں وہ سب ادھر کا ادھر کر رہے ہیں۔ مگر ہم کسی ڈرامے کا حصے ہوتے
ہوئے روبوٹس کی طرح آنکھیں میچ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اپنا فرض
ادا ہوا سمجھتے ہیں۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہماری سرحدیں تسلی بحش حد تک
محفوظ ہیں مگر ان سرحدوں کے درمیان چھپے ہوئے دشمنوں سے حد درجہ خطرہ میں
ہیں۔اس سے بھی زیادہ ہمیں اپنے دماغوں میں موجود خرافاتی سوچوں سے بھی خطرہ
ہے۔بلکہ اصل خطرہ ہے ہی یہ کہ ہم اپنی سوچوں کو خالص کرنے میں ناکام ہیں
اورجب تک ہم اپنی سوچوں کو خالص نہیں کر لیتے ہم غیر محفوظ ہیں۔جب تک ہم
اپنی سوچ کو باکردار نہیں بنا لیتے ہم کسی بھی قلعہ جہاں اسلام محفوظ ہو کا
تصور بھی نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنی سوچ کو خلوص عملیت سے دھو نہیں لیتے
تب تک ہم اس معاشرے میں امیر المومنین کے زمانے کی یاد تازہ کرنے میں ناکام
ہی رہیں گے۔ہمیں دفاع مضبوط کرنا ہوگا مگر کن خرافاتوں اور برائیوں کے
خلاف؟؟؟
یہ سوال میں آپ کے لئے چھوڑتی ہوں۔ |