تم کیوں پاکستان گئے؟
(Muhammad Shoaib Tanoli, )
(لیش انت رو باکستان؟)
تم کیوں پاکستان گئے؟
قارئین بلکل سچا واقعہ جو کہ آج سے تقریباً ٤٤ سال پہلے کویت میں پیش آیا
آپ سب کی خدمت میں عرض ہے
کویت کے پولیس سٹیشن میں ایک انوکھی طرز کا کیس آیا تھا سب آفیسرز پریشان
تھے کہ اس معاملے میں انصاف کیسے کیا جائے کیس کی نوعیت کچھ اس طرح کی تھی
کے ٣ عدد انڈین حضرات نے پاکستان بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے
میں پاکستان کی سرحد کی حفاظت پرمامور محافظ نے ان کی جم کر پٹائی کی اب وہ
کویت پولیس کے پاس فریاد لے کر پہنچے کہ ہمارے ساتھ ہوئی زیادتی کا ہمیں
انصاف دلایا جائے-
قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کے معاملات انڈیا اور پاکستان کے بیچ ہیں تو کویت
پولیس کا ان سب میں کیا عمل اور دخل ہے ؟
بلکل میں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا جب پہلی بار لیکن جب واقعے کی حقیقت عیاں
ہوئی تو میرے بے اختیار میرے منہ سے قہقے کے بعد جو الفاظ نکلے تھے وہ بھی
یہی تھے کے لیش انت رو باکستان (تم پاکستان کیوں گئے)
تو جناب قصہ کچھ یوں تھا کہ کویت میں بسلسلہ روزگار انڈر کنسٹرکشن بلڈنگ
میں ٣ انڈین اور ایک پاکستانی خان صاحب کام کر رہے تھے اب انڈین اشخاص یہ
سوچ کر کہ ہمیں اس اکیلے پاکستانی آدمی پر برتری حاصل ہے کیونکہ ہم تعداد
میں ٣ ہیں اور یہ ١ ہے بس انہوں نے خان صاحب سے مذاق شروع کر دیا کہ ہم
پاکستان کو یہ کر دیں گے ہم پاکستان کو وہ کر دیں گے ہم پاکستان کو سبق
سکھا دیں گے ہم پاکستان کے اندر گھس کر پاکستانیوں کو ماریں گے-
خان صاحب پہلے تو چپ چاپ سنتے رہے یہاں تک کہ ان کا ضبط جواب دے گیا تو
انہوں نے ہاتھ میں پکڑے بیلچے سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور حب الوطنی سے
بھر پور لہجے میں فرمایا خوچہ پاکستان اور انڈیا کی سرحد تو دور ہے تم یہ
سمجھ لو اس لکیر کی میری طرف پاکستان ہے اور تمہاری طرف انڈیا اب اگر تم
تینوں مرد کا بچہ ہے تو پاکستان کی طرف کی لکیر پار کر کے دکھاؤ بس خان
صاحب کا اتنا کہنا ان کی مردانگی کو للکارنا اب ان ہندوستانیوں کی عزت نفس
کا مسئلہ بن گیا اور ان تین ہندوستانیوں نے پاکستان کے بارڈر کی طرف بھر
پور حملہ کر کے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی سرحد کی حفاظت پر
مامور محافظ نے بیلچے سے مار مار کر ان کا برا حال کر دیا کافی دیر مرمت
کروانے کے بعد جب وہ بارڈر کراس نہ کر سکے تو خان صاحب نے فرمایا مڑا تم
ایک لکیر تو پار کر نہیں سکے پاکستان کی حدود کیسے پار کرو گے جہاں ہمارے
جیسے لاکھوں جوان بیٹھے ہیں اب دوبارہ کبھی بھول کر بھی کسی کے سامنے یہ
بات مت کہنا کہ ہم پاکستان کے اندر گھس کر مارے گا یہ الفاظ کہہ کر خان
صاحب اپنا سامان سمیٹ کر گھر کو روانہ ہو گئے اور انڈین اشخاص ہسپتال علاج
کے بعد زخموں کی رپورٹ لئے انہوں نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے تو ان میں سے
ایک نے مشورہ دیا کہ اقوام متحدہ میں یہ معاملہ پیش کیا جائے یعنی کہ پولیس
سٹیشن میں تو جناب ٣ عدد زخمی پولیس سٹیشن میں شکایت لے کر حاضر ہووے کہ ان
کو ایک پاکستانی نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس کا نوٹس لیا جائے اور ہمیں
انصاف دلایا جائے -
پولیس سٹیشن سے بلڈنگ کے مالک کو فون گیا اور پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کوئی
خان صاحب کام کرتے ہیں ان کا فون نمبر چاہیے تو فون نمبر دے دیا گیا کال کی
گئی اور خان صاحب کو پولیس سٹیشن بلایا گیا اور دوران تفتیش خان صاحب سے
پوچھا گیا کہ آپ نے ان کو کیوں مارا تو خان صاحب نے پورا قصہ تھانیدار کے
گوش گزارہ قصہ سنتے ہی پولیس سٹیشن میں سب کے سب پیٹ پکڑ کر ہنسنے میں
مصروف تھے کوئی زمین پر گرا ہنس رہا ہے تو کوئی ہنسی کنٹرول کرنے کے چکر
میں کھانسی سےدوچار ہے کسی کی آنکھوں سے پانی جاری ہے لیکن ہنسی ہے کہ رکنے
کا نام نہیں لے رہی اور اگر ہنستے ہنستے ان کے منہ سے کچھ الفاظ نکلتے تو
وہ یہی ہوتے کہ
لیش انت رو پاکستان |
|