سانحہ کوئٹہ پر کمیشن رپورٹ۔۔۔متنازعہ کیوں؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سانحہ کوئٹہ کے بعد ملک کے اعلیٰ ادارے سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مبنی یک رکنی کمیشن قائم کیا گیاتھا تاکہ اس سانحہ کی تحقیقات کی جائیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کوئی راہ متعین کی جا سکے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے ایک نہایت قابل اور معزز جج ہیں اور ان کا تعلق بھی ایسے گھرانے سے ہے جس نے بانی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان بنانے میں اہم کردار اداکیا۔ اس کمیشن نے 56دن میں مختلف دستاویزی ریکارڈ ، گواہان اور دیگر موجود مواد کے بعد ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ۔26نکاتی اس رپورٹ میں وہ نتائج بیان کیے گئے تھے جو کمیشن نے دوران انکوائری اخذ کیے۔ ا ن نکات میں وزارت داخلہ سے لے کر صوبائی حکومت کی کارکردگی ، انٹیلی جنس اداروں سے لے کر لیویز اہلکاروں کی پروفیشنل استعداد ، میڈیا کے کردار سے لے کر ہسپتالوں کے معیار اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدآمد سے لے کر نیکٹا کی غیر فعالیت سب پر بحث کی گئی ہے ۔ بلاشبہ یہ رپورٹ حکومتی اداروں کی کارکردگی اور فعالیت کی آئینہ دار ہے اور اس کو بنیاد بنا کر ہمیں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہونے والی کمزوریوں کو دور کرنا ہے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح بدقسمتی سے سیاستدانوں نے پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں اس رپورٹ کو بھی سیاسی بنا دیا ۔ ہر سیاسی جماعت بشمول حکمران جماعت کے اس رپورٹ پر ردعمل اپنے سیاسی مفادات کو دیکھ کر دے رہی ہے ۔ دہشت گردی کی اس جنگ کو بھی ہم نے سیاسی مفادات کی لڑائی میں الجھا دیا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارا دشمن جو بے رحم بھی ہے اور موقع پرست بھی نے ہماری کمزوریوں کو سامنے رکھ کرہمیشہ ہمیں نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے ۔

جسٹس فائز عیسی کمشن کی رپورٹ میں یقینا کچھ خامیاں اور کمزوریاں ہو سکتی ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے ان خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پاکر اسے مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے ۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ قانونی و انتظامی اداروں کی نااہلی کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی بھی ہے ۔ اسی طرح صوبائی اور وفاقی حکو مت خصوصاً وزارتِ داخلہ دہشت گردی کے خلاف موثر کارکردگی نہیں دکھا سکی ۔نیشنل ایکشن پلان پر بھی مکمل طور پرعملدرآمد کرانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں اور ان کے عہدیداروں پر مکمل پابندی عاید کرتے ہوئے ایسی تنظیموں اور افراد کی فہرستیں وزارت داخلہ ، نیکٹاکی ویب سائٹس پر لگاتے ہوئے تمام صوبوں کو بھی یہ فہرست بھیجی جائیں تاکہ مختلف صوبوں میں بھی ان تنظیموں کے اجتماعات ، پروگراموں کو روکا جاسکے۔ رپورٹ میں انسداد دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے ادارے نیکٹا کی فعالیت پر سوال اٹھائے گئے اور نیشنل ایکشن پلان میں ناکامی کا بڑا سبب اس ادارے کی غیر فعالیت قرار دیا گیا ۔ اس کمیشن نے صوبائی حکومت کے وزیر داخلہ کے اس بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں انہوں نے اس واقعہ کے فورا بعدبیرونی ممالک کو ان واقعات کاذمہ دار قرار دے دیا ۔ کمیشن رپورٹ کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ کایہ بیان واقعہ کی تحقیقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح لویز کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ لیویز اور پولیس میں رابطہ کا کوئی واضح میکنزم موجود نہیں اور جہاں لیویز اہلکاروں کی غفلت ہو وہاں سول حکومت ان سے جواب طلب نہیں کر سکتی جس کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں فوری اور موثر جوابی کارروائی ممکن نہیں ہوپاتی۔

کمیشن میں جو سوالات اٹھائے گئے، جن خامیوں ، کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی، جس غیر فعالیت کا ذکر کیا گیا بلاشبہ وہ سب ہمارے نظام میں موجود ہیں ان کو دور کرنا حکومت وقت کی ضرورت ہے۔لیکن ایک اہم نکتہ جو شاید قابل احترام جج اٹھانا بھول گئے وہ یہ تھا کہ جس دشمن سے ہم نبر د آزما ہیں اس کے خلاف لڑنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں تو ایسے موقع پر عدلیہ ، میڈیا، اپوزیشن کہاں کھڑی ہے ۔ کیا یہ بات اپنی جگہ اہم نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری عدلیہ کے کردار پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں جن دہشت گردوں کو پکڑ کر عدالت میں پیش کیا جاتا ان میں سے بہت سے لوگ اس کمزور نظام کے باعث رہا ہوجاتے ۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملٹری کورٹس کا قیام محض اس وجہ سے عمل میں لایا گیا کہ موجودہ عدالتیں فوری انصاف فراہم کرنے میں ناکام نہ سہی البتہ سست رفتار ضرور ثابت ہوئی ہیں ۔ایسے بہت سے دہشت گردی کے کیس ہیں جن میں عدلیہ کے کردارپر محض کی جاسکتی ہے ۔ کرپشن اور دہشت گردی کا آپس میں تعلق بھی اپنی جگہ موجود ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کرپشن دہشت گردی کی وارداتوں میں ممد و معاون ثابت ہو رہی ہے ۔دہشت گردی کے خلاف ملٹری کورٹس سے فوری انصاف فراہم کیا جا رہا ہے دہشت گردوں کو پھانسیاں بھی دی جارہی ہیں تاہم کیا کرپشن کے خلاف ایسا فوری سستا انصاف ہماری عدالتوں سے بھی فراہم ہو رہا ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان عدالتوں میں موجود کرپشن کے کیس تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں ۔پانامہ کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر یہ کیس تاخیر کا شکار ہے تو محض اس کی وجہ عدلیہ ہے جس نے اس کیس کی وجہ سے پائے جانے والے انتشار کو بھی سامنے نہیں رکھا چھٹیوں کا اعلان کر دیا جس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ کیس ازسر نو شروع ہو گا ۔

وزیر داخلہ کی اس رپورٹ کے منظر عام پر آجانے کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس بھی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے جو براہ راست اس کمیشن کے متعلق ہیں ۔ اپوزیشن کی وزیر داخلہ کے خلاف مردہ مہم میں تو اس رپورٹ سے جیسے جان پڑ گئی ۔تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی سمیت دیگر وزیرداخلہ مخالف جماعتوں کو گو نثار گو کا جیسے جواز مل گیا۔تاہم چوہدری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں بہت سے مستند نکات پر بات کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ یکطرفہ ہے جس کی ثبوت وہ سوالات اور ان کے جواب ہیں جو چوہدری نثار سے کیے گئے ۔ کمیشن نے آخر وزیر داخلہ سے کیے گئے سوالوں کے جوابات کو اس رپورٹ کا حصہ کیوں نہیں بنایا ۔یہ ذمہ داری کمیشن پر عاید ہوتی ہے کہ ملک کے اہم منصب پر فائز ایک ذمہ دار شخص کے جوابات کو اس رپورٹ کاحصہ بنایا جاتا ۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات جسے نظر انداز کیا وہ بلوچستان میں غیرملکی مداخلت ہے ۔ بھارتی وزیراعظم سے لے کر ہر اہم عہدیدار کے بیانات آن دی ریکارڈ موجود ہیں لیکن کمیشن میں اس کا سے سے ذکر ہی نہیں ہے ۔ گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے کے مصداق اتنا اہم کمیشن اتنی اہم بات جسے پوری دنیا جانتی ہے اسے کیسے نظر انداز کر سکتی ہے یادیو کلبھوشن کا پکڑے جانا ، علیحدگی پسندوں کی مدد، افغان سرحد سے منسلک بھارتی قونصل خانے اور ان کی سرگرمیاں،سب کو معلوم ہیں ہمارے سیکورٹی ادارے مسلسل ان کے خلاف کام کررہے ہیں تاہم کمیشن کی رپورٹ اس اہم عنصر کو نظر انداز کرکے کس کو فائدہ پہنچانا چاہ رہی ہے ۔کمیشن کو وزیر داخلہ سے ذاتی سوالات کرنے کی بجائے وزارت کے متعلقہ اور کارکردگی سے متعلق سوالات کرتی تویہ رپورٹ متنازعہ نہ بنتی۔

وزیر داخلہ صاحب ! کچھ متنازعہ باتوں کے باوجود اس رپورٹ میں بہت سے اہم نکات کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ پالیسی سے متعلق سوالات کے جواب آپ کو دینے ہوں گے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آپ کی کارکردگی بہت بہتر ہے آپ کا دامن کرپشن سے صاف ہے جس انداز سے آپ نے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا وہ قابل تحسین ہیں ۔ عام طور پر جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اسی طرح آپ کی کارکردگی سے نظریں چرانا بھی ممکن نہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی و غیر سیاسی طور پر آپ سے اختلافات ہیں اور اسی کی بنیاد پرشور بھی اٹھایا جا رہا ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان درست سمت میں جا رہا ہے جس کا کریڈٹ آپ کو نہ دینا نا انصافی ہو گی ۔ تاہم کچھ کوتاہیاں موجود ہیں ۔پالیسی میں ابہام بھی موجود ہے اس ابہام کو دور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے ۔آپ ملک کے وزیر داخلہ ہیں اس لیے لوگ آپ سے عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ کو چیلنج ضرور کریں لیکن جو مثبت نکات اٹھائے گئے ہیں ان پر عمل کرنے کے لیے بھی لائحہ عمل بنائیں ۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں آپ اکیلے نہیں عوام، میڈیا ، اپوزیشن سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت دیگرتمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقوں کو ایک ساتھ کھڑا ہونا ہے اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام طبقوں کو ایک ساتھ کھڑا کریں ۔ ہمارا دشمن ہماری کمزوریوں کو دیکھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اسے یہ فائدہ مت اٹھانے دیں۔
Asif Khursheed Rana
About the Author: Asif Khursheed Rana Read More Articles by Asif Khursheed Rana: 97 Articles with 64618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.