بعض دفعہ انسان کسی سے بے جا توقعات وابستہ
کر لیتا ہے جب وہ پوری نہیں ہوتی تو اس کے ری ایکشن میں وہ ایسا کام کر
جاتے ہیں جس کا خمیازہ ان کی نسلیں بھگتیں ہیں ۔ غصے میں وقتی طور پر لوگوں
کو سمجھ نہیں آتی کہ جس کام کے لیے وہ کسی سے ناراض ہوئے ہیں ان کے بدلے
انہیں کیا کچھ ملا۔ انفرادی فائدے سے زیادہ اجتماعی فائدے کو ترجیحی دینی
چائیے ۔ جس سے انسان توقعات وابستہ کر تا ہے وقتی طور پر لوگ بھول جاتے ہیں
کہ وہ فرشتہ نہیں انسان ہے ۔ 100%کام ہونا نا ممکن ہیں ۔ 2011کے الیکشن میں
سابق وزیر صحت سردار قمر الزمان خان کو لوگوں نے جس طرح مینڈیٹ دیا اس کے
بدلہ میں انہیں کیا ملا یہ آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ جو کچھ سردار
قمر الزمان نے کیا وہ کتنے بڑے کام تھے مگر آج ایک عام آدمی سوال یہ اٹھا
رہا ہے کہ مجھے کیا ملا؟ بات پھر انفرادیت کی آ گئی ۔ لوگوں کے مسائل ہیں
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر یہ مسائل چٹکی بجانے سے حل نہیں ہو سکتے
ان کے لیے وقت چائیے ۔سردار قمر الزمان نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ
سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسلوں کا ، تو فیصلہ اب
عوام خود کر لیں کہ اگلی نسلوں کا کس نے سوچا اور ہماری اگلی نسلوں کے لیے
سردار قمر الزمان نے کیا کچھ کیا ہے ۔ 1996میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی
اور سردار قمر الزمان وزیر تعلیم بنے تو وسطی اور شرقی حلقے کے چپے چپے میں
سکولز دئیے اور اس کے بعد 2011کے الیکشن میں بننی والی حکومت میں اسی تسلسل
کو جاری رکھتے ہوئے سکولز ، کالجز ، پروفیشنل ہیلتھ انسٹیٹوٹ ، وویمن
یونیورسٹی ، بی ایچ یوز ، آر ایچ سیز کے علاوہ بے شمار پروجیکٹ باغ میں
لائے گئے جس کا فائدہ بالخصوص باغ اور بالعموم آزاد کشمیر کے عوام کو ہوا
جس کو مخالفین نے بھی سرخم تسلیم کیا اس کے باوجود عوام کو اور کون سے کام
چائیے تھے جو نہیں ہو سکے؟؟اور اگر نہیں بھی ہو سکے تو وہ ان قومی کاموں پر
ایک نظر دوڑا لیتے تو شاید ان کو سمجھ آ جاتی میرا کام ان کامو ں سے زیادہ
ضروری نہیں تھا۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم ابھی سوچ کی اس بلندی
تک نہیں پہنچی کہ وہ ان کاموں کا سمجھ سکتی ۔ سردار قمر الزمان کا قصور صرف
اتنا تھا کہ جو کام آج سے پچاس سال بعد ہونے چائیے تھے وہ ان کاموں کو وہ
آج کر گئے ہیں ۔ یہی کام اگر پچاس سال بعد جب باغ کے عوام کو ان کاموں کی
ضرورت محسوس ہوتی اس وقت یہ کام ہوتے تو عوام اسے بڑا لیڈر مانتے جو یہ کام
کر جاتا مگر وقت سے پہلے دی ہوئی سہولیات کا کسی کو احساس نہیں ۔ دوسرے
اضلاع کی حالت زار دیکھیں اور اپنے باغ کو دیکھیں تو احساس ہو جاتا ہے کہ
باغ کو کس نے سنوارا ہے باغ کا حقیقی باغبان کون ہے ۔ کس نے باغ کے لیے
اپنی ہی حکومت سے ہی ناراضگی مول لی ، کس نے باغ کے پانچ ہزار سے زاہد
لوگوں کو ملازمتیں دیں ، کس نے تعلیمی پیکج لایا، کس نے ہیلتھ پیکج لایا ،
وہ صرف ایک ہی نام ہے سردار قمر الزمان خان ، بعض نا عاقبت اندیشوں کا خیال
ہے کہ سردار قمر الزمان کی سیاست ختم ہو گئی وہ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں
ان کے لیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جنگل کی خاموشی کو دیکھ کر یہ اندازہ مت
لگائیں کہ یہاں شیر نہیں ہے شاید وہ سو رہا ہو۔ سردار قمر الزمان کو باغ کی
سیاست سے نفی کرنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں لیڈر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں
اور سردار قمر الزمان جیسا لیڈر شاید باغ کو دوبارہ نہ مل سکے ۔ لوگوں کو
بخوبی احساس ہو رہا ہے کہ شاید انہیں ایسا نہیں کر نا چائیے تھا۔ دوران
الیکشن سبز باغ دیکھانے والوں کی اصلیت بھی آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آ رہی
ہے کہ وہ باغ کے لوگوں کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں باغ کے پروجیکٹ آہستہ
آہستہ باغ سے شفٹ ہو رہے ہیں ۔ لوگ اب جائیں تو کس کے پاس جائیں جن کو وہ
خود سامنے لائے تھے وہی ان کے ساتھ ہاتھ کر رہے ہیں ۔ ایسے عالم میں خاموشی
ہی میں عافیت سمجھ کر چپ بیٹھے ہیں ۔آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت
بنتے ہیں نئی نویلی حکومت نے فنڈز نہ ہونے کا واویلا شروع کر دیا۔ پیپلز
پارٹی کی حکومت نے بھی آخری ساڑھے تین سال وفاقی حکومت سے فنڈز نہ ملنے کے
شکوے کر تے رہے مگر ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر منصوبہ جات کی تکمیل کے
لیے فنڈز نہ ہونے کا واویلا نہیں کیا تھا۔ پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت
ہے اور آزاد کشمیر میں بھی اب فنڈز نہ ہونے کی بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ
وفاق ان سے کس چیز کا بدلہ لے رہا ہے ؟ پانا مہ لیکس وزیر اعظم پاکستان
میاں نواز شریف کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے کسے وہ نہ نگل سکتے ہیں اور نہ
اگل سکتے ہیں ۔ چیئرمین تحریک انصاف کا موقف اس وقت جاندار نظر آ رہا ہے کہ
میاں نواز شریف کو استفیٰ دے کر کیس کا سامنا کرنا چائیے ۔آزاد کشمیر اور
بالخصوص باغ میں اس وقت سردار ضیا القمر اپوزیشن کر تے نظر آ رہے ہیں مگر
راجہ خورشید اور سردار قمر الزمان نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ انہیں
چائیے کہ عوام سے اپنا ناطہ جوڑے رکھیں اور کسی نے بھی باغ کے حقوق پر شب
خون مارنے کی کوشش کی تو دیوار کی طرح کھڑے ہو جائیں پھر دیکھیں عوام ان کے
پیچھے کیسے کھڑی ہو تی ہے ۔
سرِ محفل جو بولوں تو زمانے کا کھٹکتا ہوں
رہوں میں چپ تو اند ر کی بغاوت مار دیتی ہے |