یہ الیکشن 2013سے چند روز قبل کا دن تھا
تلہ گنگ کے جنرل بس اسٹینڈ کے ساتھ متصل وسع و عریض گراؤنڈ میں میں ہزاروں
کی تعداد میں رنگ برنگی کرسیاں لگائی گئی تھیں،آج یہاں پر ملک کی ایک بڑی
سیاسی جماعت کے بڑے لیڈر میاں محمد نواز شریف کی آمد تھی، فصلوں کی کٹائی
کے دن تھے تلہ گنگ اور گردونواح کی آبادی کا بڑا حصہ زمینداروں پر مشتمل ہے
اور یہ لوگ ان دنوں میں کوئی سیاسی جلسہ تو دور کی بات کوئی قریبی عزیز بھی
وہ فوت ہوجائے تو ابھی ان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ جائے بنا ہی کام چل
جائے تو بہتر ہے سو ان دنوں میں یہاں پہ میاں نواز شریف کا جلسہ رکھ کے
تمام ن لیگی قیادت سخت پریشان تھی کہ خدانخواستہ اگر لوگ نہ آئے تو الیکشن
کا پانسہ مکمل طور پر مخالف جماعت کے حق میں ہو جائے گا یہاں پہ مقابلہ ق
لیگ کے بھاری بھر کم امیدوار چوہدری پرویز الٰہی اور ن لیگ کے سردار ممتاز
ٹمن کے درمیان تھا،صورتحال مکمل طور پر پرویز الٰہی کے حق میں نظر آ رہی
تھی،ق لیگ کے سرکردہ لوگ بھی اس لحاظ سے مطئن تھے کہ یہ جلسہ ایک ناکام شو
کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ فصلوں کی برداشت کا موقع کسان کی کاشتکاری زندگی
کا سب سے اہم موقع ہوتا ہے لوگوں کے نہ آنے یا نہ آسکنے کا سارا فائدہ ق
لیگ کو ہو نا تھا،جلسے کا وقت شام تین بجے رکھا گیا،12ایک بجے لیگی متوالوں
نے اسٹیج پر چڑھ گلے پھاڑ کر تقریرں شروع کر دیں دو بجے تک جلسہ گاہ میں
بیس فیصد لوگ بھی نہ پہنچ سکے تھے،جوں جوں وقت گذر رہا تھا لیگی امیدوار
اور مقامی قیادت کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی مگر پھر چشم فلک نے عجب نظارہ
دیکھا کہ اچانک لوگ ٹولیوں اور جلوسوں کی شکل میں تلہ گنگ کے مختلف علاقوں
اور سڑکوں پر نمودار ہوئے اور شہر کی ہرسڑک ٹریفک کی وجہ سے بلاک ہو
گئی،دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف پو را پنڈال لوگو ں سے بھر گیا بلکہ باہر او ر
آس پاس بھی لوگ جمع ہو گئے اور دوسری طرف لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری
تھا،چار بجے کے قریب جب میاں نواز شریف کا ہیلی کاپٹر تلہ گنگ کی فضا میں
نمودار ہو ا تو نیچے حد نظر تک لوگ ہی لوگ تھے،میاں صاحب نے فضا سے ہجوم پر
نظر ڈالی اور تلہ گنگ میں اپنی پارٹی کی مقبولیت دیکھ کر مطمئن اور مسرور
ہو گئے،جب اسٹیج پر پہنچے تو لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر حیران رہ گئے
میاں صاحب نے اسٹیج پر موجود مقامی لیگی امیدواروں سے پوچھا ان لوگوں کے
لیے کیا اعلان ہونا چاہیے تو خالد ملک ٹہی نے میاں صاحب کے کان میں سرگوشی
کی کہ جناب کچھ بھی نہیں بس ضلع تلہ گنگ کا اعلان کر دیں اور پھر
دیکھیں،یہی ہوا میاں صاحب نے آتے ہی حسب معمول اپنے مشکل دنوں اور پرویزی
ظلم وستم کے رونے دھونے کے بعد اعلان کیا کہ بھائی مجھے اندازہ نہیں تھا کہ
یہاں اتنے لوگ ہوں گے اور ایسا کراؤڈدیکھنے میں آئے گا،اس تلہ گنگ کو تو
ضلع ہونا چاہیے اور ہم اگر اقتدار میں آگئے تو انشاء اﷲ اسے ضلع بنائیں
گے،بس یہ اعلان کرنا تھا کہ پورے ہجوم میں سنسنی اور بجلی دوڑ گئی ،ن لیگ
زندہ باد اور میاں دے نعرے وجن گے کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی
تھی،لوگوں کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ تمام رکاوٹیں ہٹاتے میاں صاحب
کے اسٹیج کے عین نیچے صرف دس فٹ کے فاصلے تک پہنچ گئے ساری سیکورٹی دھری کی
دھری رہ گئی اور میاں نواز شریف کو خود یہ کہہ کر لوگوں کو روکنا پڑا کہ بس
بھائی بس کیا اب مجھے نیچے گراؤ گے،تقریر کے بعد میاں صاحب چلے گئے اور لوگ
اپنے جوش و جذبے کو سمیٹے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے،میاں صاحب کے اس
اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ن لیگ کے سردار ممتاز ٹمن نے ق لیگ کے
مرکزی راہنما اور ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الٰہی کو شکست دے دی حالانکہ
چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں اپنے دست راست حافظ
عمار یاسر کے ذریعے تلہ گنگ میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے
تھے،یہ پرویز الٰہی یہاں سے ہار گئے اور ممتاز ٹمن جیت گئے،تاہم الیکشن
جیتنے کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنے بے شمار وعدوں کی طرح یہ
وعدہ بھی بھول گئے،اور اہلیان تلہ گنگ کے ساتھ اس بار بھی ہاتھ ہو
گیا،مسئلہ یہ ہر گز نہیں کہ تلہ گنگ ضلع بننا چاہیے یا ضلع بننے کے بعد
معاملات چلانے کے لیے ریونیو کہاں سے آئے گا مسئلہ یہ ہے کہ اگر نہیں بن
سکتا یا کوئی قانونی پیچیدگی ہے تو ہر بار لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر
انہیں مجروح کیوں کیا جاتا ہے،مگر ملک بھر کی طرح یہاں کہ رہنے والوں کی
بدقسمتی بھی یہی ہے کہ سیاستدانوں کا مطمع نظر صرف ووٹ کا حصول ہے اور اس
کے لیے کوئی بھی را ستہ یا طریقہ اختیا ر کیا جائے جائز ہے،ویسے بھی نئی
ٹرمنالوجی میں ـ:وعدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے:،،،،،،،،تلہ گنگ کے
لوگوں کے لیے اب ضلع تلہ گنگ دکھتی رگ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ان سے ہر
بات اس ایشو پہ منوائی جا سکتی ہے او ر بہت سے لوگ اب اس کواپنی سیاست اور
مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں،چند سال قبل جب لطیف کھوسہ گورنر تھے اور
انہیں بیٹھے بٹھائے نہ جانے کیا سوجھی کہ تلہ دوڑ پڑے ،آج کے پی ٹی آئی
چکوال کے ضلعی صدر منصور حیات ٹمن جو اس وقت پیپلز پارٹی کو اپنی خدمات سے
مستفیداور سرفراز فرما رہے تھے کھوسہ کے میزبان تھے اور چونکہ پیپلز پارٹی
کی مثالی کارکردگی کی وجہ سے خدشہ تھا کہ درجن بھر افراد بھی جمع نہ ہوسکیں
گے تو اس وقت لوگوں کو بتایا گیا کہ لطیف کھوسہ ضلعی تلہ گنگ کا اعلان کریں
گے اور یوں اچھا خاصہ شو لگا لیا گیا بعد میں پتہ چلا کہ گورنر کا تو یہ
اختیار ہی نہیں کھوسہ صاحب نے بھی کمال مہارت سے :میں وزیر اعلیٰ سے بات
کروں گا کہہ کر اپنا رنگ جمایا اور یہ جا وہ جا:اس کے بعد ایک معروف صحافی
بھی حسب عادت چند دن سرگرم رہے اور اپنے بابا جی کے ساتھ ایک بڑا جلسہ بھی
کیا جس میں صحافی صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر تلہ گنگ کو ضلع نہ بنوایا تو
میں اعوان نہیں کہلاؤں گا اعوان صاحب کو اس لحاظ سے رعایت دی جا سکتی ہے کہ
کبھی نہ کبھی تو بنے گا ہی تلہ گنگ ضلع جبکہ بابا جی نے فرمایا تھا میں بھی
ضلع کے لیے اسمبلی کے باہر بیٹھ کر دھرنا دوں گا اور بھرپور احتجاج کروں گا
،اور حاضرین یہ واعظ سن کر حیران و پریشان تھے کہ جناب ہم نے آپ کو اسمبلی
کے اندر بھیجا ہے اندر تو آج تک : آنے پئین تے وینے پئین :کے علاوہ کوئی
بات کی نہیں کم از کم یہ بات ہی کر دیں آپ کو اسمبلی کے اندر احتجاج کے لیے
منتخب کر کے بھیجا گیا جبکہ آپ باہر بیٹھ کر احتجاج کی نوید سنا رہے ہیں،وہ
ق لیگ اور مشرفانہ دور تھا آج ن لیگ اور شریفانہ دور ہے،میاں صاحب کے اعلان
کو چار سال سے اوپر کا عرصہ ہونے کو ہے مگر تلہ گنگ ضلع بنا ہے نہ دور دور
تک کہیں کو ئی نشان وامکان ہی نظر آ رہا ہے،اب رہی سہی کسر تلہ گنگ کو ضلع
چکوال کی چئیرمینی دے کر پوری کر دی گئی ہے کہ نیا ضلع آپ نے کیا کرنا ہے
ہم نے پرانا بھی آپ کو دے دیا ہے،حافظ عمار یاسر نے سچ کہا ہے کہ تلہ گنگ
نے چکوال کی چئیر مینی لے کر ضلع تلہ گنگ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا
ہے اور آئندہ تلہ گنگ ضلع نہیں بن سکے گا،میاں نواز شریف اور ان کے سابقے
لاحقوں سے گذارش ہے کہ جو وعدہ بھرے جلسے میں کیا تھا وہ ایفا کریں ورنہ
اگر اہلیان تلہ گنگ ضلع کے نام پر بلیک میل ہو سکتے ہیں تو جب اپنی پہ آئے
تو دن میں تارے بھی دکھا سکتے ہں کہ ان کے پاس پرویز الٰہی کی شکل میں ایک
مظبوط امیدوار پہلے سے موجود ہے،،،،،،،،،، |