بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا تین
روزہ دورہ کیا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز،نائب ولی
عہد ‘سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان اور سعودی فورسز کے سربراہ عبدالرحمن
بن صالح سے ملاقاتیں کر کے دفاعی امور اور خطہ کی سکیورٹی پر تبادلہ خیال
کیا ہے۔ ریاض میں ہونے والی ان ملاقاتوں کے دوران حرمین شریفین کے تحفظ ،
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور
علاقائی استحکام کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری قیادت نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ خطہ
میں امن کیلئے دونوں ملکوں کا کردار انتہائی اہم ہے اور شدت پسندی سے نمٹنے
کیلئے مشترکہ میکنزم بنانے اور عسکری تعاون بڑھاتے ہوئے باہم متحد ہو کر
کوششیں کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا پاکستانی آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ
پہلا بین الاقوامی دورہ تھا جو سعودی عرب کا کیا گیا ہے۔ ان کے ریاض پہنچنے
پر سعودی حکام کی جانب سے زبردست استقبال کیا گیا۔بعض تجزیہ نگاروں کی جانب
سے اس دورہ کو معمول کا حصہ قرار دیا گیا ہے تاہم وہ جن حساس حالات میں
سرزمین حرمین شریفین پہنچے ہیں اس لحاظ سے ان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا
حامل ہے اورکہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور سعودی عرب کے
درمیان عسکری تعاون میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ اس وقت بین الاقوامی
صورتحال یہ ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کی طرف سے آئے دن سعودی عرب کی
سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملے کر کے سعودی فورسز کو نقصان پہنچانے کی
کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ سلسلہ یہاں تک بڑھ چکا ہے کہ حوثیوں نے
مسلمانوں کے سب سے مقدس مقام مکہ مکرمہ پر بھی میزائل داغنے سے گریز نہیں
کیا۔ اگر سعودی فورسز کی طرف سے بہترین عسکری صلاحیتیوں کا مظاہرہ کرتے
ہوئے اسے فضا میں ہی تباہ نہ کیا جاتاتو خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔
سعودی عرب کی افواج اپنی کامیاب حکمت عملی سے یمن میں حوثی باغیوں کی قوت
توڑنے میں مصروف ہیں مگر سرزمین حرمین شریفین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے
کی مذموم خواہش رکھنے والی بیرونی قوتوں کی طرف سے حوثی باغیوں کی درپردہ
مدد اور انہیں اسلحہ و دیگر وسائل فراہم کئے جانے کی وجہ سے اس بغاوت
کوابھی تک مکمل طور پر کچلا نہیں جاسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یمنی باغی دشمنان
اسلام کی شہ پر سعودی عرب کی سلامتی و استحکام کوکمزور کرنے اور مقدس
مقامات کو نقصان پہنچانے کی سازشوں سے بھی باز نہیں آرہے۔ اسی طرح شام کی
صورتحال بھی ساری دنیا کے سامنے ہے۔صلیبیوں و یہودیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے
والا بشار الاسدحکومت نے اپنے ہی عوام پر ظلم و بربریت کی بدترین تاریخ رقم
کرتے ہوئے ہلاکو خاں کی یاد تازہ کر دی ہے اور سینکڑوں بچوں، عورتوں اور
نوجوانوں کا قتل عام کرتے ہوئے پورے شہر کو قبرستان میں تبدیل کر کے رکھ
دیا ہے۔ حلب کی سڑکوں پر ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں اور زخمیوں کو طبی
امداد فراہم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بشارکی فوج اور اس کے حامی عسکری گروہ
حزب اﷲ نے شہر کی سب سے بڑی امیہ مسجد سمیت دیگر کئی مساجد اور ان میں
موجود قرآن پاک کے نسخوں کو شہید کر دیا ہے۔شامی فوج نے مسجدوں ، گھروں اور
گلیوں میں گھس کر لوگوں کے چہروں اور سینوں پر گولیاں برسائیں اور بچوں و
خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ روسی فضائیہ کی بمباری سے پورا حلب شہر کھنڈر
بن چکا اور کسی قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے
استعمال سے لاشیں مسخ ہو چکی ہیں۔ ایک ہی دن میں سینکڑوں عورتیں اور بچے
قتل کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس وقت ایسی تصاویر گردش
کر رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔مقامی باشندوں کا سوشل میڈیا
پر اپنے پیغامات میں کہنا ہے کہ ہلاکو خاں نے بغداد اور شام پر حملہ کیا
تھا تاہم بشار حکومت نے روس اور ایران کی مدد سے اپنے ہی ملک میں سنی
مسلمانوں کا وحشیانہ انداز میں قتل عام کیا اور ہزاروں مردوں کو گھروں سے
زبردستی اٹھا کر عقوبت خانوں میں ڈال دیا ہے۔ساری دنیا کا میڈیا چیخ چیخ کر
کہہ رہا ہے کہ گھروں میں گھس کر بچوں اور عورتوں کو گولیاں ماری جارہی ہیں
لیکن حلب کی تباہی اور معصوم لوگوں کا خون بہائے جانے پر کسی عالمی قوت کا
ضمیر نہیں جاگا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سلامتی کونسل کی جانب سے ان واقعات
کو شرمناک قرار دیا گیا ہے مگر ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی عملی
اقدام نہیں اٹھایا جارہا جس سے مسلم دنیا میں یہ سوچ مضبوط ہو ئی ہے کہ یہ
ادارے اور تنظیمیں صرف مسلمانو ں پر پابندیاں لگانے کیلئے بنائے گئے ہیں
وگرنہ شام میں کھلی آنکھوں سے انسانیت کی تباہی اور انسانی حقوق کی
پامالیاں دیکھ کر بھی بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کے کانوں پر جوں تک
نہیں رینگ رہی۔ ایک طرف یمن اور شام کی یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب مسلمان
ملکوں میں سازش کے تحت فتنہ تکفیر اور خارجیت کا شکار تنظیموں کو پروان
چڑھا کر اندرونی طور پر انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی
جارہی ہیں۔ داعش جیسی تنظیموں کو مضبوط کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے
جارہے ہیں اورپاکستان، سعودی عرب اورترکی جیسے ملکوں کو خاص طور پر سازشوں
کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان حالات میں مسلمان ملکوں کا باہم متحد ہونا اور
اپنے دفاع کیلئے مشترکہ دفاع کیلئے مضبوط پالیسیاں ترتیب دینا بہت ضرور ی
ہے۔ لہٰذا میں سمجھتاہوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے
دوران علاقائی استحکام کیلئے مل کر کام کرنے ، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ
پھینکے اور حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے متحد ہو کر عملی اقدامات اٹھانے کے
فیصلے لائق تحسین ہیں۔ مسلمان ملکوں کو درپیش تکفیر اور خارجیت کا فتنہ
کچلنے کیلئے مشترکہ میکنزم قائم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر میں
سمجھتاہوں کہ بیرونی قوتوں کی سازشوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح
یمن اور شام کی صورتحال پر بھی مسلمان ملکوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور متفقہ
پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ حرمین شریفین کے تحفظ اور شام میں
مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بدترین مظالم کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ترکی
میں روسی سفیر کا قتل بھی ایک بڑی سازش کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے۔ مسلمان
ملکوں میں کسی غیر ملکی سفیر کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ ترکی نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور قاتل
کو بھی اسی وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تاہم بین الاقوامی قوتیں
مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اس ایشو کو ترکی کی سلامتی و استحکام کو نقصان
پہنچانے کیلئے استعمال کرسکتی ہیں۔ مسلمان ملکوں کی قیادت کو اس ساری
صورتحال پر تدبر اور حکمت سے کام لینا اور بیرونی سازشوں کا توڑ کرنا ہو گا۔
بہرحال جہاں تک پاکستانی آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کا تعلق ہے تو اس سے
دونوں ملکوں کے مابین تعلقات یقینی طورپر اور زیادہ مستحکم ہوں گے۔ سعودی
عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ نبھانے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا
اور وطن عزیز پاکستان کے ایک سچے اور مخلص دوست ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج کے آرمی چیف اور خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان
بن عبدالعزیز کی طرف سے کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تاریخی قریبی
تعلقات، اخوت اور بھائی چارہ ‘ پائیدار شراکت داری میں تبدیل ہو گئے
ہیں۔امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل اور دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کی
سرکوبی کے لیے پاک عرب رہنماؤں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ
پاکستان اور عرب ملکوں کے درمیان یہ تعلقات اسلام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں
کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس
اتحاد میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی ‘ اسی
طرح سعودی عرب کی زیر قیادت 34ملکی اتحاد کو مزید مضبوط و مستحکم بنایا
جاتا ہے تو اس کے بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور نہ صرف حرمین شریفین کا
تحفظ بلکہ شام میں نہتے مسلمانوں کے قتل جیسے مسائل حل کرنے میں بھی آسانی
ہو گی۔ |